پیرا شوٹرز

عابد محمود عزام  جمعـء 22 جون 2018

پاکستان میں آیندہ عام انتخابات 25 جولائی کو منعقد ہونے جا رہے ہیں ۔ عام انتخابات 2018ء کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے پارٹی قیادتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام پر ٹکٹوں کی تقسیم کی حوالے سے کافی لے دے ہو رہی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ اپنے نظریاتی امیدواروں کو نظر انداز کرکے جماعت میں شامل ہونے والے نئے بااثر افراد کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ٹکٹوں کی مبینہ غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ان جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا سمیت مختلف شہروں میں احتجاج ہوا۔

تحریک انصاف نے متعدد حلقوں میں چند ماہ قبل دیگر جماعتوں سے شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں، جن کی خاطر اپنے کئی نظریاتی امیدواروں کو نظر اندازکیا گیا ہے۔ اسی لیے ملک کے کئی حلقوں میں پی ٹی آئی کے نظریاتی امیدوار احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ ٹکٹوں کی غیرمنصفانہ تقسیم پر بنی گالہ پر بھی پی ٹی آئی کے کارکن سراپا احتجاج ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن ) نے بھی ٹکٹوں کی غیرمنصفانہ تقسیم کرتے ہوئے خواتین کی مخصوص نشستوں پر اپنوں کو نوازا۔

مسلم لیگ (ن) کی خواتین نے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد حلقوں میںمسلم لیگ (ن) نے ٹکٹوں کی غیرمنصفانہ تقسیم کی، جس پر نظریاتی کارکنوں کی جانب سے بھی شدید احتجاج کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے ٹکٹوں کے معاملے میں اپنی ہی جماعت کے خلاف احتجاج کیا اور اسلام آباد میں اپنی جماعت کے دفتر پر قبضہ بھی کیے رکھا۔

سیاسی جماعتوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے پارٹی ٹکٹ کے لیے اپنی مرضی کا معیار اور اہلیت مقرر کریں، مگر ان کے مقررکیے ہوئے معیار سے جمہوریت کا معیار براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں جمہوریت ، جمہوریت کی رٹ تو لگا کر رکھتی ہیں، لیکن طاقتور امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے چکر میں نہ صرف جمہوریت، جمہوری کلچر اور روایات کو کمزور کرتی ہیں، بلکہ ٹکٹوں کی تقسیم کا خود ساختہ معیار اور طریق کار سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔

یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ تمام معروف سیاسی جمہوری جماعتوں میں جمہوریت برائے نام ہی ہے، ان پر مخصوص خاندانوں اور با رسوخ افراد کا قبضہ ہے، جو جماعت کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں ۔ جاگیر دارانہ سوچ رکھنے والے سیاسی قائدین اپنی جماعت کے کسی بھی رکن یا کارکن کو اس امر کی اجازت دینے کو قطعاً تیار نہیں ہوتے کہ وہ اپنا اختلافی نوٹ جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں بھی ریکارڈ پر لا سکیں، اگر کوئی ان کی ’’آمریت‘‘ پر تنقید کرتا ہے تو اسے چلتا کردیا جاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں پر قابض قائدین نے ہی اپنی جماعتوں کے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے بااثر، سرمایہ دار اور چاپلوس ’’پیراشوٹرز‘‘ کو ٹکٹ تقسیم کیے ہیں۔ سیاسی اصطلاح میں ’’پیراشوٹرز‘‘ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی مقبولیت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ پانچ سال ایک پارٹی کی حکومت میں گزارتے ہیں اور پھر عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی وفاداری تبدیل کرلیتے ہیں اور دوبارہ نئی حکومت کا حصہ بن کر اقتدار کے مزے لیتے ہیں۔

’’پیراشوٹرز‘‘ کو جگہ دینے سے نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور جو لوگ کسی نظریے کی بنیاد پر حقیقت میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں اور عملی طور پر اپنی اخلاقی، سماجی و سیاسی ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے نظریاتی وابستگی کو قبول کرتے ہوئے ایک قطرے سے سمندر میں تبدیل ہوجاتے ہیں، ان لوگوں کو ہی سچا نظریاتی کارکن کہا جا سکتا ہے۔

نظریاتی کارکن کسی بھی تنظیم یا گروپ میں ریڑھ کی ہڈی مانند ہوتا ہے۔ یہ اپنی تنظیم کو فرش سے عرش تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دن رات بغیر تنخواہ معاوضے کے اپنی تنظیم کے لیے کام کرتا ہے اور کبھی کسی بھی قیمت پر جھکتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے، لیکن سیاسی قیادت ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت یہ نہیں دیکھتی کہ جب وہ حزب مخالف میں تھی تو کسی مخصوص حلقے میں اس جماعت کے کسی رہنما نے پانچ سال بعض اوقات اس سے بھی زائد عرصہ اس حلقے میں محنت کی اور پارٹی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور پارٹی کو اس حلقے میں زندہ رکھا اور جب پارٹی کے اقتدار میں آنے کی امید پیدا ہوئی تو اس سیاسی کارکن یا رہنما کی بجائے کسی دوسری جماعت سے آئے طاقتور امیدوار کو ٹکٹ دے دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں طاقتور خاندانوں کو فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے، جو اپنا غلبہ اور سیاسی تسلط کئی دہائیوں سے جمائے ہوئے ہیں۔ جس جماعت کی بھی حکومت آتی ہے، یہ لوگ اس جماعت میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح یہ لوگ برسوں سے عوام کا حق ہڑپ کر رہے اور مفادات سمیٹ رہے ہیں۔

ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں امیدواروں کا فیصلہ صرف متعلقہ پارٹیوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ انتخابی حلقوں کے عوام خود کرتے ہیں ۔ عوام میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں، جب کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیاں امیدواروں کو نامزد کرتی ہیں جو بعض صورتوں میں میرٹ کے خلاف بھی ہوتے ہیں، کیونکہ سیاسی پارٹیاں انتخاب جیتنے کے لیے مضبوط امیدواروں یعنی’’الیکٹ ایبلز‘‘کو ترجیح دیتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اصولوں کی بجائے اقتدار کی سیاست کا دوردورہ ہے، اس لیے سیاسی پارٹیاں ہمیشہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ ایسے لوگ جہاں سے ملیں، انھیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔

خود یہ لوگ بھی ہوا کا رخ دیکھتے رہتے ہیں۔ جس پارٹی کا پلڑا ذرا بھاری دیکھیں، اپنی سالہا سال پرانی پارٹی کو چھوڑ کر اس میں شامل ہونے میں کوئی عارنہیں سمجھتے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا ہمارے ملک میں عام سی روایت ہے اور سیاسی پارٹیوں نے اس کی حوصلہ افزائی کرکے ’’لوٹاکریسی‘‘ کوفروغ دیا ہے جو ملک اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک مستحکم اورمضبوط سیاسی کلچر قائم نہیں ہوسکا، لیکن ’’لوٹوں‘‘ کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی مستحکم نہیں ہوسکتی۔

اس معاملے میں عوام کا قصور بھی ہے جو پانچ سال تو اپنے حلقے کے منتخب سیاست دان کی نااہلیوں پر شور مچاتے رہتے ہیں، لیکن جب وہی سیاست دان اگلے الیکشن میں ان کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے تو دوبارہ اسے ہی منتخب کرلیتے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ سیاسی نمایندے نظریاتی اور شفاف کردار کے حامل ہونے چاہیے، لیکن خود یہی عوام نظریاتی اور اہل سیاست دانوں کی بجائے اپنی پارٹی میں شامل ہونے والے وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بہت سے تو بری شہرت کے افراد کو منتخب کرتے ہیں، اگر عوام ہمیشہ برے کردارکے حامل سیاست دانوں اور ’’پیرا شوٹرز‘‘ کو مسترد کردیں، جو چاہے اپنی جماعت میں ہی شامل ہوں تو سیاسی پارٹیاں بھی آیندہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ہر پانچ سال بعد حکومت میں شامل ہونے والے ’’پیراشوٹرز‘‘ کو نظر انداز کرنے لگیں گی۔

سیاسی جماعتوں کو یہ بھی چاہیے کہ اگر اقتدار کے لالچ میں کوئی سیاست دان کسی جماعت میں شامل ہو تو انھیں دوسری پارٹی میں آنے کے بعد کم از کم دوسال تک انتخابی ٹکٹ یاکوئی عہدہ نہ دیا جائے۔ جمہوریت کا شور مچانے والی سیاسی جماعتیں اگر واقعی جمہوریت کواستحکام دینا چاہتی ہیں تو انھیں اپنی صفوں میں سے ’’پیراشوٹرز‘‘ کو نکال باہرکے نظریاتی لوگوں کو آگے لانا ہوگا، تاکہ نظریاتی لوگ جمہوریت اور اپنی جماعت کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔