خود احتسابی کے بغیر

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 23 جون 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کسی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما کی حمایت یا مخالفت کی دو وجوہات ہوتی ہیں، ایک نظریاتی، دوسری مالی منفعت یا مراعات کا حصول۔ کالم کے قاری اس حوالے سے کالم نگار کے بارے میں ایک واضح رائے رکھتے ہیں وہ کالم نگار جو سیاسی استحصال کی یکسانیت سے تنگ ہیں اور اس میں تبدیلی کی چھوٹی سی امید کو بھی سپورٹ کرتے ہیں انھیں اس وقت بڑی ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ ان رہنماؤں کو پٹری سے اترتا دیکھتے ہیں جن سے امیدیں وابستہ ہوں۔

ہمارے ملک میں بالادست طبقات یعنی اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر بلاشرکت غیرے قابض ہے۔ بے چارے عوام سیاسی اور معاشی غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔اس صورت حال کے خلاف عموماً  اپوزیشن آواز اٹھاتی ہے اورعوام کو متحرک کرتی ہے لیکن جن ملکوں میں حکمران طبقات اور اپوزیشن ایک ہی تصویرکے دو رخ بنے رہتے ہیں وہاں سیاسی نظام میں تبدیلی کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال یہی ہے کہ حکمران اور اپوزیشن ایک تصویرکے دو رخ بنے ہوئے ہیں، ایسی مایوس کن صورتحال میں تبدیلی کی معمولی سی امید بھی ایک بڑا سہارا بن جاتی ہے ۔ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ اپوزیشن میں مڈل کلاس کی سیاسی اور مذہبی پارٹیاں اور قیادت موجود ہے جن میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ مڈل کلاس اپوزیشن میں ترقی پسند جماعتیں بھی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ترقی پسند مڈل کلاس اور مذہبی مڈل کلاس خوابوں کی دنیا میں اس طرح کھو گئی ہیں کہ شاید صور اسرافیل ہی انھیں خوابوں کی دنیا سے باہر لائے۔

ایسی مایوس کن صورتحال میں جب ایک مڈل کلاس سیاسی رہنما نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تو حالات سے مایوس قلم کاروں نے اس کی حمایت کی کہ شاید یہ مڈل کلاس کم ازکم اس اشرافیائی تسلسل کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے جو ستر سال سے اس ملک کے 21 کروڑ عوام کے کندھوں پر اس طرح سوار ہے کہ عوام کے کندھے اس بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے اب زمین کو لگ گئے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگانا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جہاں اشرافیہ پتھرکی طرح مضبوط ہو اور اردگرد ترغیب کی شہنائیاں بج رہی ہوں وہاں اگر تبدیلی کے دعویدار اپنے نظریات میں لوہے جیسے مضبوط نہ ہوں تو ترغیب کے بگولے انھیں اڑا لے جاتے ہیں۔

عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے اور ماضی میں وہ اپنے ارادوں میں پکا بھی ثابت ہوا ہے اس تناظر میں یہ امید کرنا غیر منطقی نہ تھا کہ یہ بندہ شاید اس ظالمانہ تسلسل کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے جو عوام کے جسموں سے جونکوں کی طرح چمٹا ہوا ہے اور مسلسل ان کا خون پی رہا ہے۔ عمران خان سے امیدیں باندھنے والوں کو اس وقت ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے عمران کے گرد موقع پرستوں کو مضبوطی سے گھیرا ڈالے دیکھا۔ دوسری مایوسی اس وقت پیش آئی جب انتخابی ٹکٹ ایسے پرندوں میں تقسیم ہوتے دیکھے جو ہر رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اس طرف پرواز کرجاتے ہیں جہاں انھیں اقتدارکی چمک دکھائی دیتی ہے۔ کیا عمران خان ان موسمی پرندوں کی فطرت سے واقف نہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ روٹین کی سیاست یا اشرافیائی سیاست کرنے والے رہنما پارٹی ٹکٹ دیتے وقت صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ جس کو ٹکٹ دے رہے ہیں وہ کروڑ پتی ہے یا نہیں جوکروڑوں کے انتخابی اخراجات برداشت کرے اور اپنے حلقے میں اس کے اثر و رسوخ کا کیا حال ہے۔ یہ طرز فکر 70 سال سے ہماری سیاست میں جاری ہے جو پرانے پاکستان میں مروج ہے ۔ عمران خان نئے پاکستان کی بات کرتا ہے لیکن پرانے راستوں پر چل رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی اخراجات برداشت نہ کرسکنے والوں کو انتخابی ٹکٹ دینا ہماری اشرافیائی سیاست میں حماقت یا نااہلی ہے۔ لیکن نئے پاکستان کی بات کرنے والے کو نیا سیاسی کلچر اپنانا ہوتا ہے۔

عمران خان آج کی سیاست کا مقبول ترین رہنما ہے یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ نے اپنی تمام توپوں کا رخ اس کی طرف کیا ہوا ہے اس کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ انتخابات میں عمران خان زبردست خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے خصوصاً اس پرخطر راستے پر آگے بڑھنے کے لیے رسک لینا پڑتا ہے اور ایمپائرکی انگلیوں کی طرف نہیں عوام کی پرعزم آنکھوں کی طرف دیکھنا اور ان پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران کا عوام پر بھروسہ کمزور ہورہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ بھٹو اگر ایک کھمبے کو بھی انتخابی ٹکٹ دے دے توکھمبا انتخابات جیت جائے گا یہ دراصل عوام کی قوت اور ایمانداری پر یقین کی بات ہے۔

عمران خان سے کوئی فرد واحد یا ایک جماعت ہی خوفزدہ نہیں پورا اشرافیائی سسٹم خوفزدہ ہے انھیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر عمران خان انتخابات جیت جاتا ہے تو اشرافیہ کی  لوٹ مار کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور وہ اسٹیٹس کو ٹوٹ جائے گا جو مستقل پاکستان کے 21 کروڑ عوام کی تقدیر بنا ہوا ہے۔ عمران خان نہ انقلابی ہے نہ عمران سے انقلاب کی توقع کی جاسکتی ہے پاکستان میں انقلابی عنصر 70 سال سے اسٹڈی سرکلز میں پھنسا ہوا ہے اور انڈر گراؤنڈ کلچر سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں جب کہ انقلابی رہنماؤں نے زور دے کر کہا ہے کہ انقلابی عوام کے سمندر میں مچھلی بن کر رہتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کے درمیان رہنا کس قدر ضروری ہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے۔

ہم نے کہا ہے کہ عمران انقلابی نہیں وہ اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر (اگر برقرار رہے) تو بس اتنا کرسکتا ہے کہ اسٹیٹس کو کو توڑ سکتا ہے اور اس وقت پاکستان کی ضرورت یہی ہے کہ اس بدبخت اسٹیٹس کو کو کسی طرح توڑ کر مڈل کلاس کو آگے آنے کی ترغیب فراہم کی جائے۔ اس کے لیے عمران خان کو خود احتسابی سے گزرنا ہوگا اسے دیکھنا ہوگا کہ اس سے کہاں کہاں اور کون کون سی غلطیاں ہوئی  ہیں اور ہو رہی ہیں، اس خود احتسابی اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کے بغیر عمران خان کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔