کھالہ

سردار قریشی  ہفتہ 23 جون 2018

1994ء میں سینیٹر یوسف شاہین نے کراچی سے جو نیا سندھی روزنامہ ’’برسات‘‘ جاری کیا، میں اس کا بانی ایڈیٹر تھا۔

’’ہلال پاکستان‘‘ کے بعد یہ دوسرا علاقائی اخبار تھا جس میں کام کرنے والے صحافیوں کو ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت تنخواہ ودیگر مراعات ملتی تھیں۔ یہ کس پائے کا جریدہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مشہور سندھی دانشور، ادیب اور نقاد محمد ابراہیم جویو پیرانہ سالی، ناسازی طبع اور سخت گرمی کے باوجود مجھے مبارکباد دینے خاص طور پر حیدرآباد سے تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ زندگی کے آخری حصے میں سہی، انھیں اپنی مادری زبان کا اتنا اچھا، سنجیدہ اور معیاری اخبار دیکھنے کو ملا۔

یوسف شاہین جتنے اچھے اورگوناں گوں خوبیوں کے مالک ایک نفیس انسان تھے مگر موصوف کانوں کے بہت ہی کچے تھے اور بغیر تصدیق کیے ہر سنی سنائی بات کا یقین کر لیتے تھے،آپ کے مشورے پر جوکام شروع کرتے وہ میری مخالفت پر فوراً ختم بھی کر دیتے۔کسی بات کی پروا یوں نہیں کرتے تھے کہ نہ صرف اخبار ان کا تھا بلکہ پیسہ بھی انھی کا خرچ ہو رہا تھا۔

خود کوکسی کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتے تھے اور بلاجھجھک کہتے بھی تھے کہ اگر نقصان کر رہے ہیں تو اپنا کررہے ہیں کسی اورکو اس پر تکلیف کیوں ہو۔ اپنی الگ شناخت اور انفرادیت بنانے کے لیے کسی نے مشورہ دیا کہ تمام اخبارات کی لوح ایک ہی جگہ پر ہوتی ہے، آپ ایسا نہ کریں اور اسے صفحہ اول کے عین وسط میں رکھیں۔ انھیں یہ آئیڈیا نیا لگا اور شاید پسند بھی آیا کہ شام کو چائے پر انھوں نے اس پر میری رائے جاننا چاہی۔ میں نے عرض کیا کہ حرج تو شہ سرخی (لیڈ) کو لوح کے ساتھ صفحہ اول کے بجائے آخری صفحہ پر رکھنے میں بھی نہیں ہے لیکن ایسا کرنا غلطی نہیں حماقت ہوگی۔ شاہین صاحب نے کچھ کہا تو نہیں لیکن میں نے محسوس کیا کہ انھیں یہ بات پسند نہیں آئی۔

اسی طرح ایک دوسرے موقعے پر جب انھوں نے کسی کے ’’فیڈ‘‘ کیے ہوئے ایک دوسرے نئے آئیڈیا کے بارے میں میری رائے جاننا چاہی تو میری کہی ہوئی یہ بات بھی انھیں بہت بری لگی تھی کہ آپ اخبار پر اپنی پسند نا پسند مسلط کرنے کے بجائے اس قاری کی رائے کو اہمیت دیا کریں جو جیب سے پانچ روپے خرچ کر کے اخبار خریدتا ہے۔

جب کچھ خوشامدیوں کے مشورے پر انھوں نے اخبار کے ساتھ روزانہ بنیاد پر میگزین دینے کا فیصلہ کیا تو میں نے اس کی بھی مخالفت کی اور اسے دستیاب وسائل میں ناقابل عمل قرار دیا۔ میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اگر آگے چل کرکسی بھی وجہ سے وہ یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے تو اس کا اخبارکی ساکھ پر منفی اثر پڑے گا اور ریڈر شپ متاثر ہو گی لیکن وہ نہ مانے۔ میں بحیثیت ایڈیٹر متوقع ناکامی کی ذمے داری نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے مستعفی ہو گیا۔

بعد میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوگیا کہ میرے خدشات درست تھے لیکن ’’اب پچھتاؤے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق نہ تو غلطیوں کی تلافی ممکن تھی نہ ہی نقصان کا ازالہ ہوسکتا تھا۔ جویو صاحب کے بقول ایک بہت اچھا اور معیاری اخبار نت نئے تجربات کی نذر ہو کر بند ہوگیا۔ غالبؔ کی پیروی میں ’’گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے، رہنے دو ابھی ساغرو مینا میرے آگے‘‘ کی سوچ کے تحت شاہین صاحب نے ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، دوسرا انگریزی اخبار جاری کیا اور بدقسمتی سے اس کا بھی وہی حشر ہوا۔

سنا ہے آج کل وہ ڈمیاں نکال کر اپنے جاری کردہ دونوں اخبارات کی یاد تازہ کیا کرتے ہیں۔ اللہ ان کے حال پر رحم کرے، میرے دل میں آج بھی ان کے لیے بہت عزت ہے، اورکیوں نہ ہو، وہ عزت کرنا اورکروانا دونوں خوب جانتے تھے۔ میں جتنی بار ان کے کمرے میں جاتا، ہمیشہ کھڑے ہوکر ملتے اور آپ جناب سے بات کیا کرتے۔

معافی چاہتا ہوں، تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی۔ شاہین صاحب نے دوسرا کام، جو ’’برسات‘‘ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف تھا ، یہ کیا کہ مہان سندھی شاعر شیخ ایازکا نام لوح پر بطور چیف ایڈیٹر لکھوا دیا۔ شاعری ان کی پہچان ضرور تھی لیکن پیشے کے اعتبار سے وہ ایک وکیل تھے اور سکھر میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔

شاعری کو ذریعہ اظہار بنا کر ملحدانہ اور قوم پرستانہ خیالات و نظریات کا پرچارکرنے کی وجہ سے سندھی عوام بالخصوص نوجوان نسل میں انھیں زبردست پذیرائی حاصل تھی جو ان کی شاعری کو ’’مزاحمتی‘‘ اور نظریات کو ’’انقلابی‘‘ قرار دیتی تھی۔ ’’جاگ بھٹائی گھوٹ! سندھڑی تھی توکھے سڈے، مرن پییوں مارویوں قابو آہن کوٹ، اچ تہ تنہنجے اوٹ ڈاڈھن کے ڈارے وجھوں ۔۔۔ سندھڑی تاں سر کیر نہ ڈیندو، سہندو کیر میار او یار‘‘ (بھٹائی دولہے! جاگ، سندھڑی تجھے بلاتی ہے، مارویاں مر رہی ہیں اور قلعوں میں قید ہیں، آکہ تیری مدد سے ظالموں کا بھس بنا دیں … سندھڑی پر کون جان قربان نہیں کرے گا اور کون طعنے سنے گا) شیخ ایاز کی شاعری کی ایک جھلک ہے۔

جس سے آپ کچے اور ناپختہ ذہنوں پر اس کی اثر انگیزی کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے انھیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا کر ایک تیر سے دو شکارکیے، ایک طرف وہ اپنے خیالات و نظریات کا پرچارکرنے سے باز آگئے تو دوسری جانب ان کے نام کی مالا جپنے والی نوجوان سندھی نسل ان کے خلاف ہوگئی۔ اگرچہ شیخ صاحب نے عمرکے آخری حصے میں خود ہی اپنا قبلہ درست کر لیا تھا اورکسی کی مخالفت کی پروا نہیں کرتے تھے لیکن سوچ کی تبدیلی تھی کہ ان کے سابقہ مداحوں اور پیروکاروں سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

شیخ صاحب کی ساری توجہ اب اپنی ڈائری پر مرکوز تھی جو اخبار میں روزانہ شایع ہوتی تھی البتہ انھوں نے اس کے لیے جو جگہ منتخب کی اس سے اخبارکچھ اور ہی بن گیا، اخبار نہ رہا۔ ان کی ڈائری اداریے کے لیے مخصوص جگہ پر شایع ہوتی تھی، جب وہ سمجھانے پر بھی نہ مانے اور اپنی بات پر اڑے رہے تو میں نے اداریہ لکھنا ہی بند کر دیا، پھر اخبار میں اداریہ کی جگہ شیخ ایاز کی ڈائری چھپا کرتی تھی۔

یوسف شاہین کو کسی نے سبز باغ دکھایا تھا یا یہ ان کی اپنی سوچ تھی یہ تو میں نہیں جانتا لیکن وہ سمجھتے تھے کہ شیخ صاحب کی مقبولیت کے پیش نظر لوح پر ان کا نام آنے سے اخبارکی اشاعت میں زبردست اضافہ ہوگا اور وہ سندھی کا سب سے بڑا اورکثیر الاشاعت اخبار بن جائے گا لیکن جب نتیجہ اس کے بالکل برعکس برآمد ہوا تو انھیں سخت مایوسی ہوئی۔ ایک دن شیخ صاحب نے مجھے انٹرکام پر یاد فرمایا، حاضر ہوا تو پوچھا میں نے سنا ہے کہ تمہاری بیوی پنجابی ہے۔

میں نے عرض کیا آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے،کہنے لگے میں بلھے شاہ پر ریسرچ کر رہا ہوں، ان کے سرائیکی کلام میں کہیں کہیں پنجابی کی آمیزش بھی ملتی ہے، انھوں نے کئی جگہ پنجابی لفظ ’’کھالہ‘‘ استعمال کیا ہے، باوجود ہزارکوشش کے میں اس کا مطلب نہیں سمجھ پا رہا ہوں، تم میری مدد کرو اور اپنی بیوی سے پوچھ کر بتاؤکہ یہ کیا بلا ہے، ممکن ہے مادری زبان ہونے کی وجہ سے وہ اس کا مطلب جانتی ہو۔ میں نے انھیں بتایا کہ وہ پنجابی تو ہے لیکن چٹی ان پڑھ ہے۔

اس کے برعکس شاہین صاحب کی بیگم نہ صرف پنجابی بلکہ تعلیم یافتہ بھی ہیں، وہ شاید بتا سکیں، لیکن شیخ صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ انھیں بھی نہیں پتہ۔ ان کے اصرار پر میں نے وہیں سے گھر فون کرکے بیوی سے پوچھا اور لمحے بھر میں مسئلہ حل ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ دیہاتی پنجابی اپنے گھروں کے آگے مویشیوں کے پانی پینے اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے جو تالاب سا بنا کر رکھتے ہیں اسے ’’کھالہ‘‘ کہتے ہیں۔

یہ سنتے ہی شیخ صاحب نے بلھے شاہ کے وہ اشعار دہرانے شروع کیے جن میں یہ لفظ استعمال ہوا تھا اور میز پر ہاتھ مارکر خوشی سے چلا کر بولے بالکل صحیح، اس کا یہی مطلب ہے، اب میں بہت جلد اپنا مقالہ مکمل کرلوں گا۔ میں نے کہا شکر ہے آپ وی سی نہیں رہے ورنہ میری بیوی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ضرور عنایت فرماتے اور وہ جو مجھے پہلے ہی گھاس نہیں ڈالتی، میرا گھر میں داخلہ بھی بند کر دیتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔