عام انتخابات میں 30 سال بعد متحدہ کو کراچی میں بڑا انتخابی چیلنج درپیش

عامر خان  ہفتہ 23 جون 2018
وفاق سے متحدہ قومی موومنٹ کو سیاسی سرگرمیوں اور الیکشن دفاتر کھولنے کی اجازت غیر اعلانیہ طورپرمل گئی ہے۔ فوٹو:فائل

وفاق سے متحدہ قومی موومنٹ کو سیاسی سرگرمیوں اور الیکشن دفاتر کھولنے کی اجازت غیر اعلانیہ طورپرمل گئی ہے۔ فوٹو:فائل

 کراچی: کراچی میں30 برسوں کے دوران ہونے والے الیکشن میں قومی اور سندھ اسمبلی کی اکثریتی نشستوں کوجیتنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اپنا مینڈیٹ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگی یا ناکام ؟۔ یہ وہ سوال ہے جواس وقت شہریوں میں زبان زدعام ہے۔

ایم کیوایم پاکستان کو اس وقت ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں اندرونی اختلافات، تنظیمی نیٹ ورک کاغیر فعال ہونا، رہنماؤں و کارکنان کی مختلف جماعتوں میں شمولیت، فنڈکی قلت، اسیر و لاپتہ کارکنان کے مسائل، شہر میں بلدیاتی مینڈیٹ ہونے کے باوجود مسائل کے حل نہ ہونے پر عوامی تنقید کا سامنا اور دیگر وجوہ شامل ہیں۔

ان چیلنجز اورسابقہ سیاسی حیثیت نہ ہونے کے باوجود ایم کیوایم پاکستان رواں عام انتخابات میں کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی کی کنتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی اس کا فیصلہ تو پولنگ کے دن ہی ہوگا ایم کیوایم پاکستان نے ان چیلنجز سے نمٹنے اور اپنا سابقہ مینڈیٹ حاصل کرنے کیلیے عام انتخابات میں آخری سیاسی آپشن ’مہاجر کارڈ‘ کودوبارہ استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ اس ہی مہاجر کارڈ کی مناسبت سے الیکشن میں انتخابی نعرہ ’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘ متعارف کرایا جارہاہے۔

اس طرز کا نعرہ ایم کیوایم نے2015 کے بلدیاتی انتخابات متعارف کرایا تھا کہ ’میئر تو اپنا ہونا چاہیے‘۔ ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے اپنی انتخابی مہم میں’سندھ میں نئے صوبے کے قیام‘ کے مطالبے کا سیاسی کارڈ فی الحال شامل نہیں کیا جائے گا۔

ایم کیوایم پاکستان کا عام انتخابات میں مہاجر کارڈ کا استعمال اس کی کامیابی میں کتنا اہم کرداد ادا کرے گا۔ اس کا فیصلہ تو ایم کیوایم کے ووٹرز25جولائی کو کریں گی جبکہ ایم کیوایم لندن عام انتخابات کے بائیکاٹ کااعلان کرچکی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیوایم پاکستان اپنے قائد سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد کراچی کے انتخابی دنگل میں اتر رہی ہے۔

ایم کیوایم کی تقسیم کے بعد کراچی کی سیاسی پوزیشن اس وقت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے۔ رواں انتخابات میں شہر کی سیاسی فضا مکمل طور پر پر امن ہے اور سب کیلیے انتخابی میدان میں متوازن طریقے سے حصہ لینے کی راہ ہموار نظر آرہی ہے ۔ایم کیوایم پاکستان کو اس الیکشن میں پاک سرزمین پارٹی، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ن لیگ، متحدہ مجلس عمل سمیت مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے ایم کیوایم پاکستان کیلیے رواں الیکشن میں اپنی سابقہ انتخابی پوزیشن کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔

متحدہ پاکستان کے دونوں گروپس میںروٹھنے اورمنانے و قانونی معاملات کاسلسلہ ساڑھے 4 ماہ تک جاری رہا ۔اس سیاسی اختلاف کاشکار متحدہ کی گاڑی اپنے آخری اسٹاپ پر 15جون کو پہنچی اور ایم کیوایم کے دونوں گروپس نے اختلافات ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اب ہم ایک ہیں اور پتنگ کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔

ایم کیوایم پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ متحدہ کا شہر قائد میں80 فیصد تنظیمی نیٹ ورک غیر فعال اور دفاتر بند پڑے ہیں۔ ایم کیوایم پاکستان صرف بلدیاتی نمائندوں کی شکل میں شہر میں سیاسی طور پر نظر آرہی ہے۔ایم کیوایم پاکستان کا تنظیمی نیٹ ورک غیر فعال ہونے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینا کسی سیاسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

ایم کیوایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق کی جانب متحدہ پاکستان کو سیاسی سرگرمیوں اور الیکشن دفاتر کھولنے کی اجازت غیر اعلانیہ طور پر مل گئی ہے اور آئندہ10 روز میں کراچی بھر میں انتخابی سرگرمیاں اور عوامی رابطہ مہم شروع کردی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کی قیادت اس وقت قومی اور سندھ اسمبلی کے حلقوں پر اپنے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ اس کا اعلان جلد متوقع ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستیں20 سے بڑھ کر21 اور سندھ اسمبلی کی نشستیں 42 سے بڑھ کر 44ہوگئی ہیں۔

ایم کیوایم ذرائع کے مطابق ضلع ملیر میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں این اے 236، 237 اور 238 پر پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے اوران حلقوں میں ایم کیوایم پاکستان کی کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ضلع غربی قومی اسمبلی کے 2حلقوں این اے 249اور250میں بھی ایم کیوایم پاکستان کی پوزیشن مضبوط نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان ضلع کورنگی کے این اے239،240،241ضلع شرقی کے این اے242،243،244،245، ضلع جنوبی کے این اے 247،ضلع غربی کے این اے 250،251،252، ضلع وسطی کے این اے253،254،255اور 256پر کامیابی حاصل کرنے کیلیے اپنی انتخابی حکمت عملی کو آخری شکل دے رہی ہے تاہم ان تمام حلقوں میں ایم کیوایم کو اپنی مخالف جماعتوں سے سخت مقابلے کاسامنا کرنا پڑ ے گا۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی الیکشن کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کے سبب کسی بھی جماعت کے دھاندلی کرنا تقریباً ناممکن ہے ۔سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ کراچی کے الیکشن نتائج اس مرتبہ حیران کن ہوں گے اور کوئی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرسکے گی۔کراچی کاعوامی مینڈیٹ اس الیکشن میں یکرطرفہ نہیں بلکہ تقسیم ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایم کیوایم پاکستان کی کئی نشستوں پر کا میابی کا دارومداراس بات پر منحصرہے کہ متحدہ کی اعلیٰ قیادت اپنے اختلافات کو ختم کرکے انتخابی دنگل میں اترے۔ اگر اختلافات کاسلسلہ برقرار رہا تو ایم کیوایم پاکستان کو انتخابات میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں اور سیاسی صورتحال کے سبب کراچی میں سندھ اسمبلی کی نشستوں پر بھی ایم کیوایم پاکستان کو عام انتخابات میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سیاسی حلقوں کے مطابق ایم کیوایم پاکستان کو درپیش چیلنجز کے سبب رواں انتخابات متحدہ کو کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی کی نشستیں ماضی کے مقابلے میں کم ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیوایم پاکستان کے ترجمان امین الحق نے بتایا کہ متحدہ پاکستان میں اس وقت کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ایم کیوایم پاکستان کا مینڈیٹ تقسیم نہیں ہوگا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ آئندہ انتخابات میں متحدہ کراچی سے قومی اسمبلی کی14سے15اور سندھ اسمبلی کی 30 یا اس سے زائدنشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان یکم جولائی سے کراچی میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرے گی۔ انھوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ ایم کیوایم پاکستان فی الحال الیکشن مہم کے دوران نئے صوبے کی تحریک چلانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔