سپریم کورٹ خواجہ آصف کی طرح میری نااہلی بھی ختم کرتی، پرویز مشرف

ویب ڈیسک  ہفتہ 23 جون 2018
پرویز مشرف کا ای سی ایل میں نام نہ ڈالنے اور وطن واپسی پر گرفتار نہ کرنے کا مطالبہ فوٹو:فائل

پرویز مشرف کا ای سی ایل میں نام نہ ڈالنے اور وطن واپسی پر گرفتار نہ کرنے کا مطالبہ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ان کی وطن واپسی اور الیکشن لڑنے میں رکاوٹیں حائل ہیں جب کہ سپریم کورٹ کو خواجہ آصف کی طرح ان کی نااہلی بھی ختم کرنی چاہیے تھی۔

پرویز مشرف نے پارٹی چئیرمین شپ سے استعفی پر ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوا، بلکہ قانونی مشاورت کی روشنی میں چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیا ہے، وطن واپسی اور انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ تھا مگر رکاوٹیں حائل ہیں، اے پی ایم ایل کے امیدواران الیکشن میں جائیں انہیں بھر پور سپورٹ کروں گا، آنے والے وقت میں اچھے مواقع آئیں گے جن کے مطابق فیصلے کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کمانڈو ہیں تو آکر دکھائیں، چیف جسٹس

پرویز مشرف نے وطن واپس نہ آنے کی تین وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی نااہلی سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا اسی طرح میرے ساتھ بھی ہونا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا، دوسری بات یہ تھی کہ میرا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نہ ڈالا جائے، نواز شریف کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا،  وہ لندن سمیت کہیں بھی جا سکتے ہیں اور ملک بھر میں جلسوں سے خطاب بھی کرتے ہیں، تو مجھے بھی یہ آزادی دی جائے۔

پرویز مشرف نے مزید کہا کہ وطن واپس آنے پر مجھے گرفتار نہ کیا جائے، سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مجھے عدالت میں پیش ہونے تک گرفتار نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے بعد کیا ہوگا یہ بات مبہم تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سے مستعفی

واضح رہے کہ گزشتہ روز پرویز مشرف نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پرویز مشرف نے اپنی نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے رواں ماہ اس کیس میں پرویز مشرف کو طلب کرکے انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا اور ان کی نااہلی بھی عارضی معطل کردی تھی لیکن پرویز مشرف نہ وطن واپس آئے اور نہ ہی عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت واپس لے لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔