اپنا مستقبل بچائیں …

شیریں حیدر  اتوار 24 جون 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک ننھا سا بیج، جسے ہم چاہیں تو ایک لمحے میں ہاتھوں میں مسل کرختم کر دیں… وہی بیج جب زمین پر گرتا ہے، مٹی میں جذب ہوتا ہے اور ذرا سی نمی پاتا ہے تو اس کے وجود کی کیمسٹری تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے، زمین کی گھٹن، دباؤ اور بوجھ کے باوجود اس بیج سے وہ ننھی سی کونپل زمین کا سینہ پھاڑ کر نکلتی ہے۔

حالات موافق ہوں اور وہ کچلی نہ جائے تو قدرت ہی اس کی پرداخت کرتی ہے اور وہ ننھی سی کونپل رفتہ رفتہ ایک پودے کی صورت پروان چڑھنے لگتی ہے۔ وہ پودا جسے ہماری نظر التفات مل جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک تناور درخت کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ درخت جو اس وقت ہماری سب سے اہم ضرورت ہیں اور جن کا نہ ہونا اس دور کا اہم ترین مسئلہ۔

عموماً کسی ملک کے لیے کم از کم کل رقبے کا دس فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا اس ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے، کیونکہ درخت نہ صرف قدرتی وسائل میں سے ایک ضرورت ہیں اور ہماری لکڑی اور بہت سے پھلوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ ان کے اثرات ہماری آب و ہوا پر بھی پڑتے ہیں اور درختوں کی مدد سے ہم کئی خطرات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

بارشوں کا پانی درختوں کی کمی کے باعث سیلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے اور خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو ملک میں روز افزوں درجہ حرارت سے آگاہ نہیں ہے، اس خطرے کا اہم سبب ہمارے ہاں درختوں کی کمی ہے۔ انٹر نیٹ پر دستیاب اعداد و شمار سے علم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جنگلات کا تناسب اس وقت صرف دو فیصد ہے، یہ خطرے کی علامت ہے!!

آپ اگر مزید تلاش کریں تو علم ہو گا کہ دنیا میں کیسے کیسے خوش قسمت ممالک ہیں جن میں روس سر فہرست ہے جہاں 642 بلین درخت ہیں، یہ تناسب  4461 درخت فی کس کے حساب سے ہیں۔ کینیڈا میں 318 بلین درخت ہیں، یہ تعداد 8953 فی کس کے حساب سے ہے۔ برازیل میں  302  بلین درخت ہیں جو کہ 1494 فی کس کا تناسب بنتا ہے اور امریکا میں 228  بلین درخت ہیں جو کہ 716 درخت فی کس ہیں۔ دنیا میں بیس ممالک کی فہرست جہاں سب سے زیادہ جنگلات ہیں ان ممالک میں جنگلات کا تناسب 66  فیصد سے لے کر  95  فیصد تک ہے۔

سان مارینو، قطر، گرین لینڈ اور اومان چار ایسے ممالک ہیں جہاں کوئی جنگلات نہیں ہیں اور دنیا کے کم ترین جنگلات کے تناسب کے بیس ممالک کی فہرست میںوہ ممالک شامل ہیں جہاں جنگلات کا تناسب ملک کے مجموعی رقبے کا ایک یا دو فیصد ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نام بھی ہے، پاکستان میں درختوں کا تناسب ساڑھے چار درخت فی کس بنتا ہے ۔ یہ انتہائی خطرناک اعداد و شمار ہیں اور ہمارے لیے اس میں لمحہء فکریہ ہے۔

کسی اور سے نہیں، اپنے ہمسایہ ملک جسے ہم اپنا اولین دشمن بھی کہتے ہیں، اس کے اعداد و شمار ہم سے بہتر ہیں، ان کے ہاں 35 بلین درخت ہیں اور اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود بھی یہ تناسب 28  درخت فی کس بنتے ہیں۔

پچھلے چند سال میں ہم نے ترقی کا سفر کچھ اس طرح طے کیا ہے ترقی کی راہ میں آنے والا ہر درخت کاٹ ڈالا گیا، اس کے بدلے کہیں کوئی درخت نیا نہیں لگایا گیا، جس کا نتیجہ آج ہم سب دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملک اپنے قدرتی وسائل کی قدر کرتے ہیں اور درختوں کو کاٹنے کے بجائے سڑکوں کے رخ اور گھروں اور کمرشل عمارتوں کے نقشے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ وہاں درخت کاٹنا جرم سمجھا جاتا ہے اور ہر شخص درختوں کی اہمیت سے آگاہ ہے۔

کینیڈا میں ہر گھر کے سامنے کم از کم ایک چنار کا درخت  (Maple tree)  لازمی لگایا جاتا ہے، یہ ان کا قومی درخت ہے اور یہ ہر گھر کے سامنے ہوتا ہے چاہے اس میں کسی بھی قومیت کا خاندان رہتا ہوں ۔ سیکڑوں میل کے علاقے جنگلات پر مشتمل ہیں، اسی طرح یورپ اور امریکا میں بھی طویل جنگلات ہیں اور شہروں کے گنجان آباد علاقوں اور کاروباری علاقوں میں بھی اگر کوئی درخت ہے تو آپ اس کی عمر کا اندازہ سو سال یا زائدتک بھی لگا سکتے ہیں۔

بچپن میں ہم جنگلات کے فوائد پر مضمون لکھا کرتے تھے… ایک دفعہ ہمیں کلاس میں ٹیسٹ میں سوال آیا کہ جنگلات کے کم از کم دس فوائد لکھیں ۔ میںنے مضمون لکھا اور اس میں بیس فوائد لکھ کر آخر میں نوٹ لکھا ، ’’اگر وقت اجازت دیتا تو میں مزید کچھ فوائد بھی لکھ سکتی تھی!‘‘ ہماری اردو کی انتہائی بہترین استاد مسز شاہ تھیں، انھوںنے میرے اس مضمون کو اسکول کی اسمبلی میں سنوایا اور ٹیسٹ ان ریمارکس کے ساتھ واپس کیا، ’’ ایک استاد کی پابندی یہ ہے کہ وہ ٹسٹ میں سے زیادہ سے زیادہ نمبروں سے زیادہ نمبر نہیں دے سکتا، ورنہ میں اس مضمون پر بیس میں سے پچاس نمبر دیتی۔ ‘‘

کاش وہ مضمون میرے پاس ہوتا تو میں شئیر کرتی، اس عمر میں ہماری سوچ آج کے بچوں سے کیسی مختلف تھی۔ آج کل کے بچے تو درختوں کو دو تین وجوہات کی وجہ سے ہی فائدہ مند سمجھتے ہیں، لکڑی، پھل اور سایہ!! عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں اس لیے ناپید ہوتے ہوئے جنگلات کی اہمیت کو کسی نے نہ سمجھا، لکڑی اب کوئی جلاتا نہیں، فرنیچر بھی کئی اور مٹیریل کا تیار ہونے لگا ہے۔ پھل ہم دوسرے ملکوں سے منگوا لیتے ہیں اور سایہ ہم اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے تو درکار ہو گا نا !

اس ملک میں تو بہت پہلے سے درخت کاٹنا نا قابل معافی جرم قرار دے دینا چاہیے تھا اور شجر کاری کی مہم کو ایمرجنسی کا نفاذ کر کے چلانا چاہیے تھا، مگر اب بھی ہم کچھ بچانا چاہیں تو بچا سکتے ہیں۔ جب بھی بیرون ملک سفر کریں، ان کے شہروں میں گھومیں پھریں تو اپنے ملک کے مسائل کا احساس اور بھی شدت سے جاگتا ہے، جی چاہتا ہے کہ کاش ہمارا ملک بھی ایسا ہو جائے مگر… ہنوز دلی دور است۔

ان ممالک میں ایسا اس لیے ہے کہ وہ قدرتی وسائل کی اہمیت کو جانتے اور ان کی قدر کسی اثاثے کی طرح کرتے ہیں، انھیں تعلیم بتاتی ہے کہ چیزوں کو سنبھال کر رکھنے سے ان کی میعاد بڑھتی ہے، وسائل بھی اسی طرح ہیں ، ان کی پرداخت، دیکھ ریکھ اور مستقبل بینی مفقود ہو تو ہمارے جیسی خراچ اور بے قدر قومیں عمارتیں اور فرنیچر بنانے میں ہی سارے جنگلات اور اپنے ڈنگر نہلانے اور گاڑیاں دھلوانے میں سارا پانی خرچ کر دیتے ہیں اور بعد میں سر پر بازو رکھ کر روتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر آج کل ایسے پیغامات کی بھر مار ہے جن میں بتایا جا رہا ہے کہ پانی کے خشک ہوتے ہوئے ذخائر اور درختوں کی گھٹتی ہوئی تعداد ہمارے لیے اس دور کے سب سے اہم مسائل ہیں۔ یہ دونوں مسائل آپس میں مربوط بھی ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی۔ درختوں کی وجہ سے آب وہوا بہتر ہوتی ہے اور پانی کے ذخائر میں بارشوں کے پانی کی وجہ سے اضافہ ہوتا رہتا ہے تو دوسری طرف پانی درختوں کے لیے بھی ضروری ہے مگر اسے احتیاط سے استعمال کرنا اہم ہے۔

دنیا کے کئی ممالک میں، جس میں مشرق وسطی کے ممالک بھی شامل ہیں جو کم پانی کے باوجود اپنے ہاںجنگلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے لیے وہ  drip system استعمال کر رہے ہیں۔ پا کستان میں بھی زراعت میں اس نظام کو پچھلے چند برسوں سے آزمایا جا رہا ہے، یعنی پانی سے پورے پودے اور اس کے ارد گرد کی زمین کو بھی نہلانے کے بجائے، پانی کو کم مقدار میں اور مسلسل پودے کی جڑ کے ساتھ ٹپکایا جاتا ہے، اس کے لیے مخصوص طریقے کی نوزل والے پائپ اور پانی کو کنٹرول مقدار میں گرانے کے لیے سادہ سا میکنزم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ آج کل مختلف ذرائع سے تصاویر موصول ہو رہی ہیں کہ پانی کے گھڑوںکو زمین میں دبا کر پانی سے بھر کر اس کے ارد گرد چار درخت لگا دیں، جنھیں اس گھڑے میں ذخیرہ پانی سے کم از کم چالیس دن تک پانی زمین کے اندر رس رس کر ملتا رہے گا۔ مختلف کمپنیاں مفت میں درخت اور بیج دینے کی پیش کش کر رہی ہیں کہ آپ اس مہم میں ان کے ساتھ شامل ہوں ۔

ہمارے پاس نہ صرف اپنے گھروں ، زمینوں ، محلوں اور شہروں میں جہاں جہاں جگہ ہے وہاں پر ہم درخت لگائیں بلکہ ممکن ہو تو اپنے ساتھ مختلف درختوں کے بیج رکھیں ، پھلدار اور سایہ دار، مون سون کے موسم میں یا جب بھی شجرکاری کے لیے موافق وقت ہو تو ہم یہ بیج سڑکوں کے کناروں پر مٹی میں پھینکتے ہوئے جائیں… ہر بیج کو پھینکتے ہوئے دل میں نیکی کی نیت کریں اور بسم اللہ الرحمن الرحیم، پڑھ کر پھونک کر پھینک دیں۔ پھل دار درخت ہوا تو اس کا پھل کھانے والا اور پھلدار نہ بھی ہوا تو اس کے سائے سے فیض یاب ہونے والاہمیشہ آپ کو دعا دے گا۔

اگر سوچا جائے تو علم ہوتا ہے کہ یہ پانی اور جنگلات سے متعلق مسائل نہ آ ج کے مسائل ہیں اور نہ ہی حالیہ دورمیں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ مسائل ہمارے اور ہماری نئی نسل کے لیے ان کی طرف سے ہمارے لیے تحفہ ہیں جنھوںنے مختلف ترقیاتی شوبازی کے منصوبوں کے لیے درختوں کو بے رحمی سے کاٹتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ ان کے بچوں کا کل کیساہو گا، ملک کا مستقبل کیا ہو گا۔

بالکل اسی طرح… اگر ہم آج اس بات کا احساس کریں اور اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے مسلسل شجر کاری کریں اس وقت تک جب تک کہ ہمارے ملک کا پچاس فیصد تک کا رقبہ درختوں سے نہ اٹ جائے تو ہی ہم اس ملک کا اور اپنے بچوں کا مستقبل بچا سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔