ماضی کا شہر بے مثال

رئیس فاطمہ  اتوار 24 جون 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کہاں گیا میرا وہ شہرکراچی جسے ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا کہاں گم ہوگیا وہ میرا شہر کراچی جو امن وامان کا گہوارہ تھا، جہاں گھروں کی چار دیواری پانچ فٹ سے اونچی نہیں ہوتی تھی۔

مجھے یاد ہے ہمارا چوکیدار جو مالی بھی تھا رات بارہ بجے السیشن کتے کی زنجیر کھول کر خود اپنے کوارٹر میں چلاجاتا تھا، لان میں موتیا، موگرہ، چنبیلی، ہار سنگھار، دن کا راجہ، رات کی رانی کی مہک کے ساتھ نواڑی پلنگ لگے ہوتے تھے، مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر دانیاں تنی ہوتی تھیں۔ رات دیر تک باتیں کرنا والد اور دادی سے کہانیاں سننا اور ان کے پیر دبانا ہم بہن بھائیوں کے فرائض میں شامل تھا۔ والد کہانی سناتے سناتے نیند کی وادی میں چلے جاتے تو ہم سب بھی بستروں میں دبک جاتے۔

اگلے دن گزشتہ روزکی ادھوری کہانی کو مکمل کرنے کی فرمائش کرتے تو والد صاحب یہ انکشاف کرکے حیرت زدہ کردیتے تھے کہ ’’وہ تو میرے ذہن کی اختراع تھی اس لیے یاد نہیں کہ کون سی کہانی تھی اور کہاں چھوڑی تھی۔ پھر وہ انگریزی اور فرانسیسی ادب کے ناولوں کی تلخیص کرکے ہمیں سناتے۔ شارلٹ برونٹے، سر آرتھر کونن ڈائل، میری کوریلی، رائیڈر ہیگرڈ اور بے شمار ادیبوں کی کہانیاں ہم نے بالکل بچپن میں اسی طرح سنیں جیسے قصہ چہار درویش، الف لیلا، طلسم ہوشربا،فسانۂ عجائب، نیلی چھتری اور شرلاک ہومزکی کہانیاں۔

کسی بات کا خطرہ نہ تھا آس پاس کے بنگلوزکی دیواریں بھی اونچی نہیں تھیں، پڑوس میں ایک میمن فیملی رہتی تھی جس کے ورانڈے میں بہت بڑا سا مسہری نما جھولاتھا وہ لوگ بھی رات کو دیر تک اسی جھولے پر بیٹھے اور باتیں کرتے تھے۔ دن کو اسی جھولے پر سبزیاں کاٹی جاتی تھیں اور بچے اودھم مچاتے تھے۔ 70ء کی دہائی تک کراچی ایک شہر بے مثال تھا۔ کسی گھر میں لوہے کی گرل نظر نہیں آتی تھی۔

صاف ستھری بسیں چلتی تھیں، کنڈکٹر ٹکٹ بھی دیتاتھا اور آواز بھی لگاتا تھا۔ شہر میں ٹرام چلتی تھی صدر سے ٹاور، بندر روڈ، ٹرام گودی ہر جگہ دونوں طرف سے چلنے والی محمد علی ٹراموے کمپنی کی ٹرامیں چلتی تھیں۔ ہمارے گھر سوسائٹی اور کالج کے درمیان ٹرام کا روٹ نہیں تھا لیکن محض شوق میں ہم پانچ چھ لڑکیاں کالج سے نکل کر بندر روڈ پر جامع کلاتھ مارکیٹ کے سامنے ٹرام میں بیٹھ جاتے، ڈینسوہال تک جاتے اور واپس پھر کرایہ دے کر جامع کلاتھ پہ اتر کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے۔

شہر میں کتابوں کی بہت سی دکانیں تھیں، صدر میں آغا سر خوش قزلباش کا کتاب محل جو آغا شاعر کے بیٹے اور سحاب قزلباش کے بھائی تھے لوگ فیملی کے ساتھ سینما ہال جاتے تھے، خیام سینما (اب خیام مارکیٹ) گھر سے پیدل مسافت پر تھا۔ جمعرات کو آخری شو دیکھنے کے لیے والد صاحب پوری فیملی کو لے کر جاتے تو ایک عجب سرشاری کی کیفیت ہوتی تھی۔ رات گئے پیدل گھر واپس آتے نہ کوئی ڈر نہ خوف۔ میرے خدا کہاں گیا میرا وہ پیارا شہر کراچی جو میری یادوں میں بسا ہے۔ اب تو شہر لوہے اور سیمنٹ کا جنگل بن گیا ہے۔

گلیاں بند، محلے چوکس، ہر گھر میں لوہے کی گرل پھر بھی خوف کے مارے جان جاتی ہے، ہر طرف بے ہنگم انداز میں گزرتی گاڑیاں اوورہیڈ بریج اور فلائی اوورز نے شہر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے اوپر سے بے ہنگم بل بورڈ اور چیختی چنگھاڑتی گاڑیاں، کتابوں کی دکانیں بند ہوگئیں کباب رول، پیزا ہٹ اور فاسٹ فوڈز نے کتابوں کی دکانوں کو نگل لیا۔

ہر فرقے کی مسجد الگ پگڑیاں الگ، دماغ چھوٹے ہوگئے ہیں پیٹ باہر نکل آئے ہیں معدے جزیرے بن گئے ہیں رواداری، محبت اور خلوص ناپید، تقسیم کے بعد سب سے زیادہ نقصان میرے شہرکراچی کو پہنچا۔ یہاں روزگار تھا، محبتیں تھیں جس پر پہلا شب خون ایوب خان نے مارا، بھائی کو بھائی سے لڑایا اور دارالحکومت کو اسلام آباد کی پہاڑیوں میں کھو دیا۔

ہر بڑے شہر میں روزگار کے لیے لوگ آتے ہیں لیکن کراچی اور لاہور پر دباؤ زیادہ بڑھا، کراچی کی بد نصیبی یہ کہ ہر طرف سے روزانہ ہزاروں لوگ کراچی آرہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ چاروں طرف سے آنے والے اپنا جغرافیہ اور کلچر ساتھ لے کر آرہے ہیں جس میں گالم گلوچ، غصہ، رقابت، ہوائی فائرنگ، بات بات پہ لڑنا، عورتوں کا قتل، کاروکاری، بدچلنی کا الزام لگاکر بہن یا بیٹی کو قتل کردینا وہ بھی غیرت کے نام پر۔

کراچی اب ایک شہر کے بجائے بھینسوں کا باڑہ لگتا ہے۔ باڑے میں بندھے ہوئے جانور کے گوشت اور دودھ سے مالک کو سروکار ہوتا ہے اس کی صفائی سے نہیں۔ یقین نہ آئے تو ان علاقوں کو دیکھیے جہاں کراچی سے باہر سے آنے والوں نے سبزی، گوشت کی دکانیں اور مختلف ٹھیلے اور پتھارے لگائے ہوئے ہیں۔

یہ علاقے حد درجہ تعفن زدہ ہیں، قصور ان کا نہیں کیونکہ یہ بچپن سے اسی طرز زندگی کے عادی رہے ہیں وہیں گائے بھینس اور بکریاں بندھی ہیں وہیں چارپائی پہ بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہیں لوٹے کے پانی سے ہاتھ دھولیے، رات ہوئی وہیں بستر بچھالیا۔ روزانہ نئی نئی گاڑیاں سڑکوں پر آرہی ہیں ایک ہنستے بستے بڑے شہر کو جو پاکستان کا دل ہے شہ رگ ہے کماؤ پوت ہے اسے کچرا کنڈی بنادیاگیا۔

اس سے بھی زیادہ ہولناک بات یہ کہ لوگوں میں آپسی تعصب اور رقابت بہت بڑھ گئی ہے جس کا ذمے دار پولیس کا محکمہ ہے جس نے بے رحم اور سنگدل لوگوں کو مافیا کی شکل دے دی ہے۔ کسی بھی جرم میں پکڑا جانے والا مجرم ہو یا بغیر ہیلمٹ پہنے نوجوان موٹر سائیکل سوار ٹریفک پولیس کا سپاہی لب و لہجے اور زبان کو دیکھ کر چالان کا فیصلہ کرتا ہے۔

اسی بد نصیب شہر کراچی میں لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر دن دہاڑے قتل کیا گیا، کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں اور مذہبی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں کہ کراچی میں بھائی چارہ قائم ہو، اتنے بڑے شہر کو چنگ چی رکشوں کے حوالے کردیا گیا، منی بسوں کی چھتوں پر لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں۔ گرین بس چلی لیکن ٹرانسپورٹ مافیا نے نہ چلنے دی۔ ملی بھگت سے نقصان دکھادیا، میٹروبس چلی اس کا بھی یہی حشر ہوا۔ سرکلر ریلوے کی پیٹریوں پر بھینسوں کے باڑے، کچی آبادیاں بنادی گئیں۔ بعض جگہ عین پٹریوں کے اوپر فلیٹ بنادیے گئے۔

اس شہر میں لوگ آتے ہیں پستول اور گن کرائے پر الآصف اسکوائر سے لیتے ہیں وارداتیں کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں، کبھی پکڑے نہیں جاتے کیونکہ اپنے سرپرستوں کا منہ موتیوں سے جو بھردیتے ہیں۔ بغیر پلاننگ کے شہر ہر طرف سے بڑھتا جارہاہے۔

کراچی کو یرغمال بنالیاگیا ہے خود وفاقی حکومت کراچی سے تعصب برتتی ہے رہ گئے ایم کیو ایم والے سو ان کی دال مختلف کٹوروں میں بٹ رہی ہے۔ کراچی سے کسی کو دلچسپی نہیں بس سارا زور اس پر کہ کسی طرح کراچی پر قبضہ کیا جائے۔ پی پی کے پاس دس سال اقتدار رہا لیکن انھوں نے نہ اندرون سندھ پر توجہ دی نہ کراچی پر اب نئے نئے چوزے دانہ چگنے کے لیے بے تاب ہیں، ایم کیو ایم کے اقتدار کی ناؤ ڈوب رہی ہے جسے خود ان کی آپسی رقابتوں اور رنجشوں نے ڈبویا ہے یہ تو ہونا ہی تھا۔

جس سیاسی جماعت کا سربراہ ایک طویل عرصے سے لندن میں بیٹھا ہو اس پارٹی کا حشر ایسا ہی ہونا تھا۔ کراچی کے لوگ بالکل لاوارث ہیں ان کی بلا سے۔ ’’بوم بسے یا ہما رہے‘‘ انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، ناجائز قابضین کا 120 گز کے پلاٹ پر بارہ منزلہ عمارت کھڑی کردینا، گیس نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، کریں تو کیا کریں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کراچی میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا  جب لوگ پانی بیچ کر کروڑ پتی بن جائیںگے وہ بھی محض بورنگ کے پانی سے۔ جس پر منرل واٹر کا ٹیگ لگا ہوگا۔

میری نسل کے لوگ جو شروع سے کراچی میں رہے ہیں انھیں یہ بھی یاد ہوگا کہ کبھی کراچی کی سڑکیں دھلاکرتی تھیں، سڑکوں کی باقاعدہ دھلائی ہوتی تھیں گندگی اور غلاظت کا نام تک نہ تھا اور اب یہ حال ہے کہ برساتی نالوںپر باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے پولیس کو بھتہ دے کر گھر بنالیے ہیں بلڈنگیں کھڑی کرلی ہیں، پارکوں کی زمین بھی قبضہ مافیا کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ تنخواہ دار آدمی لائن میں لگ کر بجلی اور گیس کے بل ادا کرتا ہے اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے خانہ بدوشوں نے پارکوں میں، پلوں کے نیچے، میدانوں میں قبضے کرلیے ہیں اور کنڈے کی بجلی بے دھڑک استعمال کررہے ہیں۔

میرا شہر کراچی جو کبھی بے مثال تھا آج دشمنوں کے نرغے میں ہے شاید ہم اب اپنی زندگی میں اس شہر کی پرانی صورت کبھی نہ دیکھ سکیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔