جناب چیف جسٹس! کالا باغ ڈیم اسی صورت میں ہی بن سکتا ہے

رحمت علی رازی  اتوار 24 جون 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ نگران حکمرانوں کے بارے میں ابھی دھیرے دھیرے نئے نئے انکشافات ہونگے۔ پنجاب کے نگران حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی کابینہ میں ایک ایسے وزیر صاحب کا بھی انکشاف ہُوا ہے جو اسلام آباد میں ایک رفاحی پلاٹ پر زبردستی قبضہ جما کر اس پر اپنا نجی اور منافع بخش ادارہ تعمیر کر چکے ہیں۔

ہمیں اُمید تو یہ تھی کہ مرنجاں مرنج، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مصنف حسن عسکری رضوی کابینہ کی تشکیل میں احتیاط کا دامن تھامیں گے لیکن قوم کی بدقسمتی کہ اُن سے وابستہ کی گئی توقعات بھی پوری نہیں ہو سکی ہیں۔اُنہوں نے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی من پسند بیوروکریسی کو تبدیل کرنے میں جس کاہلی اور لیت ولعل سے کام لیا ہے،اِس عمل نے بھی عوام کو مایوس کیا ہے۔

نگرانی کا چارج سنبھالنے کے تین ہفتے بعد اُنہوں نے پنجاب میں جو ہلکی پھلکی اکھاڑ پچھاڑ کی ہے، لگتا ہے بادلِ نخواستہ ہی کی ہے اور اب رہی سہی کسر نگران وزیر اعظم ناصر الملک نے پوری کر دی ہے۔ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی، دونوں سابق وزرائے اعظم کی بے تحاشہ دولتوں اور جائیدادوں کے ہوشربا قصوں میں پاکستانی عوام کا خیال تھا کہ نگران وزیر اعظم نسبتاً درویش صفت ہوں گے لیکن اُن کی دولتمندی اور اندرونِ ملک و بیرونِ ملک جائیدادوں کے سامنے آنیوالے حقائق نے عوام کے ہوش اُڑا دئیے ہیں۔

ہم یہاں ناصر الملک صاحب کی ظاہر کردہ دولت وثروت کا ایک ایک کرکے ذکر کرنے سے تو رہے لیکن اتنا بہر حال کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہمارا سماج اب اِس نہج کو پہنچ چکا ہے کہ ایک لوک محاورے کے مطابق: جسے کاٹو، وہی لال نکل رہا ہے۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور موجودہ نگران وزیر اعظم کی کروڑوں، اربوں کی مبینہ جائدادیں نہ صرف اسلام آباد، سوات اور پشاور میں نکلی ہیں بلکہ لندن اور سنگاپور میں بھی ظاہر ہو گئی ہیں۔بینک میں کروڑوں روپے بھی ظاہر ہُوئے ہیں۔

ممکن ہے کہ اُنہوں نے یہ بیش قیمتی اثاثے حق حلال کی کمائی ہی سے بنائے ہوں لیکن عوام بجا طور پر سوال اُٹھانے لگے ہیں کہ نگران وزیر اعظم نے اپنی اہلیہ محترمہ کے نام پر لندن اور سنگاپور میں جو کروڑوں کی پراپرٹی خرید رکھی ہے، کیا وہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہ پراپرٹی کب خریدی گئی؟ کیسے خریدی گئی؟ اس کی منی ٹریل کہاں ہے؟ پاکستان سے لندن اور سنگاپور رقمیں کیسے اور کس طریقے سے بھجوائی گئیں؟یہ اُس ملک کے دولتمند نگران حکمرانوںکا حال ہے جس ملک کے کندھوں پر 92ارب ڈالر کا قرضہ سوار ہے۔

یہ اُس غریب ملک کے انتہائی امیر حکمران ہیں جس ملک کے ایک عسرت زدہ خاندان کی ایک غریب اور مجبور بیٹی کو دن دیہاڑے سیکڑوں لوگوں کے سامنے بس سٹینڈ پر ایک اوباش قتل کر دیتا ہے تو مقتولہ کے کفن کے لیے مسافروں سے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ہمارے سماج کی یہ مجبور بیٹی فیصل آباد میں بس ہوسٹس کی ملازمت کررہی تھی کہ چند روز قبل ہی ایک اوباش اور بدمعاش شخص کی خواہش پوری نہ کرنے پر اُسے بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔

ابھی تو ہمیں یہاں کئی دیگر نگران حکمرانوں کا بھی ذکر کرنا تھا اور الیکشن میں اُترنے والے کئی زرداریوں اور شریفوں کی دولتوں اور جائیدادوں کا حوالہ بھی دینا تھا کہ ناصر الملک سے منسوب مذکورہ خبر نے ہمارے ہوش ٹھکانے میں نہیں رہنے دئیے۔ابھی تو زرداریوں نے اپنی صرف 758ملین روپے کی جائیدادوں سے پردہ سرکایا ہے۔ باقی کا ذکر کیا؟راج دلاری کے ظاہر کردہ نئے اثاثے بھی حیران کن ہیں۔

لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ پاکستان ایسے غریب ملک کے سیاستدانوں کا مالی احوال ہے۔ دہری شہریت رکھنے والے 122افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں لیکن کسی کو انتخابات کے عمل سے باہر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ لوگ منتخب ہو کر کیوں پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفادات کاتحفظ کرنے کی کوشش کرینگے؟ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آئر لینڈ، اٹلی وغیرہ کے پاسپورٹ جیب میں رکھنے والے یہ لوگ پاکستان سے مخلص کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ لوگ پاکستان کو درپیش سنگین مسائل کا کوئی شافی اور فوری حل نکالنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟

کیا اپنے مفادات کے مارے یہ لوگ مسائل اور مصائب میں گھرے پاکستان کو بھنور سے نکالنے کی کبھی سنجیدہ کوشش کر سکتے ہیں؟ ایسے لوگوں سے ایسی توقع لگانا ہی عبث ہے۔رواں لمحات میں وطنِ عزیز کو پانی کے سخت اور سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت ہمارے پانیوں پر کشن گنگا ایسے ڈیم بنا کر ہمارا گلہ گھونٹنے کی مکمل تیاریا ں کر چکا ہے لیکن ہمارے ذمے داران خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔وہ صرف ذاتی دولت کے ڈھیر لگانے اور نجی محلات کھڑے کرنے کی دُھن میں مگن ہیں۔

کالا باغ ڈیم ہمارے سبھی آبی مسائل کا اطمینان بخش حل ہے ۔ہم تو اسے ملک کی معاشی، زرعی اور صنعتی تقدیر بدلنے کی کنجی قرار دیتے ہیں۔ اور ہمارا خیال ہے کہ ہر محبِ وطن پاکستانی ہمارے اِس خیال سے متفق ہوگا۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے ازلی اور مکار دشمن کی ڈیوٹی پر موجود غدارِ وطن ہی اس کی بڑھ چڑھ کر شدید مخالفت کر رہے ہیں۔اور جو شخص، گروہ اور جماعت اپنے ملک کے مفادات کی مخالفت میں غیر ملک کے مفادات کی حمائت کرتا ہمیشہ پایا جائے، معروف معنوں میں اُسے کس نام سے یاد کیا جا سکتا ہے؟

کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں اُن کے پاس کوئی واضح دلیل بھی نہیں ہے۔شورہ پشتوں کی مانند صرف یہ کہتے ہیں کہ کسی کا باپ بھی کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکتا، ہماری لاشوں پر ہی کالا باغ ڈیم بنے گا۔ ان غداروں کے بزرگوں نے تو یہاں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ اس طرح کی دھمکیاں تو وہ دشمن کے ایجنڈے والے ہی دے سکتے ہیں۔وہی عناصر ایسی دریدہ دہنی کر سکتے ہیں جنھوں نے کسی خفیہ مقام پر ملک کا سودا کر لیا ہو۔

اگر کالا باغ ڈیم کے بارے میں کسی کے تحفظات ہیں تو وہ سامنے لائے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیروتشکیل کے حوالے سے اگر کوئی غیر مبہم تکنیکی، سماجی اور معاشی مسائل ہیں تو مخالفت کرنیوالے دلائل اور منطق کی بنیاد پر یہ مسائل قوم کے سامنے پیش کریں۔تاکہ قوم بھی تو جان پہچان سکے کہ مسئلہ ہے کیا؟ مخالفت اور معاندت کی حقیقی وجہ کیا ہے؟ اور کالا باغ ڈیم نہ بننے سے متعلقہ صوبوں کے عوام کو کیا کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں؟

اگر یہ مسائل سامنے لائے جائیں تو وہ یقیناٍ دُور ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں یقینِ کامل ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں کمر بستہ یہ لوگ کبھی اپنے ٹھوس دلائل عوام کے سامنے نہیں لائیں گے۔ وہ اپنے غریب اور تہی دست عوام کو اندھیرے میں رکھ کر اور اُنہیں جذباتیت کی حشیش پلا کراپنے نجی مفادات کی مسلسل آبیاری کررہے ہیں۔کالا باغ ڈیم کی جس شخص نے اوّلین طور پر مخالفت کی تھی وہ آج کابل میں زیر زمین ہے لیکن اُس کے چھوڑے گئے شوشے نے پوری قوم اور پورے ملک کے اجتماعی مفادات کو بلڈوز کررکھا ہے۔ لیکن کسی کو کوئی شرم نہیں آرہی۔

غیر تو ہمارے دریائی پانیوں کے دشمن تھے ہی، اپنوں کی دشمنی بھی کم نہیں ہے۔پانی کا قحط بڑھتا جارہا ہے اور ہم ہیں کہ کالا باغ ڈیم پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ پانی کی کمیابی کے مسئلے نے ساری دنیا کو فکر اور تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ امریکا نے تو ساری دنیا میں زیر زمین پانی کی کُل مقدار یا حجم جانچنے کے لیے ایک سیارہ بھی خلا میں چھوڑ دیا ہے۔ اِس مصنوعی سیارے سے حاصل ہونے والی مفید اور قیمتی معلومات سے جہاں امریکا اپنی سرزمین کے پانی کی مقدار کو جان اور پہچان سکے گا، وہیں وہ اِنہی معلومات کے مطابق اپنی حریف اقوام کو ایکسپلائیٹ بھی کر سکے گا۔

ہم پھر امریکا کے دستِ نگر بن کر رہ جائینگے۔ وہ روزِ بد آنے سے پہلے کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اپنے پانی کے ذخائر کے بارے میں جتنے بھی جھگڑے اور تحفظات ہیں، مل بیٹھ کر اُنہیں نمٹا لیں؟ کالا باغ ڈیم کے مخالف، ان غداروں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری آبی کمیابی بھی بڑھ رہی ہے، پاکستان کے خلاف بھارتی آبی جارحیتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور کالاباغ ڈیم پر ہمارے گھر کے تصادم بھی روز افزوں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر ولی خاں اور غلام احمد بلور، نے کالا باغ ڈیم کے خلاف جو بیان دیا ہے، اِسے دوبارہ بیان کرنا ہی غیر مناسب ہے۔

اُن کے نزدیک کالا باغ ڈیم کا مسئلہ ’’مردہ گھوڑا ہے۔‘‘ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی ہیں؟ یہ بات تو اب واپڈا کے چیئرمین، لیفٹیننٹ جنرل(ر) مزمل حسین نے واٹر ریسورسز پر سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے پاکستان میں آبی کمیابی کی خطرناک صورتحال اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جو بریفنگ دی ہے، کوئی بھی مخلص اور محبِ وطن پاکستانی اُسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ مزمل حسین نے کہا:’’کالا باغ ڈیم تعمیر ہونا چاہیے لیکن اِس کے لیے پاکستان کے تمام صوبوں کے ٹھوس تحفظات دور ہونے چاہئیں۔‘‘

مزمل حسین کا مزید کہنا تھا:’’کالا باغ ڈیم کے حوالے سے سب سے زیادہ تحفظات سندھ کے ہیں اور یہ تحفظات دُور بھی ہو سکتے ہیں۔ سندھیوں کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے پنجاب اُن کا پانی اپنی طرف لے جائے گا۔ اِس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ کالا باغ ڈیم بنانے کے بعد اس کا آپریشنل کنٹرول سندھ کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘ تجویز تو خوب ہے لیکن اِسی بریفنگ کے دوران سندھ سے تعلق رکھنے والے دو سینیٹروں(قراۃ العین مری اور گیان چند)نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر بغیر ٹھوس دلیل کے ناممکن قرار دے ڈالی۔

اِسے قوم پرستی تو کہا جا سکتا ہے لیکن اِسے وطن پرستی اور وطن دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دونوں بڑے ڈیمز، منگلا اور تربیلا،میں پانی ذخیرہ کرنے کی استطاعت میں بھی تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ تربیلا ڈیم کی اسٹوریج کپیسیٹی میں 30فیصد کمی آ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم ہر سال 25ملین ایکڑ فٹ پانی محض اسلیے ضائع کردیتے ہیں کہ ہمارے پاس خصوصاً موسمِ برسات میں پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع ہی نہیں ہیں۔

ہمارے مقابل بھارت نے کوشش کی ہے کہ وہ پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع میں غیرمعمولی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ وہ تو پاکستان کے حصے میں آنیوالا پانی بھی چوری کرنے سے باز نہیں آیا ہے۔ واپڈا کے چیئرمین مزمل حسین نے ہمارے مقابلے میں بھارتی ڈیموں کا جو ذکر کیا ہے، وہ اپنی جگہ قابلِ غور ہے۔ مزمل صاحب نے مذکورہ بالا سینیٹ کمیٹی کو بتایا:’’بھارت اپنے ہاں943ڈیم بنا چکا ہے جن میں170دنوں کے لیے پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد صرف155ہے اور اِن میں صرف 30دنوں کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔‘‘واپڈا کے سربراہ اشاروں اشاروں میں ہمیں انتباہ کررہے ہیں کہ ملک میں پانی کی صورتحال بہت خطرناک ہو چکی ہے۔ وہ کالا باغ ڈیم کے بارے میں محتاط گفتگو شائد اس لیے بھی کررہے ہیں کہ جانتے ہیں کہ اُن کے ایک پیشرو کو کالاباغ ڈیم کے حق میں بین السطور مضامین لکھنے کی ’’پاداش‘‘ میں مستعفی ہونا پڑا تھا۔

پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح بھی تیزی سے نیچے گررہی ہے۔ اِس کی بھی کئی وجوہ ہیں لیکن ’’واپڈا‘‘ کے چیئرمین صاحب نے جو ایک بڑی وجہ بیان کی ہے، اُسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اِس وقت ملک بھر میں2لاکھ60ہزارٹیوب ویلزکام کررہے ہیں۔ اِن کی وجہ سے بھی ہمارے زیرِ زمین پانی میں شدت سے کمی آرہی ہے۔یہ ایسے حقائق ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا اپنے انتہائی قیمتی اور بے بدل اثاثوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہونے کے مترادف ہے!لیکن کسی کو کوئی چِنتا، کوئی پروا بھی ہے؟ کوئی نیا ڈیم نہیں بن رہا اور زیر زمین پانی کی سطح بھی گر رہی ہے۔

’’ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر اِن پاکستان‘‘نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور شہر میں پانی کی سطح 130فٹ کی گہرائی تک چلی گئی ہے۔ اِس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پانی کی نعمت سے ہم سب کسقدر تیزی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اور جو علاقے دریاؤں سے دُور ہیں، وہاں ہینڈ پمپ یا ٹیوب ویل لگانا ویسے ہی جان کو جوکھوں میں ڈالناہے۔ اگر پاکستان کے دریائی پانیوں پر ڈاکے ڈال کر بھارت یونہی ڈیم پر ڈیم بناتا رہا تو ہمارے ہاں پانی کا مکمل کال اور قحط پڑ سکتا ہے۔

کالا باغ ڈیم نہ بننے سے ہماری زراعت مکمل تباہ ہو جائے گی۔ ہماری امیدیں دیامر، بھاشا ڈیم پر بھی وابستہ تھیں۔صورتحال اِس کی بھی خاصی ڈانوا ڈول ہے۔ دیامر ، بھاشا ڈیم کی سرحدیں خیبر پختونخواسے بھی ملتی ہیں اور گلگت بلتستان سے بھی۔ اِس بارے میں جناب مزمّل حسین یوں انکشاف کرتے ہیں:’’جب بھی واپڈا کے ہمارے اہلکار اِس کی تعمیر کے لیے قدم آگے بڑھاتے ہیں، دونوں اطراف کے لوگ گولیاں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اب تک واپڈا کے 12قیمتی لوگ اِس راہ میں اپنی جانیں دے چکے ہیں۔‘‘

ہمارے تو سر اِن سانحات پر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔یہ ڈیم جن لوگوں کی زمینوں پر بن رہا ہے، بطورِتلافی حکومتِ پاکستان اُنہیں اب تک 80ارب روپے بھی دے چکی ہے لیکن ڈیم کی تعمیر کی جانب قدم مطلوبہ رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے۔مقامی حکومتوں کا تعاون بھی آئیڈیل نہیں ہے۔واپڈا کے چیئرمین شکوہ کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ’’ وہ 150کلومیٹر لمبی سڑک بھی نہیں بن رہی جو علاقے کو دیامر، بھاشا ڈیم سے منسلک کرے گی۔ ‘‘یعنی اِس ڈیم کی تعمیر میں بھی مسائل گنجلک ہو کر مصائب بن گئے ہیں۔

دنیا بھر کا اصول یہ ہے کہ قومی مفادات میں پیچیدگیاں کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں معاملہ معکوس ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کی پُرامید اور ہمت افزا آواز اُبھری ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی۔کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے چار بھائی متفق نہیں ہیں تو پھر (پانی بحران کے حل کے لیے) متباد ل کیا ہے؟‘‘۔

اللہ کرے پانی کی قیامت آنے سے پہلے پہلے اُن کی کوششیں رنگ لے آئیںکہ کالا باغ ڈیم پر بعض لوگوں کی ضِد بڑے مسائل کا سبب بن گئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن میں مزید اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ابھی کل پرسوں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دھاڑتے ہُوئے کہا ہے کہ ’’ہم کسی صورت کالا باغ ڈیم نہیں بننے دینگے۔‘‘ووٹوں کے لالچ میں اُن کا یہ بیان نہ صرف قابلِ صد افسوس ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔ ہم اِس لہجے کی ہر گز ستائش نہیں کر سکتے۔

عقل سے عاری ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی وفاق کی علامت پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہو کے ر ہ گئی ہے ایسے چھوٹے لوگ ہی بڑی پارٹیوں کی تباہی کا موجب بنتے ہیں۔ خورشید شاہ اور اُن کے ولیِ نعمت کی جائیدادیں تو لندن، دبئی اور پیرس میں بھی ہیں۔ کسی ناگہانی کی صورت میں یہ تو وہاں بھاگ جائینگے اور صوبہ کے پی کے کے بھارت کی ڈیوٹی دینے والے غدار تو افغانستان بھاگ جائیں گے لیکن 99فیصد ہمارے پٹھان اور سندھی بھائیوں کو تو اِسی سرزمین پر رہنا ہے۔ یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے ۔

خورشید شاہ، محمود اچکزئی، غلام احمد بلور،باچا خان کی آل اولاد کیوں مملکتِ خداداد کا سفینہ ڈبونے کے دَرپے ہیں؟ ہمارے ادارے کیوں محبِ وطن انجینئر شمس الملک ایسے صاحبانِ علم و خبر کو پوری توانائی اور طاقت سے سامنے نہیں لا رہے جو اپنے علم اور تجربات کی اساس پر چیلنج کرتے ہُوئے بار بار ثابت کر چکے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نہ تو خیبر پختونخوا کا کوئی شہر (مثال کے طور پر نوشہرہ) زیر آب آئیگا اور نہ ہی کالاباغ ڈیم میں اسٹور کیے جانے والے پانی سے سندھ کی زراعت کو کوئی گزند پہنچے گا اور نہ ہی سندھ کے حصے کا پانی چرایا جا سکے گا۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سنجیدگی اور شائستگی سے قابلِ عمل کام کیا جائے تو بہت سے اشکالات بھی دُور ہو سکتے ہیں اور کالا باغ ڈیم کے معاندین نے بوجوہ اپنے عوام کے ذہنوں میں جن شکوک و شبہات کو بٹھا دیا ہے، وہ بھی ختم ہو جائینگے۔ شرط مگر یہ ہے کہ مخالف اور موافق فریقین کو دیانتداری اور حب الوطنی کے جذبے سے محبِ وطن جماعتوں کو آگے آنا چاہیے۔

ہمیں یقینِ کامل ہے کہ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے اگر اخلاص کے جذبے اور قوم وملک کے وسیع تر مفاد میں کام کیا جائے تو اِس کے نہایت مثبت اثرات برآمد ہوں گے۔جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں جس دلچسپی کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ قدر ہے، ہم ان سے عرض کرینگے کہ اگر آپ ان غداروں کو لاجواب کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ فوری طور پر ایک ہفتے کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کی کمیٹی بنائیں جس میں چاروں صوبوں کے عالمی شہرت کے حامل انجینئرز بھی شامل ہوں اور تمام صوبوں کے ان سیاستدانوں کو بھی مدعو کریں جنہیں کالاباغ ڈیم پر تحفظات ہیں۔

اگر ان کے تحفظات درست ہیں تو سپریم کورٹ ان کو دُور کرے اور ساتھ گارنٹی بھی دے۔ اس کے علاوہ جو خوامخواہ انڈیا کی ڈیوٹی کی وجہ سے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ان کو عبرت کا نشان بنائیں اور ایسا فیصلہ جاری کریں جس میں کسی صوبے کو کوئی اعتراض نہ ہو اس سے یقینا ہم اللہ کے فضل و کرم اور تاجدارِ کائنات کے صدقے کالاباغ ڈیم عوام کی اُمنگوں کے مطابق بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ یقینا برکت ڈالے گا۔ انشاء اللہ ۔

چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب نے صدقِ دل سے کالا باغ ڈیم کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات کا ذکر کیا ہے۔ وہ بجا کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے پانی کے تحفظ میں کوئی بڑا ڈیم نہ بنا سکے تو اپنی آنیوالی نسلوں کو کیا جواب دے سکیں گے؟ اُنہوں نے ملک کو درپیش پانی کے سنگین مسائل کے پس منظر میں اِسے اوّلین ترجیح قرار دیا ہے۔

واپڈا کے موجودہ چیئرمین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’’کالا باغ ڈیم تکنیکی اعتبار سے بن سکتا ہے(Technical Viable) اگر صوبوں کے تحفظات دور ہو جائیں تو لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانی کے حوالے سے ہم جس عظیم بحران کی دہلیز پر کھڑے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ سارے فریق فوری مل بیٹھیں۔ ہم یہ بھی عرض کرینگے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ٹیکنیکل معاملات کو واضح کرنے کے لیے غیرجانبدار اور عالمی شہرت یافتہ انجنیئرز پاکستان بلائے جائیں جو خالصتاً تکنیک کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو مطمئن کر سکیں کہ یہ عظیم آبی بند ضرر رساں نہیں، مفید ثابت ہوگا۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان یقینی طور پر ایسا شاندار کردار ادا کر سکتی ہے جو یقینا انشا اللہ سب کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے دردِ دل سے ایک لائحہ عمل تو پیش کر دیا ہے اور اپنی کمٹمنٹ بھی ظاہر کر دی ہے ۔ مسئلے کے متفق علیہ حل کے لیے تین رکنی بنچ بھی تشکیل دیدیا ہے۔ اب باقی کاکام ساری قوم کو متحد ہو کرانجام دینا ہے۔ چیف جج صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ’’ہم پاکستان کے سارے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے کوئی قانونی حل نکال ہی لیں گے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو پانی بھی فراہم نہ کر سکیں تو ہم مزید کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

اُنہوں نے نہائیت سنجیدگی سے اِسی بارے میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں سماعتوں کی تاریخیں بھی مقرر کر دیں۔ کراچی اور لاہور کی سماعتیں تو ہو چکی ہیں ۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے بھارتی ڈیم (کشن گنگا) کا ذکر بھی کیا ہے ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اِس ڈیم کی تشکیل سے پاکستان کو پہنچنے والے آبی نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان اور پاکستان کی زرعی، معاشی اور صنعتی بقا کے ضامن اِس سب سے بڑے منصوبے کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو شرم نہیں آرہی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے توپاکستان کو درپیش پانی کے مسائل کے حل اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ساری اُمیدیں عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب کی کوششوں اور جدوجہدسے وابستہ کر لی ہیں۔ ہماری اِس اُمید میں پاکستان کے 95فیصد عوام کی اُمیدیں بھی شامل ہیں۔ مزید تاخیر نقصان دِہ ہوگی۔ ’’ناؤ آر نیور‘‘ کے نعرے پر کالا باغ ڈیم کی جانب قدم آگے بڑھانے ہوں گے ۔ وگرنہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ ہمارے موجزن دریااور لہراتی ندیاں خشک ہو کر صحرا بن جائیں گی۔یہ بات یاد رکھ لی جائے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔