کراچی پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں

کشور زہرا  منگل 30 اپريل 2013

محسوس یہ ہو رہا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طرح غیر سیاسی و غیر ریاستی کرداروں نے اب انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کے لیے سندھ کا رُخ کر لیا ہے اور اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے الیکشن کے نتائج کو کنٹرول کرنے کی ایک گھناؤنی سازش جاری ہے۔

اوّل تو انتخابات کے لیے اس گرم ترین موسم کو چُنا گیا کہ جس میں گھر سے باہر قدم نکالنے سے پہلے سوچا جائے گا، اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ کریکر حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خوف کا وہ سماں پیدا کیا جا رہا ہے کہ ایک عام شہری کو صرف اپنی اور بال بچوں کی زندگیاں بچانے کی فکر لاحق رہ جائے نہ کہ ان نمایندوں کی انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بارے میں سوچے یا فیصلہ کرے کہ مستقبل کے لیے کون بہتر نمایندہ ثابت ہو سکتا ہے جو اس ملک کے لیے وہ قوانین وضع کرے جو یہاں کے شہریوں کے لیے بنیادی حقوق کے ساتھ تعمیر و ترقی کی منازل بھی طے کرائیں۔

گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے بم دھماکوں کی جگہ کا تعین کچھ اس طرح سے کیا گیا کہ جس میں انتخابی مہم کے دفاتر اور آس پاس کے علاقے متاثر ہوں تا کہ اگر اس کے گرد و نواح میں رہنے والے لوگ اپنے نمایندوں کے بارے میں تفصیلات اور اس کا منشور سمجھنا بھی چاہتے ہوں تو بھی ایسا نہ کر سکیں، اور اس طرح اس حق سے بھی عوام کو محروم کیا جا رہا ہے اور وہ خوف کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے دفاتر تک پہنچ ہی نہ سکیں۔ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

ایسے مقامات جہاں لوگ اکٹھے ہو کر سیاسی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں ان پر اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائی کا مقصد معاشرے میں بد امنی کا ایک ایسا بحران پیدا کرنا ہے کہ جس سے الیکشن کے عمل سے ووٹ کی حقیقت تک سے انسان متنفر ہونے لگے۔ ظاہر ہے جب ایک گلی سے تین اور چار جنازے اٹھیں گے، ایک ہی محلے کے چھ چھ بچے جاں کنی کی حالت میں پائے جائیں گے، تو کیسا ووٹ! اور کس کو ووٹ؟ اور یہی مقصد ان مذموم مقاصد کے پیچھے کار فرما نظر آ رہا ہے۔

بڑے دُکھ کی بات یہ ہے کہ وہ ادارے جنھیں منصفانہ انتخابات کی ذمے داری سونپی گئی انھوں نے اس بات کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ ان سیاسی پارٹیوں کو جو علی الاعلان دہشت گردوں کے ہدف پر ہیں جن کے کارکنان اور ساتھ ہی عوام کی شہادتیں روز کا معمول بن چکی ہیں، نہ ان کے تحفظ کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی انھیں انتخابی کور کی مشاورت میں شامل رکھا گیا، بات اگر کی جا رہی ہے تو صرف اتنی کہ الیکشن خیریت سے ہو جائے! اور اس خیریت کے دن کا مرکز 11 مئی کو تصور کیا جا رہا ہے ، اس سے پہلے کیا ہو رہا ہے؟ اور 11 مئی تک کیا سے کیا ہو جائے گا؟ جس کے تدارک کی کوئی خاطر خواہ فکر کسی سُو دکھائی نہیں دے رہی حتیٰ کہ وہ جماعتیں جو دہشت گردی کی لپیٹ میں نہیں اور ان کی بھی ساری ’’بصیرت‘‘ میڈیا پر اپنے ماضی کی خدمات کا راگ الاپنے میں صرف ہو رہی ہے، جو محب وطن ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہیں لیکن اپنے عمل سے کسی اور سیّارے کی مخلوق لگتی نظر آتی ہیں کیونکہ وہ جماعتیں جن کا تعلق خواہ خیبر پختونخوا سے ہو، بلوچستان سے یا سندھ سے ہے اور دہشت گردی کی زد میں ہیں ان کے کارکنان اور معصوم عوام کی جانوں کے زیاں پر اس سیاسی مخلوق کے کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آ رہی۔ دہشت گردوں کی جانب سے آزادانہ سیاسی سرگرمیوں سے عوام کو روکنا اور نمایندوں تک رسائی نہ ہونے دینا اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ کچھ طاقتور عناصر اپنا کام دکھا رہے ہیں۔

اب ہم ملک کے معاشی حب کراچی کی جانب دیکھتے ہیں جہاں ایک طرف گینگ وار کارندوں نے تجارتی علاقوں سے نکل کر اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار اب ڈیفنس، گلشن اور گلستانِ جوہر تک وسیع کر کے بد امنی پھیلا رکھی ہے، اس حوالے سے گزشتہ ہفتوں میں ہونے والے چند واقعات جن میں قالین شاپ پر کریکر حملہ، پھر مالکان کے گھر پر حملہ، سوک سینٹر کے اطراف روز مرہ ہونے والی لُوٹ مار، اور اس پر طرّہ یہ کہ اب سیاسی سرگرمیوں پر غالب آنے والی طاقتیں الیکشن کے دفاتر پر جان لیوا حملے کر کے اپنی مذموم کارروائیوں سے عوام کو دہشت زدہ کر رہی ہیں۔

دراصل یہ وہی عناصر ہیں جو طاقت اور دھونس کے ساتھ ساتھ اسلحے کی بنیاد پر اپنا ایجنڈا قوم کے سر پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس وقت کا ایجنڈا الیکشن کو سبوتاژ کرنا ہے جس کا وہ پہلے سے اعلان کر چکے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ مثبت طاقتیں ایوانوں میں پھر سے جائیں جنہوں نے ان شر پسندوں کے مذموم ایجنڈے کو جو ایک معاہدے کی صورت میں اسمبلی میں پیش کیا، لیکن ایسے میں جنھیں Son of the Soil نہ ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے انھوں نے ہی اپنی سر زمین کو اس شر سے بچانے کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بقیہ ممبران اسمبلی نے بھی اس دور اندیش و دور بین فیصلے پر تائید کرتے ہوئے اس معاہدے کو ٹھکرا دیا۔

ایک طرف تو کاروباری لوگ بحرانوں کی زد میں ہونے کے سبب کراچی سے نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں جس سے معیشت برق رفتاری سے پاکستان سے باہر منتقلی ہو رہی ہے، لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، ہوشربا مہنگائی، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، جرائم میں اضافہ، مساجد امام بارگاہوں، اسکولوں اور اولیائے کرام کے مزارات پر ہونے والے حملے، یہی سب کراچی کو سبوتاژ کرنے کی دوسری منظم کوشش ہے۔

پہلی کوشش ہم دار الخلافے کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کو گردانتے ہیں، جس نے ملک کو دو لخت کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی چھوٹے صوبوں کو اگر گلہ ہے تو اسلام آباد کی مرکزیت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جو ایک زمینی حقیقت ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ شہرِ کراچی جہاں لوگ کھنچے چلے آتے تھے، آج اسے خوف کا ایک ایسا گہوارہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کجا کہ باہر کے سرمایہ دار آئیں یہاں کا سرمایہ دار مائل بہ پرواز ہے۔ جب سرمایہ نہیں تو صنعتیں نہیں، صنعتیں نہیں تو روزی نہیں، روزی نہیں تو روٹی نہیں اور اب تو بات روٹی کے نہ ہونے سے بہت آگے بڑھ گئی ہے کہ گھر سے باہر نکلے تو جان نہیں۔۔ ۔

’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘

گو کہ اب وقت بہت کم ہے لیکن اس بچے کھچے عرصے میں بھی حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے فوری طور پر حتمی اور سنجیدہ پالیسی وضع کی جائے اور انتخابی عمل میں شریک دہشت گردی سے متاثرہ سیاسی جماعتوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اعتماد میں لیا جائے تا کہ ووٹرز کو گھر سے باہر آنے کا ماحول میسر ہو سکے اور اس سے قبل نہ صرف ملک دشمن عناصر کو بلکہ کسی بھی سطح پر ان کے معاون و مددگار چہروں کو بھی بے نقاب کیا جائے، تبھی ان ملوث عناصر کی کمر توڑی جا سکتی ہے ۔

( مضمون نگار سابق رکن قومی اسمبلی ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔