صرف ایک ہی راستہ

مقتدا منصور  پير 25 جون 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میرے دوست انور اقبال نے مارچ 1957ء میں شایع ہونے والی ایک تصویر فیس بک پر شیئر کی ہے۔ تصویر میں 1956ء کے آئین کی منظوری کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب کے موقع پر اس وقت کے صدر مملکت اسکندرمرزا کو نیوی کے چیف رئیر ایڈمرل چوہدری اور دیگر لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف دکھایا گیا ہے۔

تصویر میں جو چیز کھٹکتی ہے، وہ اس تقریب میں وزیراعظم کی عدم موجودگی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم وہاں موجود ہوں، لیکن انھیں اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ بہرحال تصویر سے یہ تاثر ابھر رہا ہے، جسے ملک میں پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی نظام رائج ہو۔ جس میں صدر ریاست اور انتظامیہ دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔

وطن عزیز کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ چوہدری خلیق الزماں مرحوم اپنی کتاب Pathway to Pakistan میں لکھتے ہیں کہ وزرا کا انتخاب قائداعظم نے خود کیا تھا۔ وزیر خزانہ کے نام کا حتمی فیصلہ بھی بانی پاکستان نے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا تھا۔ فروری 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے وقت جب وزیراعظم لیاقت علی خان کو تقریب میں پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوئی، تو بانی پاکستان نے ان کی کرسی اسٹیج سے ہٹوا دی۔ پوری تقریب کے دوران وہ دیگر مہمانوں کی طرح سامعین کے درمیان بیٹھے رہے۔

معروف دانشور حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان نے اختیارات نہ ہونے کے سبب دو مرتبہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، جو گوکہ منظور نہیں ہوا، مگر انھیں اختیارات پھر بھی نہیں ملے۔ حمزہ علوی مزید لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان اپنے وزرا سے کہتے تھے کہ جو بھی منصوبہ بنانا ہے، اس کی سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی سے پیشگی منظوری لے لو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ فیصلہ سازی پر روز اول ہی سے اس حد تک حاوی ہوچکی تھی کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت جونیئر کلرک سے بھی کم ہوکر رہ گئی تھی۔ اس طرزعمل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام روز اول ہی سے نمائشی رہا ہے۔

یہ ابتدائی چار برس کی کہانی ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آنے والے وزرائے اعظم کو ان سے زیادہ توہین آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑا خاص طور پر جب برطانوی دور کے دو بیورو کریٹس (ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا) ملک کے گورنر جنرل اور موخرالذکر صدر بنے، تو وزیراعظم کی حیثیت جونیئرکلرک سے بھی کم ہوکر رہ گئی۔ جو تحقیرآمیز رویہ ان ادوار میں وزرائے اعظم کے ساتھ روا رکھا گیا، وہ شاید کوئی افسر اپنے چپڑاسی کے ساتھ بھی نہیں رکھتا۔ وزیراعظم کو کمتر حیثیت دینا، اسے سیکیورٹی رسک سمجھنا اور اس کی ہر ممکن تذلیل کرنا، ہمارے یہاں نظم حکمرانی کی روایت بن چکی ہے۔

بھٹو، جنھوں نے باعزت انداز میں شملہ معاہدہ کیا، 93 ہزار جنگی قیدی واپس لائے اور مغربی پاکستان کے وہ علاقے جو بھارت کے قبضے میں چلے گئے تھے، وا گزار کرائے۔ مگر صلہ کیا ملا؟ پہلے ان کے خلاف مخصوص سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے ذریعے معاندانہ پروپیگنڈا کرایا گیا۔ اس کے بعد انھیں ایک ایسے مقدمہ میں پھانسی کے پھندے تک پہنچادیا، جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ بھٹو مرحوم کے عدالتی قتل کا اعتراف خود اس بنچ کے ایک رکن جج جسٹس نسیم شاہ مرحوم بھی کئی انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔

بھٹو مرحوم کے بے رحمانہ سیاسی قتل کے بعد جو لوگ وزرائے اعظم کے عہدے پر منتخب ہوئے، وہ بھی کسی نہ کسی تحقیر کے ذریعے عہدوں سے ہٹائے گئے۔ محمد خان جونیجو تاریخ کے بدترین فوجی آمر ضیاالحق کی ذاتی پسند تھے۔ مگر انھیں جس طرح چین سے واپسی پر دوران سفر برطرف کیا گیا، وہ تحقیرو تذلیل کا بدترین نمونہ تھا۔ اسی طرح دو مرتبہ محترمہ شہید اور تین مرتبہ میاں نواز شریف کو جن الزامات کے تحت ان کے عہدوں سے قبل از وقت فارغ کیا گیا، وہ واضح طورپر ظاہر کرتا ہے کہ وطن عزیز میں اقتدار واختیار کا منبع وزیراعظم ہاؤس نہیں ہے۔

پاکستان میں نظم حکمرانی کے بحران کا دوسرا سبب بعض ریاستی اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت اور ماورائے آئین و قانون اقدامات ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ یہ ملک نہ تو کسی جنگ کے نتیجہ میں فتح ہوا ہے اور نہ ہی مسلح جدوجہد کے ذریعہ آزاد کرایا گیا ہے۔ بلکہ ایک پرامن سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ایک وفاقی جمہوریہ کے طور پر وجود میں آیا ہے۔

اس کے قیام کی جدوجہد میں برٹش انڈیا کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں اور بنگالی اور سندھی عوام کی کاوشوں کا سب سے زیادہ کردار رہا ہے۔ ساتھ ہی باچا خان کی قیادت میں پختون عوام کی برطانوی استعمار کے خلاف پرامن جدوجہد نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے اس ملک کی فیصلہ سازی اور اس کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف اس ملک کے عوام کو حاصل ہے۔

جب عوام اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، تو انھیں کچلنے کے بجائے ان کی بات سننے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ کیونکہ ایک جمہوری ریاست میں عوام ہی فیصلہ ساز حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ بنگالی عوام نے جب اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور ملک کو حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوریہ بنانے پر زور دیا، تو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ (جس کا اس ملک کے قیام میں ایک رتی کردار نہیں ہے) نے، انھیں ملک دشمن قرار دے کر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی۔ پھر انھیں اس حد تک زچ کیا کہ وہ علیحدہ ہونے پر مجبور ہوجائیں۔ لیکن جس انداز میں انھیں علیحدہ کیا، وہ ان کے لیے خون آشام اور باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب بن گیا۔

ابھی بنگلہ دیش کی آزادی کو تین برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ بلوچ عوام پر ایک بار پھر زندگی تنگ کردی گئی۔ سندھی، جنھوں نے سائیں جی ایم سید کی قیادت میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرائی تھی، صرف اس لیے ملک دشمن قرار دیے گئے کہ انھوں نے سندھی عوام کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا۔ یہی صورتحال ان دنوں مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اولاد کے ساتھ جاری ہے۔ ان کی اصل قیادت کو بغیر ٹرائل چلائے انتخابی عمل سے دور کردیا گیا ہے۔

اب پنجاب سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف بھی اسی نوعیت کے الزامات کی زد میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وطن عزیز میں جس جماعت، رہنما یا حلقے نے عوام کے حقوق اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کی بات کی، اس پر ملک دشمنی اور غداری کا الزام لگا۔ جب کہ غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والوں سے یہ پوچھنے کا کسی کو اختیار نہیں کہ ان اکہتر برسوں کے دوران خود ان کی اپنی کارکردگی کیا رہی ہے؟

عرض ہے کہ اکہتر برسوں سے جاری اس کھیل کو اب ختم ہوجانا چاہیے۔ اس کھیل نے ملک کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ بالادست طبقات اور فیصلہ ساز حلقوں کو حب الوطنی کے خودساختہ خول سے نکلنا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ حقوق کا مطالبہ، صوبائی خودمختاری اور نچلی سطح پر بااختیاریت یا پھر پڑوسی ممالک کے اچھے تعلقات کی خواہش کسی طور ملک دشمنی نہیں ہوتی۔ یاد رکھیے کہ وطن عزیز میں کوئی طبقہ یا کمیونٹی علیحدگی پسند نہیں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بااختیار حلقے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور اس ملک کو بانی پاکستان کے تصوارت کے مطابق ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ کے طور پر چلنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کریں۔ بلاول بھٹو نے درست کہا ہے کہ ریاستی فیصلہ سازی کا اختیار صرف اور صرف عوام کی جانب سے منتخب کردہ حکومتوں اور پارلیمان کو حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔