ایک نئی حکومت

عبدالقادر حسن  منگل 26 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جمہوریت کی رونقیں الیکشن کے دم قدم سے قائم رہتی ہیں، الیکشن ہوتے رہیں تو جمہوریت اپنا رنگ دکھاتی رہتی ہے اور اگر کسی وجہ سے الیکشن کا عمل تعطل کا شکار ہوجائے تو جمہوریت بھی باقی نہیں رہتی، سست پڑجاتی ہے اور اس کی جگہ آمریت لے لیتی ہے اور آمریت سے جا ن چھڑانا ایک مشکل بلکہ جان جوکھوں کا عمل ہے اور اس کے بعد بھی اگر ’’ صاحب آمریت ‘‘کی مرضی ہو تو وہ آمریت کے خاتمے اور الیکشن پر راضی ہوتا ہے، اس طرح کے حالات کا ہمیں ماضی میں بہت تجربہ ہو چکا ہے کیونکہ آزادی کے بعدہمارا زیادہ تر وقت آمریت کے سائے میں ہی گزرا ۔ ہم آمریتوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب بھی سیاستدانوں کی جمہوریت سے تنگ آتے ہیں تو بے اختیار آمریت کو یاد کرنے لگتے ہیں بلکہ ہم ہی میں سے کئی تو ایسے ہیں جو فوج کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

یہ سب کیوں ہوتا ہے جب کہ کہا تو یہ جاتا ہے جمہوری حکومت میں ہی کسی ملک کی ترقی کا راز ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں آمریت کو دعوت دے کر اپنے اوپر مسلط کیا جاتا ہے دراصل ہمارے حکمران ایسے لوگ رہے جو خود آمریتوں کی پیداوار تھے۔ انھوں نے کسی غیر جمہوری حکومت کے سائے میں ہی آنکھ کھولی اور کسی ڈکٹیٹر کی آشیر باد سے سیاست کے میدان میں پھلے پھولے۔ آمریت کے سائے میں پلنے والے سیاستدان جب ہمارے حکمران بن جاتے ہیں تو ان کا طرز حکمرانی نہ تو آمریت والا رہتا ہے اور نہ ہی وہ جمہوری حکمران ہوتے ہیں، وہ دراصل درمیانی طرز کے حکمران بن کر حکومت کرتے ہیں یعنی تیتر بٹیر والا معاملہ ہو جاتا ہے، اس لیے عوام ان کی رنگ برنگی جمہوری حکومت سے جلد ہی تنگ آجاتے ہیں اور دوبارہ سے آمریت کو دعوت دینے لگتے ہیں اور پھر معاملہ وہی شروع ہو جاتا ہے۔

ایک نیا لیڈر ڈکٹیٹر کی حکومت میں پروان چڑھتا ہے اور بالآخر قوم پر مسلط کر دیا جاتا ہے ۔ کسی بھی غیر جمہوری حکومت کا استقبال کرنے میں ہمارے سیاستدان ہی پیش پیش ہوتے ہیں اور ان کی غیر جمہوری حکومت کو عوام کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اپنا کندھا جلد از جلد پیش کر دیتے ہیں لیکن یہ ڈکٹیٹر پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کندھے کو کب اپنی بیساکھی کے طور پر استعمال کرتا ہے کیونکہ حکومت کے آغاز میں وہ بہت پُر امید اور جذبہ لیے ہوئے آتا ہے لیکن جلد ہی اسے جمہوری سیاستدانوں کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور وہ ان کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیتا ہے۔ کسی بھی غیر جمہوری حکومت کا سربراہ فو جی ہوتا ہے جس کی تربیت ایک مخصوص دائرہ کار کے گرد گھومتی ہے۔

اسے عام دنیاوی معاملات سے نبرد آزما ہونے کا وہ تجربہ حاصل نہیںہوتا جو ایک سویلین کو ہوتا ہے کیونکہ ایک فوجی کو خالص فوجی تربیت دی جاتی ہے جس کا بنیادی نکتہ دشمن کے ساتھ نبردآزما ہونا ہوتا ہے لیکن جب اس کا واسطہ عوام سے پڑتا ہے تو اس کی بنیادی تربیت اس معاملے میں ناکام ہو جاتی ہے اور وہ گھوم پھر کر سیاستدانوں کے کسی ایک گروہ کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اوران کی مدد سے حکمرانی جاری رکھتا ہے ۔ وہ سیاستدان اس کا دست وبازو بن جاتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے ڈکٹیٹر کو اپنا باس تک مان لیتے ہیں ۔ فوجی حکمران چونکہ خالص فوجی ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے فوجی انداز سے حکمران بن کر حکم جاری کرتا ہے جس کواس کے ساتھی سیاستدان بجا لاتے ہیں۔ یوں اس کی حکومت چلتی رہتی ہے اور اس کے ساتھی سیاستدانوں کا کاروبار بھی چلتا رہتا ہے یعنی دونوں کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں رہتا ہے ۔

آمرتیوں کے سائے تلے پلے بڑھے ہمارے عوام اپنے آپ کو کسی فوجی حکومت میں محفوظ تصور کرتے ہیں اس لیے وہ جب بھی ملک کو کسی مشکل میں دیکھتے ہیں تو بے اختیار ان کی نگاہ کا مرکز فوج ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فوج ہی ہے جو ان کو کسی بھی دیکھے یا ان دیکھے دشمن سے محفوظ رکھ سکتی ہے اس لیے وہ فوج کے ساتھ اپنے آپ کو آرام دہ تصور کرتے ہیں اور فوجی حکمران آج تک عوام میں اس لیے مقبول رہے کہ ان کے ادوار میں عوام کو کسی مشکل کا سامنا نہیںپڑا سوائے ایک آدھ نشیلے حکمران کے جس کے دن اور راتیں کسی نہ کسی کی بانہوں کے سہارے ہی گزرتی رہیں ۔ لیکن ان کے بعد آنے والے فوجی حکمرانوں کے دور میں سیاستدانوں کی نئی نرسری تیار ہوئی جو آج تک ہم پر مسلط ہے اور ہر الیکشن میں گھوم پھر کر وہ کامیابی سے ہمارے اوپرمسلط ہو جاتی ہے ۔

اپنے مفادات کی خاطر کبھی ایک جماعت میں جاتے ہیں تو کبھی دوسری جماعت ان کا مسکن بن جاتی ہے اور عوام ایک بار پھر جماعت کی تبدیلی  کے بعد ان پر اعتماد کر لیتے ہیں لیکن عوام کے ساتھ ہوتا وہی ہے جو  پہلے ہو چکا ہوتا ہے۔ ہر دفعہ طریقہ واردات مختلف ہوتا ہے ۔ ملک میں ایک بار پھر الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ان میں بھی کم و بیش وہی لوگ اپنے آپ کو عوامی نمایندوں کے طور پر پیش کر رہے ہیںجو پہلے ہی کئی دہائیوں سے ہمارے حکمران چلے آرہے ہیں ۔ یہ سیاستدان ہر الیکشن سے پہلے پارٹی بدل لیتے ہیں یعنی اس پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں جس کی جیت کے امکانات ان کو نظر آرہے ہوں، اس دفعہ پھر وہی ہورہا ہے اور حکمران بننے کے لیے جتن کرنے والے جناب عمران خان اپنی نئی بوتل میں پرانی شراب ہی پیش کرنے جا رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی سیاستدانوں کا وہی مخصوص ٹولہ ہے جو اقتدار کا بھوکا ہے اور ہر حال میں اقتدار میں رہنا چاہتا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ مفاد پرست ٹولہ نیا پاکستان کیسے بناتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔