’دس روپے سے صدارتی ایوارڈ تک کا سفر آسان نہ تھا‘

قیصر افتخار  منگل 26 جون 2018
میراحسد کرنیو الے لوگوں کومشورہ ہے کہ وہ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے اگرخود محنت کریں، شاہدہ منی

میراحسد کرنیو الے لوگوں کومشورہ ہے کہ وہ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے اگرخود محنت کریں، شاہدہ منی

کامیابیاں اورناکامیاں زندگی کے ساتھ چلتی رہتی ہیں لیکن کامیابیاں ہمیشہ انہی لوگوں کے قدم چومتی ہیں جواپنی منزل کوپانے کی دھن میں سواررہتے ہیں۔

وہ ہرطرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا مقابلہ کرتے ایک دن اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بہت سے لوگ توایک منزل طے ہونے پرنئی راہیں تلاش کرنے کیلئے آگے نکل پڑتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی مثالیں دی جاتی ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ’روشن ستارے‘ بن کرچمکتے ہیں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔

فن موسیقی کی بات کی جائے توپاکستان کی سرزمین اس شعبے میں ہمیشہ ہی بہت زرخیز رہی ہے، کلاسیکل، غزل، گیت ، ٹھمری، فوک اورپاپ میوزک کی اصناف میں ہمارے ملک کے معروف گلوکاروں نے جوکارنامے انجام دیئے ، وہ سب کے سامنے ہیں۔ ایسے ہی منفرد انداز گائیکی سے اپنی الگ پہچان بنانے والوں میں ایک نام ’میلوڈی کوئین آف ایشیاء‘ شاہدہ منی کا بھی ہے۔ جن کی طویل فنی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں ’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘ (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا ۔ اس اعلیٰ سول ایوارڈ کے بعد ان کا نام پاکستان کی تاریخ کے ان عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے، جن میں شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، استاد نصرت فتح علی خاں، اقبال بانو، فریدہ خانم، ریشماں، غلام علی اوراستاد سلامت علی خاں سمیت بہت سے معروف فنکاروں کے نام ہیں۔

گلوکارہ شاہدہ منی نے اعلیٰ سول ایوارڈ ملنے پر ’’ نمائندہ ایکسپریس ‘‘ کواپنا پہلا اور خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اپنی فنی زندگی میں ملنے والی کامیابیوں کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ’ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘ کے موقع پراپنی کیفیت کااظہارکیا ، جوقارئین کی نذرہے۔

شاہدہ منی کا کہنا تھا کہ ’ پرائیڈ آف پرفارمنس‘ ہویا کوئی بھی ایوارڈ اوراعزازیہ آسانی سے نہیں ملتے۔ اس کے پیچھے بہت عرصہ کی محنت ہوتی ہے اورپھرکہیں کوئی فنکاران اعلیٰ سول ایوارڈز تک پہنچ پاتا ہے۔ میں نے اپنا فنی سفر10برس کی عمر سے شروع کیا۔ پہلی پرفارمنس ایک بنچ پر کھڑے ہوکردی، جس پر ماسٹر صادق نے مجھے دس روپے انعام میں دیئے۔ کہنے کوتو یہ دس روپے تھے لیکن اس کی قدروقیمت صرف وہی جانتے ہیں جن کواتنے مہان لوگ انعام دینے کے قابل سمجھتے ہیں۔

اس لئے صدارتی ایوارڈ تک پہنچنے کا سفرآسان نہیں تھا۔’’ یہ ایک چلہ ہے اوریہ چلہ کاٹنا پڑتا ہے‘‘ ۔ ٹیلی ویژن سے میرا سٹارٹ ہوا، ریڈیو پاکستان کیلئے بہت کام کیا اورپھر آرٹس کونسل کے زیراہتمام ہونیوالے بہت سے پروگراموں میں پرفارم کیا۔ قومی تہواروں کے موقع پرمنعقد ہونے والے پروگراموں میں بچوں کے ہمراہ پرفارمنسز کا سلسلہ جاری رہا، جہاں ملی نغمے ’’سوہنی دھرتی، جیوے جیوے پاکستان‘‘ گاتی تھی۔

مجھ میں بچپن سے ہی کچھ کرنے اورکچھ بنے کا جذبہ تھا۔ سب لوگ یہ سب دیکھ کرحیران ہوجاتے تھے کہ ایک چھوٹی سی بچی میں اتنی غیرت ہے کہ وہ اپنے فن کے ذریعے ملک کانام روشن کرنے کاعزم رکھتی ہے۔ میں بچپن بہت ضدی توتھی ہی لیکن اپنے کام کوبہترکرنے کیلئے جدوجہد، ریاضت، محنت اورلگن کرنا بھی میری عادت تھی۔ جب میں نے بچپن میں موسیقی کے شعبے میں کام شروع کیا تویہ پتہ نہ تھا کہ ’صدارتی ایوارڈ‘ بھی ہوتا ہے اور دیگراعزازات بھی ہوتے ہیں۔

کیونکہ میں عمرکے اس حصے میں تھی جہاں ان سب باتوں کے بارے میں سوچنے کاکبھی خیال نہیں آیا مگرایک بات میرے زہن میں ہمیشہ سے تھی کہ مجھے موسیقی کے میدان میں وہ کامیاب اننگز کھیلنی ہے جس کولوگ ہمیشہ یادرکھیں۔ میں اپنی پرفارمنس مختلف پروگراموں، میوزک کنسرٹ میں دیتی رہی اورمجھے ایوارڈزملنے لگے۔ جس سے مجھے ان کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا۔ مجھے جیسے ہی کوئی ایوارڈ ملتا تومیں یہ عہد کرلیتی کہ اب مجھے مزید محنت کرنی ہے اور اس سے بھی بڑا ایوارڈیااعزاز حاصل کرنا ہے۔

جب مجھے فلموں میں اداکاری کی آفرہوئی اوراداکاری کا موقع ملا تواس وقت میری عمرخاصی کم تھی۔ یہ ایک الگ سی دنیا تھی جہاں اپنی پہچان بنانا مشکل تھا مگرمحنت کا جوجذبہ مجھ میں موجود تھا اس نے کبھی مایوس ہونے نہیں دیا۔ میں نے فلموں میں اداکاری کے دوران ’بولان ایوارڈ‘ سمیت کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ اسی طرح ماڈلنگ کے شعبے سے بھی وابستہ رہی۔ ٹی وی کمرشلز کئے اوریہ سلسلہ جاری رہا۔ فنون لطیفہ کے مختلف شعبوںمیں بھرپورکام کیا اورپھرشادی ہونے پرمیں نے کچھ عرصہ کیلئے شوبزکوخیرباد کہہ دیا۔

حالانکہ میرے شوہراورسسرال والوں کی جانب سے کسی قسم کی پابندی نہیں تھی لیکن میں نے اپنی نئی زندگی کوبھرپورانداز سے گزارنے کیلئے اپنی تمام توجہ گھراوراپنی فیملی پرمرکوزرکھی۔ مگرقسمت کو کچھ اورہی منظورتھا اس لئے اپنی فیملی کی سپورٹ پرمیں نے کچھ برسوں بعد دوبارہ فن موسیقی میں قدم رکھ دیا۔ یہ میرے لئے بہت مشکل تھا لیکن میں نے اس کوچیلنج سمجھ کرلیا اورخوب ریاضت کی۔ ’’ریاضت کا سلسلہ توخیرایسا ہے کہ مرتے دم تک جاری رہے گا‘‘۔

یہاں میں موسیقی کے شعبے میں ایک ایسے موڑکا تذکرہ کرنے جارہی ہوں جس نے مجھے آگے بڑھنے اورایک منفرد نام ، پہچان بنانے کی لگن دی۔ ایک مرتبہ سرکاری ٹی وی کے ایک پروڈیوسر نے مجھ سے رابطہ کیااورمجھے بتایاکہ ایک ایسا پروگرام ہونے جارہا ہے جس میں اداکاری اورگلوکاری میں مقابلہ ہوگا، کیا آپ اس میں حصہ لینا چاہیں گی ؟ میں نے گلوکاری کے مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اورپروڈیوسرکوبھی اس سے آگاہ کردیا۔ اس مقابلے میں ججزکے فرائض ہمارے ملک کے معرو ف فنکارانجام دے رہے تھے جن میں معروف غزل گائیکہ اقبال بانو مرحومہ، فریدہ خانم اورستارنواز استاد رئیس خاں تھے۔ یہ پروگرام ملکہ ترنم نورجہاں کی زندگی میں ان کوٹریبیوٹ تھا۔

جومیرے لئے استادوں کادرجہ رکھتی تھیں۔ ان عظیم فنکاروںکے سامنے پرفارم کرنے کاموقع ملا۔ اس موقع پرمیرے علاوہ دس پروفیشنل سنگربھی تھیں۔ جو عرصہ دراز سے فن موسیقی سے وابستہ تھیں۔ اس مقابلے کا نتیجہ سامنے آیا تو مجھے سوفیصد نمبر ملے۔ جونہی میرا نام پکاراگیا تومیں پہلے حیران ہوگئی اور پھرخوشی سے میری چیخ نکل گئی۔ اس موقع پرمیں نے گیت ’’سب جگ سوئے ہم جاگیں تاروںسے کریں باتیں‘‘ سنایا۔ یہ گیت میرے نام کے ساتھ ایسا جڑا کہ اب جہاں بھی جاؤں یہ گیت توسنے بغیر چاہنے والے سٹیج سے اترنے کی اجازت نہیں دیتے۔ موسیقی مقابلے کا نتیجہ توبہت اچھا تھا لیکن ان عظیم فنکاروں کی جانب سے میری گائیکی کو لے کرجوآراء سامنے آئی وہ میرے لئے بہت بڑااعزاز ہے۔

ایوارڈ اوراعزاز تومل جاتے ہیں لیکن میراایک نیا امتحان شروع ہوچکا تھا۔ گانا میرا شوق تھا اور اس کیلئے میں نے اپنے استاد کی رہنمائی میں ریاضت شروع کی۔ پروگراموں، میوزک کنسرٹس میں پرفارمنس کا سلسلہ جاری تھا مگر ایک خاص بات جومجھے دوسروں سے الگ کرتی تھی وہ یہ تھی کہ لوگوں کوجہاں میرا گانا پسند تھا وہیں میری پرفارمنس سے بھی لطف اندوزہوتے تھے۔ میں نے میوزک کے ساتھ ساتھ پرفارمنس کے بہت سے نئے اندازمتعارف کروائے جن کوبعدمیں دوسری گلوکاراؤں نے اپنانے کی کوشش کی مگرخاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی۔

میراماننا ہے کہ اصل ، اصل ہوتا ہے اورنقل، نقل ہی رہتی ہے۔ اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کی جانب سے مجھے بہترین گلوکارہ کے طورپر’نیشنل ایوارڈ‘ ملا۔ اس ایوارڈکے بعد میری جدوجہد کا نیاسلسلسہ شروع ہوگیا۔ امریکہ میں بالی وڈمیوزک ایوارڈزکی تقریب میں پرفارمنس کیلئے مجھے خصوصی طورپرمدعو کیا گیا۔ جہاں میری پرفارمنس کوبہت سراہا گیا ۔ اس موقع پربالی وڈ کے معروف اداکاروں کے ساتھ میوزک کی دنیا کے بڑے نام بھی موجود تھے۔ بالی وڈ ایوارڈز کی رنگارنگ تقریب میں مجھے ’’میلوڈی کوئین آف ایشیا‘‘ کے ایوارڈسے نوازا گیا۔ یہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات اس لئے بھی تھی کہ دیارغیر میں میری عمدہ پرفارمنس کی بدولت سے جب مجھے عزت دی جارہی تھی تومیرے نام سے پہلے پاکستان کانام پکاراگیا ۔ یہ وہ لمحات ہیں جب میرا سرفخرسے بلند ہوگیا تھا۔

شاہدہ منی نے مزیدگفتگوکرتے ہوئے کیا کہ کامیابی توہراس شخص کوملتی ہے جو محنت، لگن سے کام کرتا ہے مگراس کامیابی کے بعدنئی راہیں تلاش کرنا بھی میرا مشن تھا۔ گلوکاری، اداکاری، ماڈلنگ اورمیزبانی کے شعبے میں کام کرتی رہی۔ جدوجہد جاری تھی اورمجھے یہ یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے کوئی ایسی کامیابی ملے گی جس کوپانے کی آس میں لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں مگروہ اس تک نہیں پہنچ پاتے۔

14اگست 2012ء کوجب مجھے ایک فون آیا اورمبارکباددیتے ہوئے ایک قریبی دوست نے مجھے اطلاع دی کہ میرانام صدارتی ایوارڈ کیلئے منتخب ہوگیا ہے توخوشی کاکوئی ٹھکانا نہ تھا۔ میری آنکھیں نم تھیں اورمیں خدا کے حضورسجدہ ریزہوگئی۔ یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ میری پوری فیملی بہت خوش تھی۔ میںاپنی فیملی میں واحد ہوں جس کی صلاحیتوںکا اعتراف حکومت پاکستان کی جانب سے کیا گیا اوراتنے بڑے ایوارڈاوراعزازسے نوازا گیا۔

انٹرویوکے آخرمیں شاہدہ منی کا کہنا تھا کہ میراحسد کرنیو الے لوگوں کومشورہ ہے کہ وہ دوسروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے اگرخود محنت کریں تووہ بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بلاوجہ کسی سے حسد کرنا درست نہیں۔ کامیابی انہی لوگوں کوملتی ہے جودیانتداری سے کام کرتے ہیں۔ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں اورملک کانام روشن کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔