انتخابات کی شفافیت: ایک سوال

مقتدا منصور  جمعرات 28 جون 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، اگلے عام انتخابات میں صرف 28 روز رہ گئے ہوں گے، مگر لوگ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ابھی تک تشکیک کا شکار ہیں۔ ہر محفل، ہر تقریب حتیٰ کہ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں جانا ہو تو ان کے عملہ کی زبان پر بھی ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ آیا انتخابات ہوسکیں گے؟ کیا شفاف ہوں گے؟ ان لوگوں کو کیا جواب دیا جائے، کیونکہ اس حوالے سے ملک کا متوشش طبقہ، اہل دانش اور تجزیہ نگار سبھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ بہرحال انتخابات کے انعقاد کے بارے میں تو شکوک کی دھند رفتہ رفتہ چھٹ رہی ہے، البتہ ان کی شفافیت کے بارے میں تشکیک میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

معروف سماجی کارکن اور کراچی سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدوار جبران ناصر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کئی کالعدم تنظیموں کے رہنما اور کارکنان کہیں آزاد اور کہیں نئی تنظیموںکے نام پر انتخابی عمل میں شریک ہیں۔ جب کہ بے شمار امیدواروں پر مختلف نوعیت کے فوجداری اور دیوانی مقدمات چل رہے ہیں۔ کچھ جماعتوں کو بغیر مناسب عدالتی کارروائی جبراً انتخابی عمل سے دور رکھا جارہا ہے۔ کچھ جماعتوں کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈا کرکے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ اقدامات قبل از انتخابات (Pre-poll) دھاندلی ہیں، جو انتخابات کی غیر جانبداری اور شفافیت پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔

وطن عزیز میں اکہتر برسوں کے دوران مختلف نوعیت کے تجربات کیے گئے ہیں۔ لیکن کوئی بھی تجربہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا۔ ابتدائی گیارہ برسوں کے دوران سول بیوروکریسی کے ذریعے متوازی حکومت چلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سلسلہ جلد ناکامی سے دوچار ہوگیا۔ پھر تقریباً گیارہ برس ایوب خان نے صدارتی نظام کا تجربہ کیا۔ یہ تجربہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔

بلکہ اس کا خاتمہ خود اس کے بانی (ایوب خان) نے اپنے ہاتھوں کیا۔ اس کے بعد ملک دولخت ہوگیا۔ مسٹر بھٹو کی حکومت کو جو ساڑھے چار برس ملے، انھیں کسی حد تک سول بااختیاریت کا دور کہہ سکتے ہیں۔ بھٹو مرحوم کی آخری تصنیف “If I am assasinated” میں ان کے رفیع رضا کے ساتھ مکالمہ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دور میں بھی متوازی سیٹ اپ چلایا جارہا تھا۔ محترمہ کو کن شرائط پر حکومت ملی تھی، اب ہر شخص ان شرائط سے واقف ہے۔ نواز شریف کو کن بنیادوں پر اقتدار میں لایا گیا تھا اور کن وجوہات کی بنیاد پر نکالا گیا، یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

درج بالا اقدامات اس بات کے غماز ہیں کہ طاقتور حلقے سیاسی عمل کو اس قدر مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتے کہ منصوبہ سازی میں ان کی بااختیاریت ختم یا کم ہوجائے۔ اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ آئین اور پارلیمانی جمہوریت بظاہر چلتی نظر آئے۔ مگر وزیراعظم بحیثیت چیف ایگزیکٹو بااختیار نہ ہونے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار جب بھی منتخب حکومت قائم ہوتی ہے، پس آئینہ قوتوں کی سرِآئینہ سیاسی قوتوں کے ساتھ رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے۔

اس سلسلے میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی کا کہنا ہے کہ ملک کی تاریخ میں دو مرتبہ عوام نے اپنی تحریکی طاقت سے آمروں کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ 1968 کی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان 1969 میں استعفیٰ دینے پر مجبور ضرور ہوئے۔ مگر انھوں نے اپنے بنائے آئین کی رو سے اسپیکر قومی اسمبلی (عبدالجبار خان) کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے ایک اور مارشل لا لگادیا۔ جب کہ 2008 میں عوام کی سیاسی قوت کے دباؤ میں آکر دوسرا آمر انتخابات کرانے اور پھر کرسی صدارت چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ درمیان میں 1988 آتی ہے، جب ضیاالحق کی اچانک موت نے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچادی اور نئے سالار مرزا اسلم بیگ کے لیے نئے انتخابات کے بعد اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ 1988 سے 1999 کے دوران کوشش کی گئی کہ سیاسی حکومتوں کو بیوروکریٹ صدر (غلام اسحاق خان مرحوم) کے ذریعے ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا کے طرز پر کنٹرول کیا جائے۔ لیکن میاں نواز شریف نے بی بی کے تعاون سے 1998 میں جب جنرل ضیا کی متعارف کردہ آئینی شق 58 (2)B ختم کردی تو طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ایک ہی آپشن رہ گیا کہ انھیں اقتدار سے الگ کردیا جائے۔ میاں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات اپنی جگہ، مگر انھیں اقتدار سے تینوں بار صرف اس لیے علیحدہ کیا گیا، کیونکہ انھوں نے ریاستی پالیسی سازی کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔

اب تک ہم نے جمہوری عمل کا راستہ روکنے میں اسٹبلشمنٹ کے کردار پر گفتگو کی ہے۔ لیکن جمہوری عمل کے تسلسل میں کچھ دیگر عوامل بھی رکاوٹ بن رہے ہیں، جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اول، معاشرتی ڈھانچہ کا قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری کلچر کی زنجیروںمیں جکڑا ہونا۔ جس کا فائدہ نام نہاد Electables اٹھاتے ہیں۔ دوئم، خواندگی کی شرح میں تشویشناک حد تک کمی کی وجہ سے لوگ اپنے حقوق اور فرائض کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ووٹ کی اہمیت اور تقدیس سے آگاہ نہیں ہیں۔ سوئم، سیاسی حکومتوں اور مختلف ریاستی اداروں کے درمیان مسلسل رسہ کشی اور دو متوازی حکومتوں کا ایک ساتھ چلنا۔ جس نے پورے ریاستی ڈھانچے کو زمیں بوس کردیا ہے۔ چہارم، حقیقی نمایندہ سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کے سبب سیاست پر فیوڈل ذہنیت کے مراعات یافتہ طبقات کا حاوی ہونا۔ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے چند گھرانے سیاسی اور غیر سیاسی دونوں ادوار میں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔

درج بالا چار عوامل کی وجہ سے جو دیگر مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ بھی جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں: (1 احتساب اور شفافیت کے واضح میکنزم کا نہ ہونا۔ (2 جس کے نتیجے میں ہر شعبہ میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا ہر سطح تک پھیلنا۔ (3 سماجی تنظیموں کا کمزور ہونا۔ (4 ذرایع ابلاغ کا بظاہر مستعد نظر آنا، مگر حقیقت میں آزادی اظہار کے مروجہ اصولوں سے عدم واقفیت کے باعث غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار یا ان کے موقف کو پھیلانے کا ذریعہ بن جانا۔ (5  نچلی سطح پر عوام کو فوری انصاف کی فراہمی میں مسلسل ناکامی ایک اہم عنصر ہے۔ ان عوامل اور ریاست کی غلط پالیسیوں کے سبب مذہبی شدت پسندی، متشدد فرقہ واریت اور لسانی و قومیتی تفاوت نے جنم لیا ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ریاست کی پالیسی سازی کا واحد بااختیار ادارہ پارلیمان ہے۔ کسی ریاستی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ماورائے آئین فیصلے اور اقدامات اور سیاسی عمل میں مداخلت کرے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت فکری و نظریاتی کثرتیت اور تنوع سے مشروط ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک جمہوری معاشرہ اپنی سرشت میں ہمہ دینی ہوتا ہے۔

اگر کسی معاشرے میں مختلف عقائد اور نظریات کی حامل کمیونٹیاں (خواہ جواز کچھ ہی کیوں نہ ہو) غیر محفوظ ہیں، تو اس معاشرے کا جمہوری ہونا مشکوک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح نسلی، لسانی اور ثقافتی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا جمہوری حکومت کی اولین ذمے داری تصور کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں آنے والے انتخابات کا جائزہ لیں، تو ایسی صورتحال میں جب کچھ جماعتوں کو بغیر کسی آئینی وقانونی جواز جبراً انتخابی عمل سے دور رکھا جارہا ہو۔ کچھ جماعتوں کی میڈیا ٹرائل کے ذریعے کردارکشی کی جارہی ہو، جب کہ کالعدم تنظیموں اور مذہبی شدت پسند عناصر کو (جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے) انتخابی عمل میں حصہ لینے کی کھلی اجازت ہو، تو الیکشن کی شفافیت پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔