بھارت مخالف عالمی لٹریچر: ہم فائدہ نہ اُٹھا سکے

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 29 جون 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یوں لگتا ہے جیسے بھارتی میڈیا کے مقابلے میں ہمارا میڈیا پسپا اور پچھڑا ہُوا ہے۔ہمارے جتنے بھی لوگ اور ادارے بھارتی میڈیا اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان مخالف مہمات پر نظر رکھتے ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ جونہی عالمی میڈیا میں کوئی ایسی خبر، آرٹیکل اور کتاب کا ذکر سامنے آتا ہے جس میں پاکستان مخالف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی کیا گیا ہو، بھارتی میڈیا اسے لے اُڑتا ہے۔ حوالہ دے کر خاص نہج میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اور طومار اُٹھایا جاتا ہے۔

پاکستان کے خلاف بھارتی اخبارات میں مسلسل آرٹیکلز لکھے جاتے ہیں۔ تجزئیے شایع ہوتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے ٹاک شوز میں دانستہ، ٹارگٹ کر کے، پاکستان دشمنی میں گرد اُڑانے کی نفرت آگیں کوششیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ’’اخباری لیکس‘‘ کا غلغلہ اُٹھے یا نواز شریف صاحب کے ممبئی حملوں کے حوالے سے الزاماتی انٹرویو کی خبر سامنے آئے یا لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی کی(بھارتی اے ایس دُلت کے ساتھ مل کر لکھی گئی) کتاب کے مندرجات ہوں، بھارتیوں نے اِنہیں بانس پر چڑھا کر پاکستان مخالف خوب خوب پروپیگنڈے کیے۔

اپنے تئیں ’’عالمی مفادات‘‘ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی اور یہ بھی سوچا ہو گا کہ انھوں نے بین الاقوامی سطح پرپاکستان کی بھَد بھی اُڑا دی ہے۔ اِس امر کا تحقیقی جائزہ لینا مگر ابھی باقی ہے کہ پاکستان مخالف اِن سب بھارتی پروپیگنڈوں سے پاکستان کو کتنا اور کہاں تک نقصان پہنچتا ہے لیکن پاکستان کو نقصان پہنچانے کی بھارتی مساعی میں کمی نہیں آتی۔پاکستان دشمنی میںبھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مسلسل بگٹٹ بھاگ رہا ہے۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ بھارتیوں کے مقابلے میں ہم پاکستانی اخبار نویس، کالم نگار، تجزیہ کار اور اینکر پرسنز بھارت مخالف عالمی لٹریچر سے مستفید ہو سکے ہیں نہ بھارتی کمزوریوں کو مطلوبہ سطح تک عیاں کر سکے ہیں اور نہ ہی سمعی و بصری میدانوں میں ہم اپنے عوام کو پوری طرح آگاہ کر سکے ہیں کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ و بھارتی میڈیا مل کر ہمیں کن کن میدانوں میں،کس کس طرح گزند پہنچانے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ عالمی لٹریچر میں شایع ہونے والا بھارت مخالف یہ سارا مواد انگریزی کتابوں میں موجود ہے۔

شومئی قسمت سے ہمارے ہاں مطالعہ کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ جو لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں، وہ بھی اِلّا ماشاء اللہ نئی کتابوں کو ہاتھ لگانے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ پھر پاکستان مخالف اُٹھنے والی بھارتی آوازوں کا جواب کہاں سے اور کیسے آئے گا؟

ایک عشرہ قبل ممبئی حملے ہی کی مثال لے لیجئے۔اِس حملے میں مبینہ طور پر168لوگ ہلاک اورتین سو کے قریب شدید زخمی ہُوئے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے دعویٰ کیا کہ یہ کیا دھرا پاکستان کا تھا۔ بھارت اب تک یہی دعوے کررہا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مالی تعاون اور اشارے پر اِسی حملے کے پس منظر میں بالی وُڈ نے پاکستان مخالف فلمیں بنائیں اور اِنہیں دنیا بھر میں نشر کیا گیا( مثال کے طور پر ہدایت کار رام گوپال ورما کی The  Attacks  of  26/11کے نام سے بنائی گئی فلم جس میں نانا پاٹیکر نے مرکزی کردار ادا کیا) انگریزی زبان میں خصوصی طور پر بنائی گئی۔

اِس فلم کا مقصد ہی یہ تھا کہ مغربی دنیا کی حکومتوں اور عوام تک پاکستان کے خلاف پیغام پہنچایا جائے کہ ممبئی حملے کا ذمے دار پاکستان تھا۔ ہم سب کی مگر بدقسمتی دیکھئے کہ عالمی میڈیا اور بین الاقوامی لٹریچر میں ہر وہ آرٹیکل اور کتاب ہمارے میڈیا اور عوام کی  توجہ کا خاص مرکز نہ بن سکی جس میں مغربی اہلِ دانش نے تحقیق اور تفتیش کی اساس پر ثابت کیا کہ ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث نہیں تھا بلکہ یہ سارا کیا دھرا بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ اُن کی ملی بھگت اور پاکستان مخالف باہمی تعاون کا نتیجہ۔ مثال کے طور پر ممتاز اور مشہور برطانوی دانشور، سیاستدان اور مدبّر،ایلیز ڈیوڈ سن،کی تہلکہ خیز کتاب THE  BETRAYAL  OF  INDIA  :Revisiting  the  26/11  Evidenceجو 900سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔

مذکورہ برطانوی مصنف نے مستند ذرایع اور غیر متعصبانہ تحقیق کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ ممبئی حملے میں انڈین انٹیلی جنس ایجنسیاں پوری طرح ملوث تھیں۔ مقصد فقط یہ تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے ’’دہشتگرد ریاست‘‘ ثابت کرنا ہے۔اِس کتاب نے عالمی سطح پر بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان دشمنی میں بھارت کہاں تک جا سکتا ہے۔

اِس کتاب نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کو سخت ناراض کر رکھا ہے۔ ایک مبصر کا کہنا ہے کہ ایلیز ڈیوڈسن نے اپنے نشترِ تحقیق سے بھارتی چہرے پر پڑے گھناؤنے نقاب کو یوں نوچ ڈالا ہے جیسے کیلے کا چھلکا اُتار پھینکا جائے۔مصنف نے یہ اشارے بھی کیے ہیں کہ اِس مہلک ڈرامے کی تیاری، ہدایت کاری اور پیشکاری میں امریکا اور اسرائیل کے تعاون بھی شامل تھے۔

خونریز حملے کے بعد بھارتی میڈیا، خفیہ ادارے’’را‘‘، بھارتی عدلیہ، بھارتی سیاسی اشرافیہ اور ممبئی کے سینئر پولیس افسروں نے اصل مجرموں کے چہرے چھپانے کے لیے متحداور متفق ہو کر کردار تو ادا کیا لیکن اُن کے چہرے چھُپ نہیں سکے ہیں۔مصنف نے کتاب میں جو تکنیکی اور قانونی نکتے اُٹھائے ہیں، بھارتیوں کے پاس اِن کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اِسی لیے اُن کے پیٹ میں سخت مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومتِ پاکستان، ہمارے ذمے دار ادارے اور ہمارا میڈیا اِس کتاب کے مندرجات کی بنیاد پر پاکستان مخالف بھارتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیتا لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔

اِس کے برعکس اگر پاکستان مخالف کسی مغربی مصنف کی تحریر کردہ ایسی کوئی کتاب سامنے آتی تو بھارتی میڈیا مشین اب تک اِس پر پاکستان دشمنی میں درجنوں پروگرام نشر کر چکی ہوتی۔ افسوس، ہم ایلیزڈیوڈسن کی کتاب سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کر سکے۔ حتیٰ کہ 20جون 2018ء کو برطانوی دارالحکومت میں LISA (لنڈن انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا) ایسے اہم تھنک ٹینک میں اِسی کتاب کے بارے میں ایک اہم کانفرنس ہُوئی ہے۔ اِس میں 100 سے زائد اہم اور موثر اہلِ فکر و دانش نے شرکت کی۔ لارڈ نذیر احمد صاحب اور برطانوی دارالعوام کے رکن فیصل رشید بھی اِس میں شریک تھے۔ تقریباً سبھی نے مذکورہ  شاندار کتاب کے انکشافات کی روشنی میں، ممبئی حملوں کے پس منظر میں، بھارتی کردار کی شدید مذمت کی ہے۔ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ ہمارے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اِس اہم مکالمے کی ایک جھلک تک نہیں دکھائی گئی۔

ہم شاید پاکستان و مقبوضہ کشمیر کے خلاف بھارتی منفی پرپیگنڈے اور بھارتی زیادتیوں کا جواب دینا ہی نہیں چاہتے۔ ابھی دو ہفتے قبل مقبوضہ کشمیر میں نامور مسلمان اخبار نویس، شجاعت بخاری، کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا لیکن ہمارے میڈیا میں عمومی خاموشی ہی چھائی رہی۔ اِس سے قبل مشہور بھارتی خاتون صحافی، گوری لنکیش، کو (کرناٹک میں) ہندو تشدد پسند مذہبی سیاستدانوں نے قتل کروا دیا تھا لیکن بھارت میں آزادیِ اظہار کے اِس قتل پر بھی ہم خاموش ہی رہے۔ کیا اِسے بے حسی سے معنون کیا جائے؟

ابھی حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے ممتاز سیاسی رہنما، سیف الدین سوز، نے ایک کتاب Kashmir : Glimpses  of  History   کے عنوان سے لکھی ہے۔ سوز صاحب نے صاف اور غیر مبہم الفاظ میں لکھا ہے کہ کشمیری بھارت سے بس آزادی کے خواہاں ہیں۔ بھارتیوں کو اِس کتاب سے کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے، اِس کا اندازہ مشہور بھارتی صحافی (سوہاسنی حیدر)  کے اُس انٹرویو سے لگایا جا سکتا ہے جو 23جون2018ء کو روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ میں شایع ہُوا ہے۔

بھارتی مقتدر پارٹی، بی جے پی، کے ایک مرکزی رہنما کو تو اِس کتاب سے اتنی ’’اذیت‘‘ پہنچی ہے کہ انھوں نے کہہ ڈالا ہے کہ ’’مسٹر سوز کے لیے پاکستان کا یکطرفہ ٹکٹ کٹوائیں اور ہمیشہ کے لیے وہاں بھیج دیں۔‘‘ چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارا میڈیا، ہمارے سیاستدان اور ہمارے حکمران سوز صاحب کی کتاب سے فائدے اٹھاتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ تقریباً ڈھائی ہفتے قبل اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (UNHCHR) نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی داد رسی میں جو پہلی مجوزہ رپورٹ شایع کی ہے، ہم تو اسے بھی ایکسپلائٹ نہیں کر سکے ہیں۔

انچاس صفحات پر پھیلی اِس رپورٹ میں 20 صفحات ایسے ہیں جن میں اقوامِ متحدہ کے مذکورہ ذمے دار نے اعتراف کیا ہے کہ کشمیریوں پر بھارت ہر قسم کے مظالم ڈھا تے ہُوئے انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے؛ چنانچہ وسیع تر پیمانے پر اِن کی تحقیق ہونی چاہیے۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان جس طرح مقبوضہ کشمیر سے سماجی، تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی رشتوں سے منسلک ہیں، اِن کا تقاضا تھا کہ UNHCHR کی جاری کردہ اِس رپورٹ سے ہم  بھرپور استفادہ کرتے لیکن یہاں بھی غفلت سے کام لیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔