قبولیت ِدعا کے مواقع

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 29 جون 2018
جب کسی مسلمان پر مصائب و مشکلات نازل ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی وہ اﷲ کے کرم کے سایے میں ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

جب کسی مسلمان پر مصائب و مشکلات نازل ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی وہ اﷲ کے کرم کے سایے میں ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان کی اور آخرت کو جزا و سزا کی جگہ بنایا ہے، یہاں آزمائش کے لیے خوشیاں بھی عطا کی ہیں کہ کون ان کو میری نعمت اور احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے اور غم بھی پیدا فرمائے ہیں کہ کون ان کو اپنی غلطی سمجھ کر میری طرف رجوع کرتا ہے؟

انسان کو دنیا میں یہ دونوں چیزیں نصیب ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ صرف اس کو غم ہی یاد رہتے ہیں، پریشانی کے آزمائشی لمحات میں اپنے رب سے گلے شکوے، شکایتیں اور ناشکری ہی کرتا ہے، اس ذات کی طرف سے ملنے والی خوشیوں اور نعمتوں کو سرے سے بھلا دیتا ہے، بل کہ ان کو اللہ کا محض فضل، احسان اور کرم سمجھنے کے بہ جائے اپنا کمال سمجھتا ہے۔ کاش! ہمیں اپنی ان دونوں غلطیوں کا احساس ہوسکے، خوشیوں کو اس کی عطا سمجھیں اور شکر ادا کریں، مصائب اور پریشانیوں کو بھی اللہ کا انعام سمجھیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کو دنیاوی آزمائشوں میں مبتلا کرتے ہیں تو اس کی دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازتے ہیں، یہ اس ذات کا کرم، بے پناہ کرم اور محض کرم ہی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دل میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ہم اللہ کی مخلوق، اس پر ایمان لانے اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ وہ ذات ہم سے پیار کرتی ہے، دنیا میں خوشیاں عطا کرکے آخرت کی حقیقی خوشیوں کا احساس دلاتی ہے کہ دیکھو دنیا کی خوشیاں عارضی ہیں، ان کے ختم ہونے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے، چھن جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہے، جب کہ آخرت کی خوشیاں مستقل ہیں، ان کے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کوئی چھین نہیں سکتا ہے۔ اسی طرح وہ ذات دنیاوی پریشانیاں دے کر آخرت کی حقیقی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے کہ دیکھو تم دنیا کی پریشانیوں کو جو وقتی اور عارضی ہیں ان کو برداشت نہیں کرسکتے تو آخرت کی لمبی پریشانیاں کیسے برداشت کرسکو گے؟

اللہ تعالیٰ ہمیں غفلت سے دور کرنے کے لیے تنبیہ کے طور پر چند پریشانیوں سے دوچار کرتے ہیں تاکہ یہ بندے آخرت کی بڑی اور لمبی پریشانیوں سے بچنے کی وہ تدابیر اختیار کرسکیں جو میرے احکامات اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں موجود ہیں، بل کہ قرآن و سنت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عین اس وقت بھی جب کسی مسلمان پر مصائب و مشکلات نازل ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی وہ اللہ کے کرم کے سایے میں ہوتا ہے اگر وہ کسی گناہ کی وجہ سے اس پر نازل ہو رہی ہیں تو سنبھلنے کا موقع مل رہا ہوتا ہے، بل کہ اس شخص کو اس وقت اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی نعمت عطا فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعا کو قبول فرماتے ہیں۔ ذیل میں ہم چند ایسے اشخاص کا تذکرہ کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کسی پریشانی سے دوچار کر کے ان کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا فرماتے ہیں۔

بے بس کی دعا :

انسان کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ وہ بالکل بے بس ہوجاتا ہے، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ کریم اس کی دعا کو قبول فرماتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جس وقت خدا انسان کو نوازنا چاہتا ہے عین اسی وقت یہ اس ذات کے گلے شکوے شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے وقت کو خدا کی ناشکری میں ضایع کرنے کے بہ جائے دعائیں مانگنے میں خرچ کیا جائے ۔

قرآن کریم میں ہے : ترجمہ: (بھلا اللہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے جو) بے کس و بے بس انسان کی دعا کو قبول اور اس سے حالات کی سختی کو دور فرماتا ہے۔ ( النمل )

مریض کی دعا:

انسان کی زندگی میں کبھی صحت غالب رہتی ہے اور کبھی مرض غلبہ پا لیتا ہے لیکن اللہ کا کرم دیکھیے کہ جب انسان کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے مرض اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندی درجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ لیکن افسوس اس موقع پر بھی انسان اپنے اللہ کو بھول جاتا ہے اور جس زبان کو دعا و مناجات کی عطر بیزیوں سے مہکنا چاہیے تھا وہی زبان ناشکری کی گندگی میں ملوث ہوجاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ سے صحت کی دعا مانگنی چاہیے لیکن اگر مرض آ بھی جائے تو اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ ایسے انسان کی دعا اللہ جلد قبول فرماتے ہیں۔ علاج کے ساتھ دعاؤں کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مریض جب تک حالت مرض میں رہتا ہے تو اس کی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع و الامراض)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مریضوں کی عیادت کیا کرو اور ان سے اپنے لیے دعا کی درخواست کیا کرو کیوں کہ مریض کی دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘

( الدعاء للطبرانی، باب ماجاء فی دعاء المریض لعوادہ)

اس سے معلوم ہوا کہ مریض کو اپنے لیے بھی دعا کرنی چاہیے اور عیادت کے لیے آنے والوں کو بھی مریض سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔

مسافر کی دعا :

انسان کا جسم راحت کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن حالت سفر میں اسے صعوبت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اللہ کریم کا کرم دیکھیے کہ انسان پر سفر کی ہلکی سے پریشانی آتی ہے تو اللہ اس پر اپنا کرم یہ فرماتے ہیں کہ اس کی دعا کو جلد قبول فرما لیتے ہیں۔ ہم لوگ آئے دن سفر کرتے ہیں، افسوس کہ سفر میں غیر شرعی کاموں میں لگے رہتے ہیں: فلمیں، ڈرامے، گانے باجے دیکھنا اور سننا، موبائل سے کھیلتے رہنا، فضول قسم کی باتوں میں لگے رہنا بالخصوص خواتین جب سفر کرتی ہیں تو دوسروں کے گلے شکوے کرتی رہتی ہیں حالاں کہ یہ وقت اللہ سے مانگنے کا ہوتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین دعائیں قبول ہوتی ہیں (ان میں سے ایک) مسافر کی دعا ہے۔‘‘ (جامع الترمذی)

باپ کی دعا:

اولاد اللہ کی نعمت ہے، اللہ جسے یہ نعمت عطا فرماتا ہے تو اس کی ذمے داریاں بھی بڑھا دیتا ہے، اولاد کی پرورش، رہائش، خوراک، تعلیم، تربیت اخلاق، ادب و احترام اور دینی احکامات پر عمل کی پابندی کرانا یہ والدین پر اولاد کے بنیادی حقوق ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان حقوق کی ادائی میں بسا اوقات انسان کو پریشانیاں بھی لاحق ہوتی ہیں، ایسے وقت میں ایک باپ کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ لیکن اللہ کریم کا کرم دیکھیے اولاد کی نعمت بھی عطا فرماتے ہیں ان کے حقوق کی ادائی کے لیے کوئی پریشانی لاحق ہو تو اللہ تعالی اولاد کے حق میں دعا کو جلد قبول فرماتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین طرح کے لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتی (ان میں سے ایک) والد کی دعا اپنی اولاد کے لیے۔‘‘

(جامع الترمذی، باب ما ذکر فی دعوۃ المسافر)

انصاف کرنے والے حاکم کی دعا:

جس کو کسی قوم پر حاکم بنا دیا جائے، تو اس قوم کو انصاف فراہم کرنا حاکم کے ذمے ہوتا ہے۔ معاشرے میں جرائم کی کثرت اور مجرموں کا طاقتور ہونا ایک زمینی حقیقت ہے، ایسے میں انصاف کی فراہمی سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلے سے گزارتا ہے تو اس کو دنیا میں یہ انعام عطا فرماتا ہے کہ ایسے شخص کی دعا کو جلد قبول فرماتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین طرح کے لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتی (ان میں سے ایک) امام عادل کی دعا ہے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ )

ذکر کرنے والے کی دعا:

اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بے پناہ فضائل و مناقب اور اس کے فوائد و ثمرات ہیں۔ ایسا شخص جو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی دعا بھی اللہ جلد قبول فرماتے ہیں، یہ مستجاب الدعوات بننے کا نسخہ اکسیر ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین لوگوں کی دعا اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے (ان میں سے ایک) کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے والے کی دعا بھی ہے۔‘‘ (الدعاء للطبرانی، باب دعاء المظلوم)

غازی، حاجی اور عمرہ کرنے والے کی دعا:

میدان کارزار میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جذبہ سرفروشی کے ساتھ سر بہ کف سپاہی مشکل حالات کا سامنا کر رہا ہوتا ہے، ان مشکلات پر اللہ تعالیٰ یہ انعام عطا فرماتے ہیں کہ اللہ ایسے شخص کی دعا کو قبول فرماتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرماتے ہیں کہ ان کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ غازی فی سبیل اللہ، حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ان کو اللہ نے پکارا تو انہوں نے لبیک کہا وہ اللہ سے دعا مانگتے ہیں تو اللہ ان کو عطا فرماتے ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، باب فی فضل دعاء الحاج )

روزہ دار کی دعا :

روزے میں صبح صادق سے غروب آفتاب بھوک، پیاس اور جائز جنسی تعلقات سے رکنا ہوتا ہے اگرچہ یہ کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے صبح سحری میں بھی کھانا وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے اور شام کو افطاری میں بھی کھانے پینے کا حکم ہے۔ اس تھوڑے سے وقت میں اللہ کو راضی کرنے اور اس کا حکم ماننے کے لیے جو برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کھانے پینے کی تمام چیزیں سامنے رکھی ہوئی ہیں لیکن بندہ کچھ نہیں کھا رہا تو اس پر اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی یہ انعام عطا فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعا کو قبول فرماتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی (ان میں سے) ایک روزہ دار ہے یہاں تک کہ وہ افطار کر لے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ )

مسلمان بھائی کے لیے

عدم موجودی میں دعا:

کسی کے سامنے اس کی اچھائی بیان کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن اس میں کبھی دنیاوی اغراض و مقاصد کو دخل ہوتا ہے اور جو دعا اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودی میں کی جائے اس میں یہ شائبہ بھی نہیں ہوتا اس اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالی ایسے مسلمان کی دعا کو قبول فرماتے ہیں جو اپنے ایک مسلمان بھائی کے لیے اس کی عدم موجودی میں کرے۔

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی عدم موجودی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو ایک مقرر فرشتہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جو تُونے اپنے بھائی کے لیے مانگا ہے اللہ تجھے بھی وہی عطا کرے۔‘‘

(صحیح مسلم، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب)

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں دعا مانگنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔