انتخابی نتائج کی پیش گوئی

نصرت جاوید  بدھ 1 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

دُنیا کے ہر جمہوری ملک میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے سیاسی جماعتیں اور ان کے رہ نما لوگوں میں کوئی اُمید جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت میں اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد نیا انتخاب لڑتی سیاسی جماعت کو البتہ اپنے اقتدار والے دنوں کا حساب بھی دینا ہوتا ہے۔

اسی لیے تو پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں کافی مشکل میں گھری نظر آرہی ہے۔ کرپشن وغیرہ کے الزامات شاید اسے اتنا نقصان نہ پہنچاتے جو لوڈشیڈنگ کے اذیت ناک حد تک طویل گھنٹے پہنچا رہے ہیں۔ آبادی کے حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر شہباز شریف نے بھی ٹھوک بجاکر پانچ سالوں تک راج کیا۔ بجلی کی فراہمی مگر وفاقی حکومت کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے اور پاکستان مسلم لیگ نون اس امر کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے’’روشن پاکستان‘‘ بنانے کے نام پر ووٹ اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایک ’’نیا پاکستان‘‘بنانے کا خواب دکھاتے ہوئے عمران خان کو آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی باریوں اور شہباز شریف کے تھانوں اور پٹواریوں کا ذکر بھی کرنا پڑتاہے جو بہت سارے ووٹروں کو’’تبدیلی کے نشان‘‘ پر مہر لگانے کو اُکسا رہا ہے۔ نیا یا روشن پاکستان کے یہ نعرے بڑے خوش آیند ہیں۔

ایسے نعروں کی بدولت معاشرے ریاستی اور سیاسی معاملات سے اپنی عمومی لاتعلقی یا مایوسی سے بالاتر ہوکر متحرک ہوتے نظر آتے ہیں۔ عام لوگوں کے دلوں میں اُمید کے دئے جلتے ہیں اور وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے معاشروں کی بہتری کے لیے کوئی کردار ادا کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہاں تک میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب اس وقت ضرورت سے زیادہ ’’دانشورانہ‘‘ محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے جب میں انتخابی مہم کے ان دنوں میں جی ٹی روڈ یا موٹر وے سے اُتر کر کسی دور دراز قصبے یا دیہات میں جا پہنچتا ہوں۔

دور دراز قصبوں یا دیہاتوں میں بسے لوگوں سے انتخابات کی بات کریں تو وہ شاذ و نادر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت، اس کے منشور یا کسی بڑے لیڈر کی بات کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی موضوع ان کے حلقے میں کھڑے امیدوار ہوتے ہیں۔ وہ ان کے نام لے لے کر بڑی تفصیل سے ان کی اچھائیاں یا برائیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اپنے حلقے میں ممکنہ انتخابی نتائج کا ذکر کرتے ہوئے ان کی ساری توجہ برادریوں پر رہتی ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر میں تقریباً طے کیے بیٹھا تھا کہ فلاں فلاں امیدوار فلاں فلاں جماعت کے ٹکٹ حاصل کرلینے کے بعد اپنے اپنے حلقے میں بہت طاقت ور بن گیا ہے۔

لوگوں سے بات کرنے کے بعد مگر محسوس یہ ہوا کہ چونکہ میری دانست میں ’’کامیاب‘‘ ہوسکنے والے امیدوار کی برادری سے فلاں شخص اب ’’آزاد‘‘ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس لیے اسے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بہت سارے حلقوں میں لوگوں نے مجھے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح دو مختلف برادریوں کے امیدواروں نے آپس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ بانٹ کر ان کے علاقوں میں ابھی تک ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی کسی ایک برادری کے نمایاں سیاستدان کے لیے ’’اس بار جیتنا‘‘ مشکل بنادیا ہے۔

ہمارے اخباری تجزیوں میں ابھی تک یہ بات کھول کر نہیں سمجھائی جارہی کہ 1990ء کی دہائی سے بتدریج ہمارے ہاں سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ پیدا ہورہی ہے۔ وہ ان خاندانوں میں پیدا ہوئے تھے جنھیں ہمارے دیہی معاشرے میں ’’کمّی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ تھوڑا بہت علم یا ہنر حاصل کرلینے کے بعد یہ لوگ کسی نہ کسی طرح بیرون ملک چلے گئے اور وہاں انھوں نے بڑے کامیاب کاروباری ادارے بنائے اور پھر انھیںاپنے بچوں یا خاندان کے دیگر لوگوںکے سپرد کرنے کے بعد وطن واپس آگئے۔

یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں بڑے’’فیاض‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے انھوں نے پہلے مشرف اور بعدازاں دوسری حکمران جماعتوں کی چھتری تلے آن کر اسمبلیوں اور حکومت میں پہنچنا چاہا۔ جو کامیاب رہے اب میدان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اب انھیں کسی بھی جماعت کا ٹکٹ نہ ملے تو ’’آزاد‘‘ کھڑے ہوکر اپنے ازلی رقیبوں کے امکانات کو محدود تر ضرور کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ 2013ء کے انتخابات میں کون کون سے حلقے میں کس جماعت کے امیدوار کی پریشانی کا باعث بن رہے ہیں اس کا ذکر بھی انتخابی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے والے مضامین یا ٹیلی وژن پروگراموں میں نہیں ہورہا۔

اسی طرح میں نے کسی میڈیا والے کو سنجیدگی سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے پیپلز پارٹی کو پہنچ سکنے والے فائدہ کا ذکرکرتے نہیں سنا۔ صرف ساہی وال کے ایک شہری حلقے میں اس پروگرام سے 11000خواتین مستفید ہورہی ہیں۔ میں نے ایک غریب بستی میں ان کے ایک بڑے گروپ کا سراغ لگایا اور انھیں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت میں کافی متحرک دیکھا۔

1985ء سے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی فیلڈ میں جاکر رپورٹنگ کرنے کے بعد مجھے اپنے بارے میں یقین کی حد تک گماں تھا کہ میں 2013ء کے انتخابات کے نتائج 11مئی سے بہت پہلے بڑے اعتماد کے ساتھ بیان کرسکتا ہوں۔ اسلام آباد سے باہر نکل کر کافی شہروں اور دیہات میں بہت سارے لوگوں کے ساتھ طویل گپ شپ کے بعد بھی مگر اب میں کوئی پیش گوئی کرنے سے گھبرا رہا ہوں۔ یہی عالم میرے بہت سارے سنجیدہ صحافی دوستوں کا بھی ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی چیز ہمیں 11مئی کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ پیش گوئیاں کرنے سے روک رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔