جہاںِ گشت

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 1 جولائی 2018
رات گہری، اداس، تنہا سی، لیکن میں اداس نہیں تھا بالکل بھی نہیں۔ فوٹو: فائل

رات گہری، اداس، تنہا سی، لیکن میں اداس نہیں تھا بالکل بھی نہیں۔ فوٹو: فائل

دوسری قسط

سڑک کو زنگ آلود کھمبوں پر لگے ہوئے پیلے بلبوں کی مدقوق روشنی اور بھی تنہا اور ویران بنا رہی تھی۔ شمشیر بہ دست تیز ہوا رگوں کو کاٹ رہی تھی۔ اِکا دُکا کتّے بھونک رہے تھے اور میں تنہا، اس اداس اور ویران سڑک پر چلا جارہا تھا۔ کہاں۔۔۔۔ ؟ یہ تو میں بھی نہیں جانتا تھا۔ بڑی شاہ راہ پر پہنچ کر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی نہیں تھا، بس سناٹا، اک ہُو کا عالم۔ ایک مکان کے باہر سیمنٹ کی ایک بینچ تھی جس کے نیچے ایک کتّا سو رہا تھا، میں اس بینچ پر جاکر بیٹھ گیا۔ وہ برف کی سل کی طرح سرد تھی، میں اٹھ کر ٹہلنے لگا، رات اور گہری ہونے لگی۔

رات گہری، اداس، تنہا سی، لیکن میں اداس نہیں تھا بالکل بھی نہیں۔ نیند نے مجھ پر اترنا شروع کیا اور میں پھر بینچ پر بیٹھ گیا۔ اب مجھ میں سکت نہیں رہی تھی، میں نے بینچ پر سونے کی کوشش کی لیکن سرد ہوا نے بھی ٹھان لی تھی۔ آخر میں نے بینچ کے نیچے سوئے ہوئے کتے کو پتھر مار کر بھگانے کی کوشش کی اور وہ صبر و رضا کا پیکر مجھے اپنی جگہ دے کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔ رب کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے قریبی مسجد میں جاکر وضو کیا اور خود کو رب کے حوالے کردیا۔ تم آج اتنی دور کیوں آئے نماز پڑھنے۔ ابا جی کے ایک دوست نے مجھے پہچان لیا تھا۔ بس ویسے ہی آگیا۔ تمہارے کام بھی نرالے ہیں کہتے ہوئے وہ چلے گئے۔

نمازی ایک ایک کرکے جانے لگے تو میں مسجد سے باہر نکلا۔ شاہراہ پر چلتے چلتے خاصی دیر ہوگئی تھی، دکانیں بند تھیں لیکن ہوٹل کھل گئے تھے۔ لیکن میں چلا جا رہا تھا اور بار بار اپنی جیب میں پڑے ہوئے اکلوتے سکے کو دیکھتا اور پھر چلنا شروع کردیتا، جب چلنے کی سکت نہیں رہی اور میں ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ کیا ناشتہ ہوتا تھا گھر میں پراٹھے، انڈے، مکھن، شہد اور نہ جانے کیا کیا، میرے سامنے یہ سب ناچ رہے تھے اور اب میرے سامنے گھر نہیں فٹ پاتھ تھا اور دور تک کوئی روشنی نہیں تھی۔ پیٹ کی آگ سب سے زیادہ خوف ناک ہوتی ہے، پیٹ کا جہنم کبھی آسودہ نہیں ہوتا مزید مزید کی گردان کرتا رہتا ہے۔ میں دن بھر میں بھوکا پیاسا گھومتا رہا، لیکن اب پھر رات آگئی تھی۔

عشاء کی نماز ادا کرنا دو بھر ہوگیا تھا۔ میں نے نماز ادھوری چھوڑی اور باہر نکل آیا۔ میں جس جگہ نکل آیا تھا یہ سب میرا دیکھا بھالا تھا ۔ قریب ہی ایک قبرستان تھا۔ میں نے رات قبرستان میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دو قبریں تھیں ساتھ ساتھ سنگ مرمر کی۔ درمیان میں جگہ خالی تھی اور میرے لیے بہت، میں لیٹ گیا لیکن سردی۔

جیتے جی ہی قبرستان پہنچ گئے تم۔ یہ لو، اس نے ایک کالی چادر مجھے دیتے ہوئے کہا۔ تم ہو کون، میں نے پوچھا۔ تم ہمارے ہو بس، کہتے ہوئے وہ چل پڑی اور میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ نقاہت کی وجہ سے میرا بُرا حال تھا، میں نے کالی چادر اوڑھی اور پھر مجھے نہیں پتا، میری آنکھ کھلی تو اذان ہورہی تھی، میں نے قریبی مسجد میں نماز ادا کی اور پیٹ بھر کر پانی پیا اور پھر قبرستان آگیا۔ چھوٹے خان آپ صبح صبح یہاں کیا کررہے ہیں۔ وہ بوڑھا گورکن تھا جو اکثر ابا جی کے پاس آتا رہتا تھا۔ نہ جانے کیوں، آئو میرے ساتھ چائے پیتے ہیں، میں اس کے ساتھ چل پڑا۔

قبرستان ہی میں چھوٹا سا گھر تھا اس کا۔ اس کی بیوی مجھے دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ چھوٹا خان مجھے مل گیا تو میں اسے بھی ساتھ لے آیا، ہمیں ناشتہ دو۔ چائے کے ساتھ پراٹھے تھے، وہ مجھ بے صبرے کو حیرت سے کھاتا دیکھ رہا تھا۔ میں خان کے پاس جا رہا ہوں آئو چلو، میرے ساتھ۔ آپ جائیں میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ وہ یقیناً مجھے اس طرح قبرستان میں اکیلا اور اتنی صبح دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔

اب اس شہر میں میرے لیے رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ لیکن جائوں کہاں کرایہ کہاں سے لائوں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا۔

اب کہاں جائوگے ۔۔۔۔ ؟ وہ پھر میرے سامنے کھڑی تھی۔ تم ہو کون۔ بس تم ہمارے ہو، یہ لو اس نے میری مٹھی میں بہت سے نوٹ دیتے ہوئے کہا لیکن تم ہو کون۔ بس تم ہمارے ہو۔ جائو تسلیم کی راہ بہت مشکل ہے وہ پھر چلی گئی تھی۔

میں تانگے میں بیٹھ کر بس اسٹاپ پہنچا اور کراچی جانے والی بس میں سوار ہوگیا۔ راستے بھر ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ طرح طرح کے لوگ، طرح طرح کے مناظر بھاگتے دوڑتے، کئی گھنٹے کا سفر نہ جانے کیسے کٹ گیا اور پھر بڑی بڑی عمارتوں نے میرا استقبال کیا۔ کراچی، مسافر اترنے لگے تھے۔ کاکے تو کہاں اترے گا۔ پتا نہیں۔ ایک بوڑھا مجھ سے مخاطب تھا۔ کیا تیرے پاس پتا ہے۔ میں نے کہا کیسا پتا، جہاں تونے جانا ہے۔ نہیں تو میرے پاس تو نہیں ہے۔ اتنے بڑے شہر میں کیا کرے گا۔ پتا نہیں۔ تو تو بہت مخولی ہے یار۔ چل پھر میرے ساتھ۔ کہاں…؟ میں دھوبی گھاٹ کے پاس رہتا ہوں۔ چلے گا۔

ہاں چلوں گا۔ لیاری ندی کے کنارے دھوبی گھاٹ تھا۔ قریب ہی چھوٹے چھوٹے سے کوارٹر جن میں دھوبی مقیم تھے صبح سویرے دھوبی پٹخا شروع ہوتا اور مغرب تک جاری رہتا۔ بچے ندی میں کھیلتے رہتے اور عورتیں بس پان چباتی اور باتیں کرتی رہتی تھیں۔ مجھے آئے ہوئے دوسرا دن تھا اور میں ہی موضوع گفت گو تھا۔ کس کا لڑکا ہے، گھر سے بھاگ گیا، لگتا تو کسی اچھے گھر کا ہے، اب یہ کرے گا کیا اور نہ جانے کیا کیا۔ جب میں پہنچا تھا تو نمائش لگ گئی تھی۔ نہ جانے کون کون مجھے دیکھنے آیا تھا۔ میرے کپڑے ناقابل استعمال ہوگئے تھے اور کالی چادر نے میرا بھرم قائم رکھا ہوا تھا، لیکن کسی نے میرا نام نہیں پوچھا تھا۔ مجھے وہ سب کاکا کہنے لگے تھے لیکن مجھے یہاں سے جانا تھا۔ کہاں یہ میں نہیں جانتا تھا۔

تیسرے دن فجر میں آنکھ کھلی تو وہ موجود تھی۔ پہنچ گئے تم۔ لیکن تم، تم ہمارے ہو بس۔ جہاں جائوگے ہم ملیں گے۔ قیام موت ہے چلتے رہنا ہے زندگی۔ اور پھر میں مسجد میں تھا۔ نماز ادا کرکے میں بازار نکل آیا سڑک کے کنارے میں چلتا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، یہ سب کچھ میرے لیے نیا تھا، ایک دکان کے سامنے جاکر میں رُک گیا۔ اندر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور بہت سارے چھوٹے چھوٹے کھلونے بکھرے پڑے تھے۔ آپ کے پاس کوئی کام ہے۔ اس نے میری طرف سر اٹھا کر دیکھا، کیا کام کرسکتے ہو تم۔ کوئی بھی کام ہو کرسکتا ہوں۔

اس نے ایک مشین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ چلا سکتے ہو؟ اگر آپ سکھا دیں تو چلا لوں گا۔ پھر وہ ہنسنے لگا اتنے چھوٹے سے تو تم ہو کیسے چلائو گے۔ چلو یہ لو پلاس اور یہ تار۔ اسے اس سائز میں کاٹتے رہو۔ پھر اس نے چھوٹے چھوٹے پہیوں کی ایک ٹوکری میرے سامنے رکھی اور بہت سی چھوٹے چھوٹی پلاسٹک کی کاریں اور مجھے کام سمجھانے لگا، اس تار کے ایک سرے پر یہ پہیا لگانا ہے۔ پھر اسے کار میں فٹ کرکے دوسرا پہیا لگانا ہے۔ سمجھ گئے۔ میں نے کہا جی سمجھ گیا۔ یہ تھی میری پہلی مزدوری۔

ابا جی کا ایک منیجر تھا اس کا نام تھا قاسم اور اس کی بیوی کا صفیہ۔ وہ ہمارے مکان کے اندر ہی احاطے کے کونے میں جہاں گھوڑے بندھے ہوتے تھے رہتا تھا۔ مجھ سے بہت پیار کرتا اور اکثر وہ مجھے کھلونے لاکر دیا کرتا۔ اور اس کی بیوی صفیہ میرا بہت خیال رکھتی، چھوٹے چھوٹے سے کھلونے، ابا جی کے ڈر سے وہ کھلونے اس کے گھر میں ہوتے تھے اور میں کبھی کبھی ان سے کھیلا کرتا تھا۔

میں سوچتا یہ کھلونے بنتے کیسے ہیں، کون بناتا ہوگا اور سب کے پاس تو یہ ہیں بھی نہیں۔ اب مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہ کیسے بنتے ہیں۔ اب تو میں خود بنارہا تھا، میرے سارے کھلونے تو گھر پر ہی رہ گئے تھے۔ کہاں کھوئے ہوئے ہو، دھیان سے کام کرو۔ اپنی انگلی نہ کاٹ لینا ادھر آئو۔ میں نے پلاس زمین پر رکھا اور دکان دار کے پاس پہنچا، جائو سامنے سے چائے لائو۔ اچھا جی قریب ہی ہوٹل پر جاکر میں نے چائے مانگی او جی بسم اﷲ کتنی چائے دوں۔ ایک چائے۔ کیا نام ہے تمہارا، سلطان ہے میرا نام۔ واہ جی بہت اچھا نام ہے۔ میں چائے لے کر پہنچا تو پہلے انھوں نے مجھے گھورا، ایک چائے کیوں لائے۔ تم نہیں پیو گے؟ نہیں جی میں نے کہا، چائے پیا کرو یہ کراچی ہے یہاں چائے کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

دوپہر کے کھانے پر بھی انھوں نے بہت اصرار کیا مگر میں کام کرتا رہا۔ مغرب کی اذان ہوئی تو میں مسجد جانے لگا۔ یہ لو اپنی مزدوری سترہ روپے انھوں نے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ جی شکریہ، شکریہ کس بات کا۔ محنت کی کمائی ہے۔ دیکھ کر مزدوری اور کھا چوری، صبح جلدی آجانا۔ میں نے سترہ روپے لیے اور مسجد پہنچا۔ نماز کے بعد میں بہت دیر تک کہیں کھویا رہا۔ میرے سامنے میرے دوست، اسکول، گھر اور کھیل کا میدان گھوم رہے تھے۔ پھر مجھے وہ یاد آئے بہت عجیب عجیب سی باتیں ان کے متعلق مشہور تھیں۔ ہمارے مکان اور اسکول کے درمیان ایک میدان تھا اور میدان کے درمیان ایک کمرہ، باہر ایک بابا بیٹھا ہوتا تھا جس کے چاروں طرف بہت ساری بلیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ رنگا رنگ بلیاں۔ بلیاں ہی بلیاں وہ بلیوں والے بابا مشہور تھے۔

میں نے ان کے پاس کبھی کسی کو بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ بس تنہا بیٹھے رہتے، کبھی دروازہ بند ہوتا وہ نہ جانے کہاں چلے جاتے تھے لیکن بلیاں بدستور وہاں میلہ لگائے رکھتی تھیں۔ بچے کیا بڑے بھی وہاں سے گزرنے سے گھبراتے تھے۔ نہ جانے کیوں۔ ایک دن بادل چھا گئے تو اسکول میں جلدی چھٹی ہوگئی میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل ہی اپنے مکان کی طرف روانہ ہوا نہ جانے کیا ہوا میں نے اپنے دوستوں سے کہا آج بلیوں والے بابا کے پاس چلیں۔ سب نے انکار کردیا کہ وہاں نہیں جانا۔ وہ بہت خطرناک ہیں، وہ جادوگر ہیں۔

وہ انسان کو جادو سے بلی بنادیتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن مجھ پر دھن سوار تھی میں ان سے ضرور ملوں گا سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ لیکن میں نے ٹھان لی تھی کہ ضرور ملوں گا۔ میدان میں داخل ہوتے ہی بوندا باندی شروع ہوگئی وہ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ رہے تھے ایک لمحے کے لیے تو دل میں آیا کہ اپنا ارادہ اور راہ بدل لوں لیکن پھر میں نے اسے جھٹک دیا۔ وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ چاروں طرف بلیاں تھیں۔

میں مسلسل آگے بڑھ رہا تھا اور وہ مجھے گھور رہے تھے۔ پھر میں ان کے سامنے تھا وہ ہی کیا ان کی بلیاں بھی مجھے گھور رہی تھیں۔ آپ جن ہیں کیا؟ میرے منہ سے نکلا۔ جادوگر ہیں۔ آپ انسان کو بلی بناکر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ میں بہت سارے سوالات کر بیٹھا تھا۔ وہ مسکرائے اور اپنے پاس بلاکر بٹھایا۔ میں نے بستہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ برسات ہورہی ہے تمہاری کتابیں بھیگ جائیں گی جائو کمرے میں رکھ آئو اپنا بستہ۔ میں سامنے بنے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں کچھ نہیں تھا سوائے ایک سیاہ صندوق کے۔ لکڑی کا کالا سیاہ صندوق، میں نے بستہ اس پر رکھا اور واپس آکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔