کیا یہ سچ نہیں؟

رئیس فاطمہ  اتوار 1 جولائی 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں میں صرف وردی اور سوٹ کا فرق ہے۔ ہمارے جیسے غریب اور پسماندہ ملک کے ان پڑھ، سادہ، معصوم اور جاہل شہری نہیں جانتے کہ کب جمہوریت کے نام پر انھیں ووٹ کے نام پر ٹھپہ لگانا ہوگا اور کب ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ سننا  پڑے گا۔ مقصد دونوں کا اقتدار کی دیوی کی پوجا ہے اور کچھ نہیں۔

دیکھ لیجیے دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں نے اب تک اپنا نام نہیں بدلا، بلکہ لوڈشیڈنگ کو 2018 کے آخر تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ خدا جانے، یا سفید محل میں بیٹھنے والا طاقتور انسان جانے، جس نے افغان جنگ میں پاکستان کو ڈالروں کا ذخیرہ دیا تھا، جو آج تک اپنے جلوے دکھا رہا ہے۔

عام آدمی ہو یا خاص، روٹی سب کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر ہمارے وطن میں صرف دو طبقے پیدا ہورہے ہیں، ایک صاحب اقتدار طبقہ جس کے لیے زندگی صرف موج مستی ہے، ان کا پینے کا پانی باہر سے آتا ہے۔ جن کے خاندانوں کا علاج یورپ اور امریکا میں ہوتا ہے، جن کی ٹانگ میں موچ آجائے تو وہ لندن بھاگتے ہیں اور نزلہ ہوجائے تو امریکا کی دوڑ لگتی ہے۔

کوئی ان زمینی خداؤں سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ تمہارے  پاس اتنی دولت آئی کہاں سے، جو ایک پیر لندن میں ہوتا ہے اور دوسرا تھوڑے سے وقفے کے لیے پاکستان میں۔ میری آنکھیں جب یہ نظارے دیکھتی ہیں کہ صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کس طرح کھانوں کا آرڈر دیتے ہیں، آدھا کاتے ہیں اور آدھا ضایع کرتے ہیں تو جی چاہتا ہے کاش کوئی ان کم ظرف اور بے حس انسانوں کی گردنوں میں پھانسی کے پھندے ڈال دے جو غرور سے گردن اکڑ کر زمین پر چلتے ہیں اور بچا ہوا کھانا اٹھانے والے بیرے کی طرف ٹپ اچھال کر اپنی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔

ان کی لوٹ مار اس درجے بڑھ گئی ہے کہ یہ لوٹ مار کا حساب دینا تو درکنار چوری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ لوٹ مار کے اس کھیل میں ان کے سمدھی، چاچے، مامے، بھائی، بھتیجے سب شامل ہیں۔ کوؤں کی طرح کا ایکا کرکے ملکی دولت لوٹتے ہیں اور اگر کوئی عدالت سوال اٹھا دے، کوئی سچا صحافی یہ سوال کردے کہ ایک فیکٹری سے لاتعداد کارخانے اور فیکٹریاں کہاں سے بن گئیں؟

دنیا کے بیشتر ملکوں میں جائیدادیں کہاں سے بن گئیں، تو ان بے شرموں کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ ’’اﷲ کا فضل ہے‘‘۔ کیا اﷲ کا فضل صرف راشی، چوری اور لٹیروں کے لیے رہ گیا ہے، جو قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، ان کی وی آئی پی موومنٹ پر ہوٹر بجاتی گاڑیاں انھیں ایک دم اہم بنادیتی ہیں۔ یہ اتنے خونخوار اور ظالم ہیں کہ ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنساکر خود آرام سے بیٹھے ہیں۔

ٹرینیں انھوں نے تباہ کردیں، کراچی میں سرکلر ریلوے انھوں نے بیچ کھائی، پارکوں  پہ ناجائز قبضہ ان کے عزیزوں اور دوستوں کا، شہر کا آدھے سے زیادہ علاقہ ان کا جنھوں نے حکمرانوں کے ایما پر ان پر قبضہ کیا، پہلے پارکوں پر، پھر خالی پلاٹوں پر، پھر بیواؤں اور یتیموں کی زمینوں پر، یہ زمین پر خدا بن بیٹھے کہ جرائم پیشہ، قاتل اور نامی گرامی غنڈے ان کے ذاتی ملازم، کرلو جو کرنا ہے۔ فریادی کی کوئی داد رسی نہیں۔ کب تک عدالتوں کے چکر لگائے، آخر کو تھک ہار کر بیٹھ جائے کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا قانون ہر طرف جلوہ گر ہے۔

اقتدار کا خون جن کے منہ کو لگ جائے پھر وہ چھوٹتا نہیں، خواہ وردی والا ہو یا سوٹ والا۔ دعویٰ سب خدمت خلق کا کرینگے لیکن اصل میں اقتدار پہ قبضہ کرنا ہی ان کی اولین ترجیح ہے پھر بھی ایک آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈالر ساٹھ روپے سے آگے نہیں بڑھا تھا لیکن نام نہاد دانت کھوسنے والے سویلین کے آتے ہی ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی اور روپے کی قیمت نیچے آگئی۔

مہنگائی پر لگاکر بڑھنے لگی، تنخوار دار آدمی سب سے زیادہ پریشان، اخبار کی قیمت بڑھ گئی، دودھ، دہی، صابن، ڈبل روٹی، پیاز، آلو، تیل، بیکری آئٹم سے لے کر کپڑوں تک کی قیمتیں یہ کہہ کر بڑھادی گئیں کہ ڈالر اوپر اور روپیہ نیچے آگیا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

دوسری طرف میری نظروں کے سامنے وہ طبقہ ہے جو کوڑے کے ڈھیر سے رزق چنتا ہے۔ شادی ہالوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں سے نکلنے والوں کو حسرت سے دیکھتا ہے جو پیزا اور برگر پوائنٹ پہ بیٹھے ہوئے بے فکرے نوجوانوں اور فیملیز کو کولڈ ڈرنک، برگر اور بروسٹ اپنے معدے میں اتارتے دیکھتا ہے اور حسرت سے منہ دوسری طرف کرلیتا ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی صرف ایک وقت کا کھانا بمشکل کھاتی ہے۔

بڑے شہروں میں مختلف فلاحی تنظیمیں لوگوں کو مفت کھانا کھلاتی ہیں لیکن اس نیک کام کے لیے انھوں نے فٹ پاتھوں اور سروس روڈ کو گھیر کر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ کوئی قانون کو کچھ نہیں کہتا کہ فٹ پاتھوں اور سروس روڈ کو چھوڑدیں کہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ مذہب کے نام پر غنڈہ گردی ایک عام سی بات ہے، ایسا لگتا ہے شہر یرغمال ہوچکا ہے۔ فٹ پاتھ نظر نہیں آتیں، جن علاقوں میں فلاحی تنظیمیں نہیں ہیں وہاں دکانداروں نے پولیس کو بھتہ دے کر فٹ پاتھوں پہ اپنا سامان رکھا ہوا ہے۔ ان ہی فٹ پاتھوں پہ ہوٹل اور ڈھابے کھلے ہیں۔

آدھی سڑکیں گاڑیوں کی پارکنگ نے روک لی ہیں۔ ٹریفک ہر وقت جام، رات گیارہ بجے کے بعد پتا چلتا ہے کہ شہر میں فٹ پاتھ بھی ہیں اور سڑکیں بھی کافی چوڑی ہیں۔ حکمرانوں کی طرح پولیس محکمے کے منہ کو بھی رشوت لگ گئی ہے، اسی لیے روز بروز تباہی ہے، ہر طرف بربادی ہے، مہنگائی اور غربت کا طوفان ہے۔

یہی حالت رہی اور یہی پرانے لٹیرے پھر اقتدار میں آگئے تو چوریاں، ڈکیتیاں اور بڑھ جائیں گی، جب حق نہیں ملے گا، روزگار نہیں ملے گا تو لوگ اپنا حق چھینیں گے، بدامنی اور بدنظمی مزید پھیلے گی، لیکن ان لٹیروں کو اس سے کیا، وہ تو ابھی سے ڈکیتی کے پروگرام بنارہے ہیں۔ پنجاب کس کے حصے میں آئے گا، سندھ کا مالک کون ہوگا، کراچی کا بھرتہ کون بنائے گا، کے پی کے اور بلوچستان میں چھانگا مانگا کون لگائے گا۔ دیکھتے رہیے اور روتے رہیے کہ  پاکستان ایک جنگل بنتا جارہا ہے جہاں کوئی قانون نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔