رجب طیب اردوان کی کامیابی کا راز

عابد محمود عزام  پير 2 جولائی 2018

ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اپنے مخالفوں کی سازشوں ، مغربی حکومتوں کی ناپسندیدگی اور مغربی میڈیا کی متعصبانہ پروپیگنڈہ مہم کے باوجود رجب طیب اردوان 53فیصد ووٹ لے کر ایک بار پھر ترکی کے صدر منتخب ہوگئے۔

پارلیمانی انتخابات میں اْن کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے کامیابی حاصل کی ہے اور600 رْکنی پارلیمنٹ میں حکمران جماعت نے 345 سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں۔ٹرن آؤٹ تقریباً 90 فیصد رہا۔ اردوان جدید ترک تاریخ کے مقبول ترین اورطاقتور لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ حالیہ الیکشن نے یہ واضح کردیا ہے کہ ترک عوام کی اکثریت طیب اردوان کے ساتھ کھڑی ہے۔ صدر رجب طیب اردوان نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ترکی کی ترقی و خوش حالی کا سفر تیزی سے جاری رہے گا۔

رجب طیب اردوان کی کامیابی کے بعد پاکستان میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل میں شامل مذہبی جماعتوں کے کارکنان اپنے اپنے رہنماؤں کو رجب طیب اردوان کے پائے کا لیڈر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ کوئی بھی پاکستانی سیاسی رہنماء رجب طیب اردوان کے قریب قریب بھی نہیں ہے، کیونکہ رجب طیب اردوان دعوؤں سے عظیم لیڈر نہیں بنے، بلکہ انھوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے عظیم کام کیے ہیں تو ان کی قوم نے انھیں عظیم لیڈر بنایا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو تو طیب اردوان کے مثل اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ان دونوں جماعتوں کو حکومت کی صورت میں قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملا، لیکن یہ جماعتیں قوم کی خدمت کر کے عوام کے دل جیتنے میں ناکام رہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے لیڈر بھی خود کو طیب اردوان کے قریب سمجھ رہے ہیں، جو ان کی غلط فہمی ہے۔

اس سے انکار نہیں کہ معاملہ فلسطین کا ہو یا کشمیر کا مصر کا ہو یا میانمار کا طیب اردوان ہر مسلمان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہیں اور اس پر اپنے دردو غم کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ طیب اردوان نے اگرچہ ترکی میں مصطفیٰ کمال کے مذہب مخالف نظریے کو شکست دے کر اسلامی روایات کی جانب کامیابی کے ساتھ سفر شروع کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں ترکی میں کامیابی بھی ان اقدامات کی وجہ سے ملی ہے۔ طیب اردوان کو کامیابی صرف اور صرف اپنے ملک اور اپنی قوم کی خدمت کرنے کی وجہ سے ملی ہے۔

ہمارے ایک صحافی دوست ان دنوں ترکی میں ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ترکی کا دورہ کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب ترکی سے ہوکر آئے تو تفصیل سے وہاں کے حالات سنائے۔ ترکی میں ان کا میزبان ترکی صدر رجب طیب اردوان کی حریف جماعت کا کارکن تھا۔ جن کے توسط سے ترک صدر کی حریف جماعت کے دیگر کارکنوں سے بھی ملاقات ہوئی۔

ہمارے دوست نے انھیں ترک صدر سے پاکستانیوں کی محبت کے بارے میں بتایا اور طیب اردوان کے بارے میں ان کے خیالات پوچھے تو حریف جماعت کے کارکنان کہنے لگے کہ ہم نظریاتی طور پر طیب اردوان کے حریف ہیں، لیکن ووٹ طیب اردوان کو ہی دیں گے۔

دوست نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے کہ طیب اردوان سے اگرچہ ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، مگر ترکی میں ان سا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ طیب اردوان نے دنیا میں ہمیں عزت دلوائی۔ ہمیں اک نئی پہچان دی ہے۔ ہمارے ملک کو پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا پر پہنچایا۔ ہمیں سر اٹھاکر جینے کا سلیقہ سکھایا۔ آج ہم دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔ اس لیے ایسے لیڈر کو ووٹ دینا ہماری مجبوری ہے۔ مخالف جماعتوں کے کارکنان کا طیب اردوان کو ووٹ دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ ترک صدر نے ملک و قوم کی کتنی زیادہ خدمت کی ہوگی کہ مخالفین بھی ان کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔

طیب اردوان نے عوام کی خدمت کر کے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ طیب اردوان 1994ء سے 1998ء تک وہ میئر استنبول رہے۔ اپنی میئرشپ کے دوران استنبول کو بڑی ترقی دی اور اس کا شمار دْنیا کے خوبصورت شہروں میں ہونے لگا۔ 2002ء سے طیب اردوان ایک نئے سیاسی سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ انھوں نے استنبول والے خدمات عوام ماڈل کو سارے ترکی میں متعارف کروایا۔ 2014ء میں ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔2002ء سے لے کر اب تک وہ کبھی صدر کبھی وزیر اعظم منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں اور ان کی اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے خدمات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

رجب طیب اردوان نے اپنے ملک کو اقتصادی لحاظ سے 111 نمبر پر موجود ملک کو اٹھا کر 16 ویں نمبر پر پہنچا دیا۔ ترکی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپ (G-20) میں شامل ہوا۔ ترکی میں اقتصادی خوش حالی کے نتیجے میں تنخواہوں میں 300فیصد اضافہ ہوا اور بے روزگاری کی شرح 38 فیصد سے کم ہوکر صرف 2 فیصد تک رہ گئی ہے۔

ترکی کا بجٹ خسارہ 47ارب تک پہنچ گیا تھا۔ طیب اردوان نے اس کو ختم کردیا۔ اردوان نے ترکی کا سارا قرض ختم کردیا۔ ترکی کی برآمدات 23ارب تھیں، جن کو اردوان نے 153ارب تک پہنچا دیا۔ ترکی کی گاڑیاں پہلے نمبر پر، دوسرے نمبر الیکٹرانک سامان ہے۔ اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانک سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکی کا تیار کردہ ہوتا ہے۔ طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی 2023ء میں دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی اور سیاسی قوت بن جائے گی۔

اردوان نے اقتدار سنبھالا تو ترکی اپنی دفاعی صنعت کی ضروریات کا محض بیس فی صد خود پیدا کرتا تھا، لیکن اب یہ شرح 65 فی صد تک جاپہنچی ہے۔ اردوان نے ترکی کی تاریخ میں پہلی بار اپنا ٹینک بنایا، پہلا بحری فریگیٹ تیار کیا، پہلا ڈرون طیارہ اور فوجی سیٹلائیٹ بھی اسی دور میں بنایا گیا۔ استنبول کا ہوائی اڈہ یورپ کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔ اردوان نے 50 کے لگ بھگ ایئرپورٹ تعمیر کیے ہیں۔ تیز رفتار سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ تقریبا 19ہزار کلومیٹر طویل نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ 11ہزار کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائنیں بچھائیں۔

دس سال میں اردوان کی حکومت نے ملک بھر میں دو ارب 77 کروڑ درخت لگائے ہیں۔ ترک حکومت نے کچرے کو ری سائیکل کرکے توانائی بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ اس وقت ترکی کے 98فیصد شہروں اور دیہاتوں میں بجلی ہے۔ ترکی میں تعلیم کا بجٹ بڑھا کر دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کردیا گیا اور طلباء و طالبات کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کیں۔ جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے 35ہزار لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔

عوام کی خدمت کی بدولت طیب اردوان کا عوام سے رابطہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 15 / جولائی 2016ء کوفوج کے ایک دھڑے نے اچانک مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا توطیب اردوان  کی اپیل پر ملک بھر میں لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا اور یہ ثابت کیا کہ یہ مقبولیت کسی لیڈر کو اسی وقت ملتی ہے جب وہ مسائل کے حل کے لیے فی الواقع اپنا خون پسینہ ایک کردے۔ ا گر ہمارے سیاستدان خود کو طیب اردوان کے پائے کا لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے طیب اردوان کی طرح ملک و قوم کی خدمت کرکے عوام کے دل جیتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔