احسن اقبال اور ابرارالحق کا مقابلہ : کانٹے دار؟

تنویر قیصر شاہد  پير 2 جولائی 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دانیال عزیز کو تو عدالت نے نااہل قرار دے کر فارغ کر دیا ہے لیکن احسن اقبال بال بال بچے ہیں۔ پانچ سال قبل ابرارالحق صاحب چالیس ہزار ووٹوں کے بھاری فرق سے احسن اقبال سے ہارے تو کہا گیا تھا کہ وہ ماشاء اللہ جوان ہیں، ہمت دار ہیں، معروف ہیں اور اگر آیندہ پانچ سال محنت کریں گے تو اپنے حریف کو پچھاڑ سکیں گے۔

احسن اقبال مگر محنت کرنے اور اپنے ووٹروں سے مربوط رہنے میں غافل نہ رہے۔ جب کہ ابرار صاحب سے غفلتیں ہُوئی ہیں، چاہے وہ نہ ہی مانیں۔یہ پلڑے کو دانستہ جھکانے والی بات نہیں ہے ، بلکہ واقعہ ہے کہ سیاسی تجربات، عوامی خدمات اور علمی وجاہت کے اعتبار سے احسن اقبال کا پلڑا بھاری لگتا ہے۔ وہ جی سی یو لاہور، یو ای ٹی لاہور اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی و ہاورڈ یونیورسٹی امریکا کے فارغ التحصیل ہیں۔ چار بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ دو بار ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ایسا اہم عہدہ نبھا یا ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور وفاقی وزیر داخلہ رہے ہیں۔ سی پیک ایسے اربوں ڈالر کے پاک چین منصوبے کی نگرانی کر چکے ہیں ۔ اہم چینی قیادت سے گہرے تعلقات استوار کیے جن سے پاکستانی مفادات کا تحفظ ہُوا۔ ایک یونیورسٹی کے استاد رہے۔ اِسی وجہ سے انھیں پروفیسر احسن اقبال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان انجنئرنگ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی نیشنل سٹیئرنگ کمیٹی کے سربراہ بھی۔ایک تھنک ٹینک  (بیٹر پاکستان فاؤنڈیشن) کے بانی بھی ہیں۔

بطور وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی انھوں نے اپنے انتخابی حلقے نارووال شہر اور ضلع میں تین نئی یونیورسٹیوں کی بنیاد بھی رکھی ہے اور یہ اللہ کے فضل سے درس وتدریس کاکام بھی کررہی ہیں۔ ایک سرکاری میڈیکل کالج منظور ہو چکا ہے۔اسٹیٹ آف دی آرٹ ڈسٹرکٹ اسپتال بنایا اورانتہائی دیدہ زیب اور جدید ریلوے اسٹیشن ایسا تعمیر کروایا ہے۔جدید خطوط پر مشتمل ایسا اسپورٹس کمپلیکس استوار کیا ہے جہاں عالمی سطح کے ٹورنامنٹ کروائے جا سکتے ہیں۔

ایک عوامی نمایندہ اِس سے بڑھ کر اپنے ووٹروں کی اور کیا خدمت کر سکتا ہے؟ اِن عوامی خدمات کی موجودگی میں احسن اقبال صاحب اپنے حلقے کے عوام سے ایک بار پھر میرٹ کی بنیاد پر ووٹ لینے کی درخواست کررہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اِس درخواست کو کتنا شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے۔ اِن خدمات کی موجودگی میں جناب ابرارالحق کو اپنی جیت کے لیے بڑا زور لگانا پڑے گا۔ اُن کی دستگیری کے لیے کسی روز اگر کپتان صاحب نارووال آجائیں تو ابرارالحق صاحب کے لیے اُمید کے کئی نئے چراغ روشن ہو سکتے ہیں۔

درست ہے کہ گلوکاری کے میدان میں ابرارالحق صاحب نے خاص نام کمایا ہے ۔ اپنے حلقے ، نارووال میں اپنے لیڈر کے مستحسن راستے پر عمل کرتے ہُوئے چندوں اور عطیات کی بنیاد پر ایک اسپتال بھی بنایا ہے۔ عوام کو اِس اسپتال سے یقیناریلیف بھی مل رہا ہے۔ سیاسی اور عوامی مقبولیت کے میدان میں انھیں شائد ابھی بہت زیادہ محنت اور عوام کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ شو کرنے کی خاصی ضرورت ہے۔

ابرار الحق صاحب نے کپتان سے اپنے دیرینہ تعلق کی بِنا پر پی ٹی آئی کا ٹکٹ تو حاصل کرلیا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور انتخابی حریف کا مقابلہ کرنے کے لیے کتنی جاندار انتخابی حکمت عملی اختیار کرتے  ہیں؟

کپتان کا دعویٰ ہے کہ مَیں نے زیادہ تر ٹکٹ انھیں دیے ہیں جنہیں ’’الیکشن لڑنے کی سائنس‘‘ آتی ہے۔ درست کہا ہو گا لیکن دیکھنا ہوگا کہ جناب ابرارالحق مذکورہ سائنس میں کتنی مہارت رکھتے ہیں؟ کیا انھوں نے 25جولائی کے امتحان سے پہلے کبھی یہی سائنس بروئے کار لاتے ہُوئے کوئی بڑی سیاسی کامیابی اپنے دامن سمیٹی بھی ہے؟

کیا محض کپتان اور پی ٹی آئی کا نام انھیں کامیابیوں سے ہمکنار کر سکے گا؟ اُن کا حلقہ زیادہ تر دیہی ہے جہاں کسی کے مرن جین میں شرکت یا عدم شرکت ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہے۔ عدم شرکت کی بنیاد پر طعنے مہنے سہنا پڑتے ہیں۔ ابرار صاحب کبھی نارووال تشریف لائے بھی تو اپنے اسپتال اور اپنے نجی میڈیکل کالج کے انتظامی معاملات میں اُلجھے رہے۔  وہ 2013ء میں، جناب احسن اقبال سے شکست کھا گئے تھے مگر اس شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے گزشتہ برسوں کے دوران وہ کم کم تگ ودَو کرتے پائے گئے۔

اُن کا انتخابی مقابلہ ایک ایسے  اُمیدوار اور سیاسی شخصیت (احسن اقبال)سے ہے جو پچھلے پانچ سال بے پناہ قومی سرکاری مصروفیات کے باوصف اپنے ووٹروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا۔ جو تقریباً ہر ہفتے نارووال آتا رہا۔ جو بغیر کسی وقفے کے اپنے سیاسی سپورٹروں سے جُڑا رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ ابرارالحق کا مقابلہ ایک پہلوان سیاسی شخصیت سے ہے ۔

لاریب ابرارالحق صاحب کا جذبوں سے بنایا گیا صغریٰ شفیع اسپتال اب تک لاکھوں غریب مریضو ں کا مفت علاج کر چکا ہے۔ اِس کا انتخابات میں انھیں کتنا فائدہ ملے گا، یہ ابھی دیکھنا ہے۔ اس اسپتال کا سالانہ بجٹ 34کروڑ روپے ہے۔ ابرار صاحب کا کہنا ہے کہ ’’تین چار کروڑ روپے تو اُن مریضوں سے اکٹھے ہو جاتے ہیں جو اپنے علاج کے اخراجات خود برداشت کرنے کی سکت اور ہمت رکھتے ہیں اور باقی خسارہ عطیات اور چندوں سے پورا ہوتا ہے۔‘‘

نارووال کی جاٹ، کاہلوں برادری ابرار کی جیت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ یہاں کے کرنل(ر) جاوید کاہلوں، جو نارووال کے ضلع کونسل چیئرمین رہے ہیں،ابرار الحق کے لیے نقصان کا باعث بن رہے تھے۔ پی ٹی آئی قیادت نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور فوری طور پر نارووال کے ایک صوبائی حلقے میں کرنل کاہلوں کی اہلیہ محترمہ رفعت جاوید ،جوایم این اے بھی رہ چکی ہیں، کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ تفویض کر دیا۔ اِس اقدام سے ریٹائرڈ کرنل صاحب خوش ہو گئے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ اِس فیصلے سے احسن اقبال کے مقابلے میں ابرارالحق کو تقویت ملے گی۔بوجوہ ابرار الحق صاحب آجکل احسن اقبال صاحب کے ایک تبصرے پر بڑے ناراض ہیں۔ پروفیسر احسن نے نارووال کے ایک جلسے میں ابرار کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا تھا:’’ پی ٹی آئی کو میرے مقابلے میں کسی ڈاکٹر یا انجینئر کو کھڑا کرنا چاہیے تھا، گلوکار کو نہیں۔‘‘

اِس میں ناراض ہونے کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابرار صاحب ایک پیشہ وَر اور کامیاب فنکار ہیں۔ اُن کی ملک بھر میں عزت ہے۔ انھیں اپنے اختیار کردہ پروفیشن پر مان اور فخر ہونا چاہیے۔ وہ اپنی اِسی صلاحیت کی اساس پر کوئی حیران کُن انتخابی معرکہ بھی انجام دے سکتے ہیں۔ احسن اقبال صاحب یقینی طور پر ایک چھا جانے والی شخصیت ہیں لیکن ابرارالحق صاحب بھی کسی طرح کم نہیں ہیں ۔ ممولہ ، شہباز سے پنجہ آزمانے کے لیے تیارہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔