انتخابی نتائج کے بعد کا منظرنامہ

نصرت جاوید  جمعرات 2 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اب تک میرا خیال تھا کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو اس کی جزئیات جانے بغیر صرف غیر ملکی صحافی اور سفارت کار ہی 11 مئی کے انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد پاکستان میں 1977ء جیسے حالات پیدا ہونے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ دو دنوں میں لیکن میری کچھ مقامی صحافیوں اور دانشوروں سے کافی گپ شپ رہی اور میں ان میں سے چند افراد کو غیر ملکی صحافیوں اور سفارتکاروں جیسے خدشات کا اظہار کرتے سن کر بڑا حیران ہوا۔ اپنی حیرانی کو دور کرنے کے کے لیے ذہن پر کچھ زور ڈالا تو سمجھ آئی کہ انتخابی مہم کے صرف پنجاب کی حد تک پر جوش نظر آنے کی وجہ سے ایسے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

کہنے کو تو 2013ء کے انتخابات تین بڑی جماعتوں کے درمیان ہو رہے ہیں اور پیپلز پارٹی ان جماعتوں میں شامل ہے۔ لیکن اب سوچی سمجھی حکمتِ عملی یا کچھ اور مجبوریوں کی بنا پر ان کے سرکردہ رہنما شہروں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب نہیں کر رہے۔ ان کی انتخابی حکمتِ عملی کا سارا دارومدار اپنے امیدواروں پر ہے۔ جو اپنے اپنے حلقوں میں محدود ہو کر گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں یا گھر گھر جا کر لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ عمران خان اپنے جذبے کی توانائی سے شہر شہر جا کر اپنے حامیوں کو 11 مئی کے دن اپنے سیاسی دشمنوں کو ’’بلّے سے پھینٹا‘‘ لگانے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ نواز شریف اکیلے نہیں۔ ان کے پاس شہباز شریف بھی ہیں جو مختلف شہروں میں جا کر بڑے اجتماعات سے اکیلے خطاب کر سکتے ہیں۔ چھوٹے بھائی کی شخصیت میں تندی اور ولولہ اپنے بھائی سے کہیں زیادہ ہے۔

وقتاََ فوقتاََ وہ عمران خان کے جارحانہ انداز کا مقابلہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ ہجوم مگر نواز شریف کے جلسوں میں کہیں زیادہ ہوتا ہے اور وہ اس سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک خاص قسم کی توانائی بھی ٹی وی اسکرینوں کے لیے پیدا کر دیتے ہیں۔ 24/7 چینلز اپنے نیوز بلیٹن میں عمران خان اور نوازشریف کے ایسے جلسوں پر Live چلے جاتے ہیں۔ یہ اسکرین کو ولولہ انگیز تو بنا دیتا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ تاثر بھی اُجاگر کرنا شروع ہو گیا ہے جیسے 11 مئی کے دن اصل مقابلہ صرف عمران خان اور نواز شریف کے پر جوش نظر آنے والے حامیوں کے درمیان ہو گا اور دونوں کے حامی اپنے اپنے انداز میں فتح یا موت والی لگن کے ساتھ ووٹ ڈالنے اور ڈلوانے جائیں گے۔

ابھی تک صرف پنجاب تک محدود انتخابی گہماگہمی کی 24/7 چینلوں پر Live Coverage کی وجہ سے چند صحافی اب یہ سوچنا شروع ہو گئے ہیں کہ نواز شریف اور خاص طور پر عمران خان کے پرجوش حامی 11 مئی کی رات نتائج کو اپنے تصورات کے مطابق نہ پا کر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کریں گے۔ فرض کریں کہ تحریک انصاف سویپ تو کیا اس روز قومی اسمبلی کی واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر بھی نہ اُبھر پائی تو اس کے جنونی متوالے ان نتائج کو ٹھنڈے دل سے مان لیں گے؟ ان کے ذریعے دھاندلی کے الزامات لگا کر اپنی توقعات کے برعکس نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کوئی احتجاجی تحریک بھی تو چلائی جا سکتی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے کسی ایسی تحریک کے امکانات ہر گز نظر نہیں آ رہے۔

1977ء کے انتخابات سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں اپوزیشن کو بڑی بے رحمی سے دبائے رکھا تھا۔ اخبارات و رسائل بھی ان دنوں بہت مشکلات کا شکار رہے۔ اسی لیے تو جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو دائیں اور بائیں بازو کی تمام اینٹی بھٹو جماعتوں نے مل کر ’’تخت یا تختہ‘‘ والا ماحول بنا دیا۔ ایسے ماحول میں جب پیپلز پارٹی پورے ملک میں بے تحاشہ اکثریت کے ساتھ فتح یاب بتائی گئی تو لوگوں کو اعتبار نہ آیا۔

لاہور اور کراچی کے چند حلقوں میں پیپلز پارٹی کے چند نمایاں لوگوں نے کھلے عام پولنگ اسٹیشنوں پر غنڈہ گردی بھی کی تھی۔ ایسے واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے یہ فرض کر لیا کہ شاید دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی ایسے ہی دھونس اور دھاندلی والے واقعات ہوئے ہوں گے۔

2013ء کا ماحول قطعی طور پر مختلف ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں میڈیا اور عدلیہ نے شاید پیپلز پارٹی کے سیاسی دشمنوں سے بھی کہیں زیادہ مستعد انداز میں حکومت کا محاسبہ کیا ہے۔ پورے پاکستان میں لاکھوں لوگ اب کیمروں والے موبائلوں کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود بے تحاشہ آزاد اور طاقتور ہے۔ ایسے ماحول میں دھاندلی کی کہانیاں نہیں بنائی جا سکتیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ تحریک انصاف سویپ نہیں کر پاتی۔ صرف واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر اُبھرتی ہے تو ایسی صورت میں انھیں فوراََ مخلوط حکومت بنانے کی دعوت مل جائے گی۔ وہ اس سے انکار کرتے ہوئے معقول نظر نہیں آئیں گے۔

تحریک انصاف کے برخلاف اگر پاکستان مسلم لیگ نون قطعی اکثریت کے بغیر واحد اکثریتی جماعت کے طور پر اُبھری تو حکومت سازی اس کا حق ٹھہرے گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس حق کو جلد از جلد استعمال کرنا چاہیں گے۔ ایسا کرتے ہوئے تحریک انصاف کے علاوہ دوسری جماعتیں مخلوط حکومت میں اپنا حصہ نکالنے کے چکر میں اُلجھ جائیں گی اور کوئی احتجاجی تحریک چلاتے ہوئے تحریک انصاف اکیلی رہ جائے گی۔ ایک اور بات جو ہمیں یاد رکھنا ہو گی وہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان صرف پنجاب تک محدود نہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی اپنی اپنی اسمبلیاں ہیں۔ 18 ویں ترمیم سے ملنے والی صوبائی خود مختاری کی وجہ سے مرکز میں حکومت بنانے سے پہلے ان صوبوں میں حکومت بنانے کے قابل جماعتیں انتخابی نتائج آنے کے فوری بعد اپنا ’’کلہ مضبوط‘‘ کرنے کی فکر میں اُلجھ جائیں گی۔ ایسے ماحول میں ’’جنون‘‘ کو اپنی پسند کے نتائج نہ آنے کی صورت میں ایک احتجاجی تحریک میں تبدیل کرنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔