سیاسی منشور

عبدالقادر حسن  منگل 3 جولائی 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

الیکشن کی گہما گہمی کا آغاز ہو تے ہی سیاسی پارٹیاں ’’عوام کی فلاح و بہبود‘‘کے لیے آیندہ پانچ سال کے پروگرام کا اعلان کررہی ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے دوسری پارٹیوں کی نسبت اس معاملے میں سبقت حاصل کر لی ہے، روٹی کپڑا مکان سے آگے بڑھتے ہوئے بھٹو صاحب کے نواسے بلاول نے بطور چیئرمین پارٹی اپنے پہلے انتخابی منشور میں صحت ، مضبوط معیشت ، زراعت اور سرائیکی صوبہ کے قیام وغیرہ کا اعلان کیا ہے۔

پیپلز پارٹی نے عوامی منشور دینے میں پہل کر دی عموماً یہ سمجھا جاتا ہے اور کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ پیپلز پارٹی عوامی حکومت کرتی ہے یعنی پیپلز پارٹی کی حکومت میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی آزاد ہوتے ہیں اور اپنی مرضی و منشا کے تحت ملکی وسائل کو استعمال کرتے ہیں اس لیے کہا جاتا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں حکمرانوں کے ساتھ عوام بھی خوش رہتے ہیں کیونکہ ملکی وسائل کے’ منصفانہ‘ استعمال کو نچلی سطح تک پہنچا دیا جاتا ہے عوام بھی خوش حکمران بھی خوش کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کا انتخابی منشور الفاظ کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے ایسے ہی جیسے حکومت بجٹ کے اعدادوشمار کے ذریعے عوام کو بے وقوف بناتی ہے جس کا علم عوام کو بجٹ کے اثرات سے ہوتا ہے کہ کون سی اشیاء کس بھاؤ بک رہی ہیں اور ان کے بھاؤ میں ردو بدل بجٹ کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح جب بھی انتخابی عمل شروع ہوتا ہے تو سیاسی جماعتیں عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے خوبصورت الفاظ میں لپٹا ہوا منشور پیش کرتی ہیں جس میں عوام کے لیے سب کی سب اچھائیاں ہی ہوتی ہیں، منشور میں کچھ بھی برا نہیں ہوتا.

اس عوامی منشور کے سہارے انتخاب میں عوام کو مستقبل میںسب اچھا ہونے کی نوید دی جاتی ہے لیکن آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے دیے ہوئے منشور پر من و عن عمل کرے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ انتخابی عمل مکمل ہوتے ہی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اپنے منشور کو ایسے ہی بھول جاتی ہے جیسے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان کو اگلے پانچ سال کے لیے بھلا دیا جاتا ہے۔

قطع نظر اس بات کے کہ کون سی جماعت عوام کو اپنے انتخابی منشور میں کس طرح کے سبز باغ دکھاتی ہے، اصل بات اس منشور پر عمل درآمد ہوتا ہے لیکن منشور کی خوبصورت چھپائی والی کتاب کو اگلے انتخابات تک سنبھال کررکھ دیا جاتا ہے تا کہ بوقت ضرورت اسے استعمال کیا جاسکے جس کی عموماً ضرورت پانچ سال کے بعد ہی پیش آتی ہے جب عوام کو دوبارہ سے سبز باغ دکھانے کا موسم آتا ہے ۔

بھٹو صاحب نے جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور رو ٹی ،کپڑا، مکان کا مقبول عام نعرہ دیا جس پر عوام ان کے دیوانے ہو گئے تھے ۔ بھٹو صاحب لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں قیام کرتے تھے، ہم رپورٹر خبر کی تلاش میں بھٹو صاحب سے ملاقات کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی خبر مل ہی جاتی تھی، ایسی ہی ایک سہانی شام کو لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے لان میں ٹہلتے ہوئے مجھے بھٹو صاحب مل گئے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ تو دے دیا ہے لیکن یہ انتہائی مشکل کام ہے، آپ عوام کی امیدوں پر کیسا پورا اتریں گے۔

انھوں نے میری جانب دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا کہ مسلمانوں نے کبھی جنت دیکھی ہے ۔ میں جوان کی ذہانت کا پہلے ہی معترف تھا، ان کی بات سے اتفاق نہ کرنے کے باوجود ان کی ذہانت کی داد دی کہ قوم کو کیسا ایک ان دیکھا خواب انھوں نے دکھا دیا اور حالت یہ ہے کہ آج تک ان کے سیاسی وارثان روٹی کپڑے اور مکان کی سیاست کر رہے ہیں ۔ جناب عمران خان کی پارٹی کا انتخابی منشور ابھی تک سامنے نہیں آسکا اسی طرح نواز لیگ بھی اس معاملے میں پیچھے ہی ہے۔

عمران خان کا مقبول عام نعرہ نیا پاکستان بنانے کا ہے جب کہ نواز لیگ ووٹ کو عزت دینے کی بات کررہی ہے ۔ہمارے عوام بھول جانے کے عادی ہیں اور کل کی بات کوبھی بھول جاتے ہیں اس لیے عوام کو یہ یاد بھی نہیں ہوگا کہ پانچ سال اقتدار میں رہنے والی جماعت نواز لیگ کا گزشتہ انتخاب کا منشور کیا تھا لیکن ایک بات ان کے انداز حکمرانی سے واضح تھی کہ ان کاجو بھی منشور تھا، وہ لاہور کے ارد گرد ہی گھومتا رہا اور ملک کے دیگر صوبے تو درکنار پنجاب بھی مجموعی طور پر ان کی نظروں سے اوجھل رہا ۔

میں اگر اپنے ضلع خوشاب کی بات کروں تو ایک رپورٹ کے مطابق وہ پنجاب کا دوسرا پسماندہ ترین ضلع ہے جب کہ دیکھا جائے تو پنجاب میں گزشتہ دس برس نواز لیگ ہی حکمران رہی اور میاں شہباز شریف بذات خود حکمران یعنی اگر اس پسماندگی کا گلہ کیا جائے تو وہ بھی براہ راست میاں صاحب سے ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی ذمے داری نواز لیگ اور میاں شہباز شریف پر تھی جس کا خمیازہ اب نواز لیگ کے خوشاب میں انتخابی امیدوار بھگتنے جا رہے ہیں۔

جناب عمران خان کی تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں کوئی بڑا معرکہ سر کرنے میںناکام رہی کیونکہ دعوؤں کے برعکس کوئی بھی بڑا منصوبہ بنایا نہ جا سکا لیکن جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق تحریک انصاف نے حکومتی میدان میں ناتجربہ کاری کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل ممکن حد تک حل کرنے کی کوشش کی اور خیبر پختونخواہ میں پولیس، تعلیم ، صحت اور پٹوار کا نظام دوبارہ سے پٹڑی پر آچکا ہے ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کو پارٹیوں کے سیاسی منشور سے کوئی دلچسپی نہیں ان کو اگر دلچسپی ہے تو اس بات سے کہ ان کے روز مرہ کے مسائل کون حل کرے گااور کیسے حل ہوںگے۔ان مسائل میں تعلیم اور صحت بنیادی مسئلے ہیںباقی سب ثانوی چیزیں ہیں۔ عوام کا منشور ان مسئلوں کا منشور ہے یہ اگر دو مسئلے حل ہو جائیں تو عوام کے باقی مسئلے خودبخود حل ہو جائیں گے ۔ سیاسی پارٹیوں کو اس دو نکاتی عوامی منشور پر توجہ دینا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔