- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
فلم انڈسٹری کی ترقی کیلیے سنسر بورڈ نظام کو بہتر بنانا ہوگا، صنم بخاری
لاہور: نارویجن ماڈل و اداکارہ صنم بخاری نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلیے سب سے پہلے فلم سنسر بورڈ کے نظام کوبہتربنانا ہوگا۔
’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے صنم بخاری نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی گزشتہ دو دہائیوں کی بات کریں تو فلم کا شعبہ شدید بحران میں تھا اور اس کی بربادی کا ذمہ دارجہاں یہاں کام کرنے والے پروڈیوسروں، ہدایتکاروں، فنکاروں اور سٹوڈیو مالکان کو ٹھہرایا جاتا ہے وہیں اس کا ذمہ دار مرکزی فلم سنسربورڈ کو بھی ٹھہرایا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
صنم بخاری نے کہا کہ اگر غیر معیاری فلموں کو سنسرسرٖٹیفیکٹ جاری نہ کیے جاتے تو آج پاکستان فلم انڈسٹری شدید بحران سے دوچار نہ ہوتی۔ نگارخانے اور سینما گھر ویران نہ ہوتے، لوگ سستی ترین تفریح سے محروم نہ ہوتے، فلمی ستاروں کی عزت ہوتی اور لوگ ان کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے مگر مفادپرستوں نے اپنی جیبیں بھرنے کیلیے ایسے نان پروفیشنل پروڈیوسروں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا کہ انھوں نے پیسے کے بل بوتے پر اپنی من مانیاں کیں اور اس کے نتائج سے بے خبر ڈائریکٹر، رائٹروں نے ان کی مانتے ہوئے فلمسازی کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
اداکارہ نے کہا کہ غنڈوں، بدمعاشوں اور ذات برادریوں کی پروموشن کرتی فلمیں بننے سے جہاں فلمی میوزک کی جگہ ایسے گیتوں کو ملنے لگی جن کو شائقین کی اکثریت سننا اور دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ اس کے علاوہ فلموں کی کہانیاں، کاسٹنگ اور لوکیشنز سمیت تکنیکی شعبے پر بھی خاص توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجہ میں فلم انڈسٹری کی تباہی ہونے لگی۔ بہت سے لوگ اس سے دور ہوئے اور بہت سے ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔
صنم بخاری نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو سدھارنے کیلیے سب سے اہم کردار صرف اور صرف سنسربورڈ ہی ادا کر سکتا ہے۔ اگر آج بھی انھوں نے غیر معیاری فلموں کو نمائش کی اجازت دینے کا سلسلہ بند نہ کیا تو پھر انٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچنے کی بات کرنا فضول ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔