تعلیم یافتہ حکمران کی آمد کے نعرے

نصرت جاوید  جمعـء 3 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چند دنوں سے مجھے انٹرنیٹ جہادیوں اور تبدیلی کے نشان کے ذریعے اپنے ناقدین کو پھینٹا لگانے کو بیتاب رضا کاروں نے بُھلا سا رکھا ہے۔ ان کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے بعد پتہ نہیں کیوں ایک پنجابی فلم کا وہ منظر یاد آ جاتا ہے جس میں مصطفیٰ قریشی ایک جیل میں بند ہے اور اپنے جسم کو سلاخوں سے رگڑ رگڑ کر خدا سے اپنا دشمن پیدا ہونے کی التجائیں کر رہا ہوتا ہے۔ موضوعات کا ایک انبار ہے جس میں سے کسی ایک کو لے کر ذرا بنیادی سوالات اُٹھا دیے جائیں تو صحیح جواب دینے کی صلاحیت سے محروم ذہن فوراََ دشنام طرازی کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔ مگر ان سب موضوعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے میرا ذہن بہت دنوں سے ایک اشتہاری مہم پر مبذول ہے جس کا مقصد بہت ارفعٰ اور یقیناً عوام دوست ہے۔

اس مہم کے ذریعے 2013ء کے انتخابات میں لوگوں کو اپنا ووٹ ڈالنے پر قائل کرنے کے علاوہ یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ ایسے امیدواروں کو اپنا نمایندہ چن کر قانون ساز اداروں میں بھیجیں جو خود یا ان کی جماعت پاکستان میں علم کو فروغ دینے کے صرف وعدے نہ کریں بلکہ اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک واضح پالیسی بھی بیان کر سکیں۔

میرا یہ کالم لکھنا اپنے طور پر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ میں علم کے فروغ کا جنون کی حد تک خواہش مند ہوں تا کہ میرا لکھا زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ یہ بات یاد دلانے کے بعد میں یہ توقع کرتا ہوں کہ آپ ذرا یہ بھی غور کر لیں کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔

میری اپنی رائے میں تعلیم کا مقصد لوگوں کو محض لکھا ہوا پڑھنے اور اپنے خیالات کو کسی صورت لکھ کر دوسروں تک پہنچانے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہماری تمام حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر لوگوں کو پڑھا لکھا بنانے کے لیے ابھی تک اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ مگر ان رقوم سے صرف اسکولوں کی عمارتیں بنائی گئیں۔ ان کی بدولت عوامی نمایندوں، افسر شاہی کے کارندوں اور ٹھیکے داروں نے بہت ترقی کی۔ اسکولوں کی عمارتیں تو بن گئیں۔ مگر ان کے لیے اساتذہ نہ ملے۔ جو ملے ان کی اکثریت کو جب دیہاتوں اور قصبوں میں ملتا ہوں تو اپنے کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہوں۔

حکومت کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ذہین کاروباری لوگوں نے گلی گلی ایسے ’’انگلش میڈیم‘‘ اسکول بھی کھول رکھے ہیں جہاں پہلی جماعت سے ’’انگریزی اور اسلامیات‘‘ پڑھائی جاتی ہے۔ ایسے اسکولوں کا اصل احوال تو ان اسکولوں کی عمارتیں ہی بتا دیتی ہیں۔ لیکن چند بڑے اداروں کا جال جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ان کے اساتذہ کو بھی ہمارے میڈیا والے اپنے فوکس میں نہیں لاتے۔ ایک بچے کی ماہانہ ہزاروں روپے فیس لینے والے اداروں کے اساتذہ میں سے کتنے ہیں جو خود بچوں کو تعلیم دینے کے قابل بنانے والی تعلیم کے عمل سے گزرے ہیں۔

جو Math آج کل اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے، میں اس کے بارے میں کمزور نہیں قطعی لا علم ہوں۔ اپنی بچیوں کی تعلیم کے ابتدائی سوالوں میں بھی ان کی اس ضمن میں ’’ہوم ورک‘‘ کے حوالے سے کوئی مدد نہ کر سکا۔ یہ فریضہ میری بیوی سر انجام دیتی رہی اور بالآخر اس کا علم بھی رہ گیا۔ Math کا ہوم ورک کرتے ہوئے ہماری بچیوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور ہم میاں بیوی ہزاروں میں فیس دینے کے باوجود کسی ٹیوشن والے کی تلاش میں جت جاتے۔

مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقے کے میرے اور میری بیوی جیسے لاکھوں لوگ روزانہ اس عذاب سے گزرتے ہیں۔ مگر ٹیلی وژن پر پاکستانی سیاستدانوں کی تعلیم کے بارے میں بے حسی کا سیاپا کرنے والے فن کار اس عذاب کا ذکر نہیں کرتے۔ بات چل نکلی ہے تو بہت دور تلک جا سکتی ہے اور مزید تفصیلات میں جا کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا۔ بس اس حقیقت پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ایک علم ہوتا ہے، ایک ہنر۔ ہمارے ہاں تعلیم کے نام پر لوگوں کو پڑھنا سکھایا جاتا ہے سوچنا نہیں۔ ہنر سکھانا تو بہت دور کی بات ہے۔

ہمارے 24/7 چینل کا فروغ ہوا تو شہر شہر ’’ماس کمیونی کیشن‘‘ سکھانے والی دکانیں کھل گئیں۔ میں 2005ء کے آخر میں ایک نئے انگریزی اخبار کا مدیر بنا۔ میری خواہش تھی کہ میں کسی ایسے شخص کو اس اخبار میں نہ رکھوں جو پہلے کسی ادارے سے وابستہ رہا ہوں۔ سیکڑوں کی تعداد میں ’’ماسٹرز ان ماس کمیونی کیشن‘‘ کی ڈگری والوں کی درخواستیں آئیں۔ انھیں کمپیوٹر پر بیٹھ کر فوراََ اپنی پسند کے موضوع پر صرف 250 الفاظ لکھنے کا کہا گیا تو صرف پانچ فی صد لوگ ایسے پائے جن کی گرائمر درست تھی۔ جب بھی کوئی شخص ٹیلی وژن پر آکر اس ملک میں ’’پڑھے لکھے لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری‘‘ کے موضوع پر نوحہ نما بھاشن دیتا ہے تو مجھے یہ ’’ماسٹرز ان ماس کمیونی کیشن‘‘ والے بچے بہت یاد آتے ہیں۔

تعلیم کے فروغ کے حوالے سے جاری فیشن سے مرعوب ہو کر جنرل مشرف نے فیصلہ کیا تھا کہ صرف بی اے کی ڈگریوں والے قانون سازاداروںمیں آئیں۔ میں اس فیصلہ کے خلاف لکھتا تو لوگ مجھے علم کا دشمن اور کرپٹ سیاستدانوں کا چمچہ سمجھتے۔ جب کہ عرض میں صرف یہ کر رہا ہوتا تھا کہ سیاست اور حکمرانی اپنے طور پر ایک ہنر ہے۔ صرف ڈگریاں آپ کو وہ ہنر فراہم نہیں کرتیں۔ یہ صلاحیت خداداد ہونے کے علاوہ کچھ اور نوعیت کی ریاضتوں کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔

اکبر اعظم چٹا اَن پڑھ تھا۔ مگر اس نے بیرم خان اور نورتنوں کے ذریعے حکومت کی۔ رنجیت سنگھ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا مگر جب تک زندہ رہا انگریز کو پنجاب میں گھسنے نہیں دیا۔ اس سے گوروں کا ایک ایلچی ملنے آیا تو کرید کرید کر پوچھتا رہا ’’برف میں لگی بیئر‘‘ کتنے دنوں میں انگریزی عمل داری والے علاقے سے لاہور پہنچائی جا سکتی ہے۔ ایلچی نے بہت سوچنے کے بعد جواب دیا کہ تین دن میں۔ جیسے ہی وہ ایلچی رخصت ہوا رنجیت سنگھ نے اپنے جرنیلوں کو حکم دیا کہ اب سپاہیوں کو اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ تین دن میں انگریزی عمل داری سے کوچ کے بعد پنجاب پہنچ جانے والی فوج کے مقابلے کے تیار ہوں۔ یہ سب محض تعلیم نہیں اس ’’چالاکی‘‘ کی بدولت ہوا جو فطری حکمرانوں کا نصیب ہوا کرتی ہے۔

اب ہمارے ایک تبدیلی کے نشان ہیں۔ ایچی سن کالج سے لے کر آکسفورڈ تک گئے ہیں۔ ان دنوں جلسوں میں دھڑلے سے وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بنے تو پاکستان ایئر فورس کو F-16 کے ذریعے ڈرون گرانے کا حکم دیں گے۔ ڈرون تو ان کے حکم سے یقیناً گرایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا۔ نہ ان سے کوئی پوچھتا ہے ۔ نہ وہ بتا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔