انتخابی عمل: ناقدانہ جائزہ

مقتدا منصور  جمعرات 5 جولائی 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میں 1970 سے اب تک ہونے والے ہر عام اور بلدیاتی انتخابات کا ناظر رہا ہوں۔1970میں طالب علم تھااور NSFکے کارکن کے طورپر انتخابات کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ان انتخابات سے جومعلومات حاصل ہوئیں،وہ پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کام آئیں۔

1977سے تادم تحریر ہر عام اور بلدیاتی انتخابات کاپیشہ ورانہ سے زیادہ اکیڈمک نقطہ نظر سے مشاہدہ اور مطالعہ کیاہے۔ اس کے علاوہ مختلف قومی اور بین الاقوامی سطح کی کانفرنسوں، ورکشاپوں اور سیمیناروں میں شرکت سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ جس کی وجہ سے انتخابی عمل میں پائی جانے والی خامیوں، کمزوریوں اورکوتاہیوں کاخاصی حد تک ادراک ہوسکا۔

پاکستان میں دسمبر1970کے عام انتخابات سے 25جولائی2018کو ہونے والے انتخابات تک ملک میں 10 عام انتخابات ہوچکے ہیں اور گیارہواں ہونے جا رہا ہے۔اسی طرح 1979سے اب تک سات(7) بلدیاتی انتخابات اوردو ریفرنڈم ہوئے ہیں، جب کہ ضمنی انتخابات کی تعداد ان گنت ہے۔

پہلے الیکشن کو چھوڑ کرکوئی بھی الیکشن ایسا نہیں تھا ، جس پر انگشت نمائی نہ ہوئی ہو۔بلکہ 1977کے انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے اس قدر شدید احتجاج کیا کہ بھٹو مرحوم کی حکومت ختم ہوگئی اور مارشل لا نافذ ہوگیا ۔1985کا غیر جماعتی الیکشن ہوکہ1988،90،93،97 یا 2002کے انتخابات ہوں، مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموںنے ہرایک کی شفافیت پر تحفظات کا اظہارکیا، جب کہ2013کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے تحت چند سیاسی جماعتوں نے کئی ماہ تک وفاقی دارالحکومت میں دھرنا بھی دیا گیا۔

لیکن انتخابی عمل میں پائی جانے والی ان خامیوں، کمزوریوں اور خرابیوں کے ازالے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جو انتخابات کو متنازع بنانے کا سبب بنتے ہیں ۔2014میں جب اسلام آباد کا دھرناجاری تھا، تو پارلیمان نے 31 اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ۔

اس کمیٹی کی سفارشات 2017کے آخر میں آئیں، مگر اصلاحات میں رہ جانے والی خامیوں اور کمزوریوں پر کھلی بحث ہونے کے بجائے، ایک تنظیم نے حلف نامے کو بنیاد بناکر جڑواں شہر کو ملانے والی سڑک پر دھرنا دے کر انتخابی اصلاحات کے پورے عمل کو سبوتاژ کردیا ۔حالانکہ انتخابی عمل میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں پر PILDATاورFAFEN نامی تنظیموں کے علاوہ سیاسی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے مقالات اور مضامین تحریرکیے، مگر سب کچھ دھرا رہ گیا اور انتخابی عمل اپنی تمامتر سابقہ کمزوریوں اورکوتاہیوں کے ساتھ جاری ہے۔

اس کے برعکس بھارت میں معاملات بالکل مختلف ہیں، حالانکہ وہ نہ صرف ہمارا پڑوسی ہے، بلکہ تقریباً ساڑھے سات سو برس تک ان کا اور ہمارا ساتھ بھی رہا ہے، جس کی وجہ سے ہماری طرز حیات اور اجتماعی نفسیات تقریباً یکساں ہیں۔مگر وہاں 1951سے انتخابی عمل کسی الزام تراشی کے بغیر انتہائی متانت اور تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2014میں جن دنوں ہمارے یہاں ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاکر وفاقی دارالحکومت کاگھیراؤکیے ہوئے تھی،بھارت میں 81کروڑ  40 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرزمیں سے دوتہائی تعداد اپنی اگلی لوک سبھا کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہی تھی۔ ابھی ہمارے یہاں دھرنا ختم نہیں ہواتھاکہ وہاں BJPکی جیت کا اعلان ہوگیا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے نتائج کو قبول کرتے ہوئے جیتنے والی جماعت کو مبارکباد پیش کی اور نئی حکومت کی کارکردگی مانیٹر کرنے کے لیے مستعد ہوگئیں ۔

بھارت کی مثال دینے کاایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک (بھارت اور پاکستان) کاانتظامی ڈھانچہ نوآبادیاتی دورکا تیار کردہ ہے ۔دونوں ممالک کے آئین بھی بڑی حد تک انڈیا ایکٹ1935کا چربہ ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف فوجداری اور دیوانی قوانین بھی وہی ہیں جو برطانوی حکومت نے 1860سے 1890 کے دوران نافذ کیے تھے، لیکن جب جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل کا معاملہ آتا ہے، تو دونوں ممالک کے مختلف رویے سامنے آتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 1950میں آئین کی منظوری کے ساتھ بھارت نے جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کردیاتھا۔ جس کی وجہ سے وہاں جمہوری نظام کو پنپنے میں زیادہ دشواریاں نہیں آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاںانتخابی  عمل پرچھوٹے موٹے اعتراضات کے علاوہ کبھی بڑے پیمانے پر انگشت نمائی نہیں ہوئی۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابات خالصتاً انتظامی معاملہ ہوتے ہیں۔انھیں انتظامی مہارت اورپیشہ ورانہ دیانتداری کے ساتھ چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت میں 1950میںآئین کی شق324کے تحت ایک رکنی الیکشن کمیشن قائم کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنرکا انتخاب دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے کرتے ہیں۔ جو IAS(انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز) کا ریٹائرڈ افسر ہوتا۔الیکشن کمیشن آئین کے تحت مکمل آزاد، با اختیار اور مالیاتی طورپر خود مختار ہوتا ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی تمام انتظامی ادارے( بشمول پولیس ) الیکشن کمیشن کے تابع چلے جاتے ہیں۔

دہلی اور ریاستی دارالحکومتوں میں بیٹھی حکومتوں کے اختیارات سلب ہوجاتے ہیں۔اس لیے وہاں نگراں سیٹ اپ قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔1989میں آئینی  ترمیم کے ذریعے دو ایڈیشنل کمشنروں کا تقررکیا گیا۔یہ بھی IASکے ریٹائرڈافسران ہوتے ہیں، جن کی تقرری بھی دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد عمل میں آتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے اراکین کو ہٹانے کے لیے وہی طریقہ کار استعمال ہوتا ہے، جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔

اب ذرا ایک دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے یہاں قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ ہر حلقے کے لیے اوسطاً 200 پولنگ اسٹیشن قائم ہوتے ہیں۔ یوں ملک بھر میں 54ہزار 4 سوکے لگ بھگ پولنگ اسٹیشن قائم ہوتے ہیں۔ہر پولنگ اسٹیشن میں چار بوتھ قائم ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر پولنگ اسٹیشن پر پریزائڈنگ افسر، اسسٹنٹ پریزائڈنگ اور پولنگ افسران سمیت کل 13 اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔یوں پورے ملک میں کم و بیش7لاکھ72ہزار  افسران و اہلکار  درکار ہوتے ہیں۔

پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری اس کے سوا ہے، جس کی تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں سرکاری اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والی نفری کے انتخابی عمل میں مصروف ہوجانے کے باعث پورے ملک کا انتظامی ڈھانچہ کئی روز تک مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ماہرین ، تجزیہ نگاراورسول سوسائٹی پارلیمان سے تین کلیدی اقدامات کامطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔اول، عوام دوست انتخابی اصلاحات نافذ کی جائیں۔جس میں الیکشن کمیشن کو مکمل بااختیاریت حاصل ہو۔ دوئم، انتخابی عمل احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے چیف الیکشن کمشنر،کمشن کے دیگر اراکین اور صوبائی الیکشن کمشنروں کا تقرر عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کے بجائے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ افسران میں سے کیا جائے۔

سوئم، پورے ملک میںعام انتخابات ایک ہی روز کروانے کے بجائے دو قسطوں یا ایک ہفتے کے وقفے کے ساتھ دو ،دوصوبوںکا Cluster بناکرکرانے سے انتظامی اداروں پر پڑنے والے دباؤمیں خاصی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے، گوکہ اب یہ اقدامات کرنے کا وقت نہیں ہے، لیکن ان پر ابھی سے غور بہرحال کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔