ہم دیکھیں گے…

شیریں حیدر  ہفتہ 4 مئ 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ابھی تک تو یہ سوچا ہی نہیں کہ ووٹ کسے دینا ہے‘‘…  عارب کے سوال کرنے پر میں نے فوراً جواب دیا، ’’ دینا بھی ہے کہ نہیں… پر کیا فائدہ ووٹ کے ضائع کرنے کا… یقین کرو بیٹا ابھی تو یہ بھی علم نہیں کہ الیکشن ہونا بھی ہے کہ نہیں… کبھی کچھ ہو رہا ہے کبھی کچھ، جگہ جگہ ہونے والے دھماکوں نے تو یقین اور بھی متزلزل کر دیا ہے!‘‘

’’ یقین تو متزلزل ہو گا نا… جب آپ جیسے لوگوں کو خود پر یقین نہیں، اپنی صلاحیتوں پر ، اپنی رائے ، اپنے ووٹ کی طاقت پر یقین نہیں تو ایک عام… ان پڑھ آدمی کا کیا عالم ہو گا؟ ‘‘ عارب کی آواز میںمایوسی تھی۔ دیار غیر میں بیٹھے ہوئے ہمارے سبھی نوجوان ہمارے رویوں پر یونہی حیران ہوتے ہیں، ہم ان کی پریشانی پر حیران…یہ ہی تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنا تھی اور جب مادر وطن کے قرض لوٹانے کا وقت آیا تو یہ نوجوان دیار غیر میں جا بیٹھے۔

’’ہم کیا کر سکتے ہیں، ہماری ہمتیں تو مہنگائی، کرپشن، لاقانونیت ، بدعنوانی، سفارش، رشوت اور جرائم کی چکی میں پس پس کر ختم ہو چکیں! ہمارے خون سرد پڑ چکے ہیں اور مایوسی انتہا کو پہنچ چکی ہے، تم لوگ ہمارا مستقبل تھے، خود ملک چھوڑ کر جا چکے ہو، بات بے بات کہتے ہو کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ تمہاری ایک نسل نے اسے محنت اور قربانیوں سے حاصل کیا،اس سے اگلی نسل نے اسے ترقی کی طرف گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور اس سے اگلی نسل نے اسے ناقابل اصلاح جان کر ہجرت شروع کر دی ہے۔

نہ تم ہم سے توقع کر سکتے ہو نہ ہم تم سے… اس ملک کو رہنے کے قابل تم ہی لوگوں نے بنانا تھا، نظام کی خرابیوں کی نشان دہی اور ان کی درستگی کا کام اب تم لوگوں کو ہی کرنا تھا، مگر تم لوگ اسے نا ممکن سمجھ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ اس دھرتی ماں کو بانجھ کرنے کی اغیار کی سازش کا شکار ہو گئے اور اس دام ہم رنگ زمیں میں جا پھنسے جہاں سے کوئی نکل نہیں پاتا!‘‘

’’ ہم وہاںکیا رہیں جہاں ہماری صلاحیتوں کے مطابق ملازمتیں تک نہیں…‘‘ اس نے فوراً کہا۔’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہاں کوئی کام نہیں…‘‘ میں نے ہنس کر کہا، ’’ یہاں جب کچھ ہے، کام بھی اور عوضانہ بھی، مگر یہاں کام کرنا کون چاہتا ہے۔ میں تڑپ اٹھتی ہوں جب دیکھتی ہوں کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں اپنی روزی روٹی کے حصول کے لیے وہ اخبار بیچنے سے سے لے کر، صفائی تک کے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جنھیں وہ اپنے ملک میں گھٹیا ترین گردانتے ہیں!‘‘

’’ اس لیے کہ اپنے ملک میں ان کاموں کے کرنے والوں کو گھٹیا سمجھا جاتا ہے، ان ممالک میں کام کرنیوالے کی عظمت ہے…‘‘

بیٹا ہم لوگ ہیں جنھیں مولوی نے عربی میں قرآن پڑھایا اور اپنے وعظ اور خطبوں میں عذاب الٰہی سے ڈراتا رہا…جب قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ آدھی عمر رائیگاں چلی گئی اور ہم اچھے مسلمان تو کیا اچھے انسان بھی نہ تھے۔ ہمیں احساس ہوا تو ہم نے تم لوگوں کو اس کتاب کی تعلیم ہر اس زبان میں دلائی جسے تم لوگ سمجھتے تھے اور وہ تمہارے لیے عام فہم تھی، تا کہ تم مذہب کو سمجھو جو کہ سراسر محبت کا مذہب ہے، امن کا مذہب ہے۔ ہر اگلی نسل پچھلی نسل سے بہتر ہوتی ہے اور اسی طرح تم ہم لوگوں سے بہتر نسل ہو…‘‘

’’ اسی لیے تو ہم اس ملک سے ہجرت کر گئے ہیں کہ زمین ہمارے لیے تنگ ہے اور وہاں رہ کر احکامات اسلام پر عمل ممکن نہیں رہا… قرآن پاک میں کہا گیا کہ راشی اور مرتشی دونوں جہنمی ہیں تو ہم لوگ وہاں رشوت دئیے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے، جہاں موت کے منہ میں جاتے مریض کے لیے ایمر جنسی وارڈ میں داخلے کے لیے بھی نیلا نوٹ درکار ہوتا ہے اس ملک میں رہنا ممکن ہی نہیں، دم گھٹتا ہے ہمارا، ہم یہاں سکون میں ہیں… گھٹیا کام بھی کرتے ہیں تو بھی روٹی آرام سے کھا لیتے ہیں، سکون کی نیند سوتے ہیں، ہمیں باہر نکلتے وقت یہ ڈر نہیں ہوتا کہ کوئی اندھی گولی آکر ہمارا جسم بے جان کر جائے گی!!! کیسا ملک ہے جہاں بوری اٹھانے والا اس کے اناج سے حصہ نہیں لے سکتا، جس بوجھ کو وہ دن بھر ڈھوتا ہے اس میں سے ایک دانہ بھی اس کے نصیب میں نہیں!!‘‘

’’ تم نے حضرت عمر ؓ کے دور کی بابت بھی پڑھا ہے جہاں باپ بیٹے کا اور بیٹا باپ کا احتساب کر سکتا تھا، تم وطن لوٹو اور اپنے باپوں سے پوچھو کہ کیا وہ ٹیکس دیتے ہیں، کیا غریبوں کا خیال  رکھتے ہیں، ان کے ذرائع آمدنی ناجائز تو نہیں، وہ کسی کا حق تو نہیں مارتے، کیا وہ ملک کے وفادار ہیں، وہ کاروبار پوری دیانتداری سے کرتے ہیں، وہ جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی تو نہیں کرتے؟ یقین کرو اگر تمہاری نسل یہ کام کر لے تو اس ملک کا بہت بھلا ہو سکتا ہے جہاں طاقتور افراد زمینی خدا بنے بیٹھے ہیں اور نسل در نسل ہماری تقدیروں سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں… ‘‘’’ ہم تو شاید کبھی حالات موافق ہوں تو لوٹ ہی آئیں گے مگر پہلے حالات تو موافق ہوں !! ‘‘ وہی سوچ جو ہر نوجوان کی ہے، پکی پکائی کھانے کو ہر کوئی تیار ہوتا ہے۔

’’ تم لوگوں کے بغیر اس ملک کے حالات کبھی نہیں بدل سکتے، نوجوان نسل ہی اس ملک کو بدل سکتی ہے، اس چکی میں پسنے والے ہی اس سے نکلنے کی تدبیر کر سکتے ہیں، خود چاہے نہ نکلیں مگر ان کی آئندہ نسل کم از کم ان سے بہتر حالات میں ہو گی، انشاء اللہ …‘‘

’’ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے… ہر اکائی ایک وجود رکھتی ہے اور ہر ذات اہم ہے، کیوں ملک کا ہر شہری یہ سوچ رہا ہے کہ میرا ایک ووٹ کیا کر سکتا ہے… اسے کیوں یقین نہیں کہ اس کا ایک ووٹ کتنا اہم ہے اور اس کے پاس امانت بھی، جسے اس نے لوٹانا ہے اور پھر اس کا جواب بھی اللہ کو دینا ہے کہ جب تم اختیار رکھتے تھے تو تم نے اس حق کو استعمال نہ کیا، کسی شخص کے حق میں گواہی نہ دینا یا اس کے خلاف گواہی کو چھپانا مذہب کی رو سے جائزنہیں ہے، تو کیوں نہ ہم خود کو اس قابل بنائیں کہ اپنے ووٹ کے لیے گھر سے نکلیں، جب ہم نتائج جانیں گے تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہمارے ووٹ نے صحیح آدمی کے انتخاب  اور غلط آدمی کو منظر سے ہٹانے میں کردار ادا کیا ہے!‘‘

’’ چلو تم نے تو مجھے قائل کر لیا کہ میں اپنا ووٹ دینے کے لیے گھر سے ضرورنکلوں اور جتنے لوگوں کو میں قائل کر سکی ان کے قائل ہونے کا کچھ اجر تمہیں بھی مل جائے گا… امید ہے کہ تم بھی آج نہیں تو کبھی نہ کبھی میری درخواست پر عمل کرو گے… ‘‘  فون بند ہوا تو میں سوچنے لگی کہ ہم کتنے غافل ہیں، اپنی قوت کو جانتے ہی نہیں۔ اس بار نظام میں ایک تبدیلی آئی ہے کہ جعلی ووٹوں کا عمل رک جائے گا، ایک شناختی کارڈ پر ایک ہی ووٹ رجسٹر ہے اور تمام نظام کمپیوٹرائزڈ ہے، اگلی بار امید ہے کہ ایک نمائندے کو فقط ایک ہی حلقے سے الیکشن لڑنے کو ٹکٹ ملے گی تا کہ غریب اور پسماندہ علاقوں میں سے خرید کر حاصل کیے گئے ووٹوں سے کوئی بھی ہم پر مسلط نہ ہو سکے ۔

ہر ایک امیدوار فقط اس حلقے سے الیکشن میں کھڑا ہو سکے جہاں کا مستقل پتا اس کے شناختی کارڈ پر ہے جیسے ہم اپنے مستقل پتے پر جا کر ووٹ ڈالیں گے۔آپ سب بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں، ممکن ہے کہ آپ پولنگ اسٹیشن پر جائیں تو کنفیوژن کا شکار ہو جائیں کہ کسے ووٹ دیں، کوئی بھی پارٹی آپ کے معیار پر پوری نہیں اترتی، کوئی امیدوار آپ کو پسند نہیں، کسی کا کردار اچھا نہیں، کوئی ایسا ہے کہ جس کی شکل بھی آپ نے نہیں دیکھی، کوئی بھلائی کے کام نہیں کرتا… ہرگز پریشان نہ ہوں، سوچ سمجھ کر اپنا ووٹ اس شخص کو دیں جو اس سب میں سے lesser evil  ہے یا جسے آپ جانتے ہیں، جس کے پاس پیسہ نہ ہو مگر وہ اچھے کردار کا حامل ہو، وہ نیت کا اچھا ہو، ملک کا وفادار ہو۔

اگر آپ کسی بھی پارٹی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے کہ آپ انھیں بار بار آزما چکے ہیں تو کسی نئے آدمی کوموقع دے کر دیکھ لیں، مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اپنا ووٹ ان کے خلاف استعمال کریں جنھیں آپ کسی صورت کرسیء اقتدار پر نہیں دیکھنا چاہتے، بے شک کسی آزاد امیدوار کو ووٹ دیں اور یہ یقین رکھیں کہ آپ کے ووٹ مل کر وہ طاقت بن جائیں گے جو سیاست کے محلوں کے بڑے بڑے کنگروں کو چکنا چور کر دیں گے… دنیا میں ہر چیز کو تغیر ہے، ہمارے ملک کی تقدیر بھی اب تبدیلی کے دہانے پر ہے ، اگر ہم احساس کریں اور اپنا کردارادا کریں تاکہ ہم سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ تبدیلی ہم لائے ہیں!!! انشاء اللہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔