یہ وحشتوں کا سورج جھلسا نہ دے زمیں کو

شاہد سردار  اتوار 8 جولائی 2018

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ معاشرے انسانی و اخلاقی قدروں کی وجہ سے مہذب کہلاتے ہیں۔ اگر قدریں مفقود ہوجائیں تو شہروں اور جنگلوں میں فرق ختم ہوجائے۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہر مذہب انسان کی توقیر کی علم برداری کی بات کرتا ہے۔ خدمت خلق کو افضل سمجھتا اور حقوق انسانی کو اولیت اور اہمیت دیتا ہے، عورتوں کے احترام، بچوں سے شفقت اور بزرگوں کی عزت پر زور دیتا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب انسان کو قتل کرنے، اس کی تذلیل کرنے، ظلم کرنے، ناانصافی کرنے اور اخلاقی گراوٹ کو برا فعل سمجھ کر اس کی ممانعت کرتا ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو وہ برسہا برس سے زوال پذیر نظر آتا ہے۔ بدلتی دنیا کے تقاضوں اور مادیت کی جکڑ نے ہماری سوچ کو خودغرضی کی طرف ڈال دیا ہے، یہاں اخلاقی قدریں انتہاؤں کی حدوں پر شرمسار و پامال کھڑی ہیں جس نے تعصب، خودغرضی، عناد، نفرت اور طبقاتی فرق کو حد درجہ بڑھادیا ہے۔

امن و آشتی، رواداری، برداشت، احترام انسانیت اور حسن اخلاق جیسی قدریں معدوم ہوکر ختم ہونے کو ہیں۔ آئیے چند انتہا پسندی اور اخلاق پامالی کی جھلکیاں دیکھیں جو ہمارے معاشرے میں رونما ہوئیں۔گلشن اقبال کراچی میں ایک نوجوان لڑکی کو قرآنی تعلیم گھر آکر دینے والی معلمہ نے اپنے بھائی کا رشتہ لڑکی کے والدین سے مانگا، لڑکی والوں نے انکار کرکے اس کا رشتہ دوسری جگہ طے کردیا تو معلمہ نے ایک روز ریوالور سے دو گولیاں اس لڑکی کو اور ایک گولی خود کو مار کر دو زندگیوں کا چراغ گل کردیا۔

دوسری تصویر میں ڈیفنس فیز فائیو کراچی میں ایک نوجوان ایک کار کو اوور ٹیک کرکے روکتا ہے، کار میں دو نوجوان خواتین سوار ہیں، نوجوان اپنی پینٹ اتار کر خود کو برہنہ کرکے چند منٹ خواتین کے آگے رقص کرتا ہے۔ دونوں خواتین اس نوجوان کی حرکت کو اور اس کی گاڑی کے نمبر کو موبائل میں محفوظ کرکے فیس بک پر ڈالتی ہیں اور نوجوان اس فلم بندی کے بعد پینٹ پہنتا ہے اور گاڑی میں بیٹھ کر ہاتھ ہلاتا ہوا چلا جاتا ہے۔

تیسری تصویر دہلی کالونی کراچی کی ہے جس میں ساس اپنے بیٹے کی مدد سے اپنی بہو اور اس کی دو ماہ کی بچی کو چھ منزلہ بلڈنگ سے دھکا دے کر ان دونوں کا عرصہ حیات چھین لیتی ہے۔ چوتھی تصویر میں چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کو چاقو کے 26 وار کرکے ختم کردیتا ہے اس لیے کہ وہ اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کا خواہش مند تھا۔ پانچواں واقعہ، لاڑکانہ ضلع کے ایک گاؤں کی تقریب کے دوران ایک مقامی خاتون فنکارہ ثمینہ سندھو کو زبردستی کھڑا کروا کے جب وہ گانے لگی تھی تو تین فائر اس کے پیٹ پر کرکے اسے قتل کردیا گیا۔

سندھو سات ماہ کی حاملہ تھی اور کھڑے ہوکر گانے سے قاصر تھی جب کہ اوباش تماش بینوں کے میزبان نے اپنے ’’معزز مہمانوں‘‘ کی خاطر ثمینہ سندھو سے فرمائش کی کہ وہ کھڑی ہوکر گائے۔ لوگوں نے اس کی آخری پرفارمنس اور اس کے قتل ہونے کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔مندرجہ بالا یہ واقعات ہمارے کراچی اور سندھ کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو باقاعدہ اخبارات میں رپورٹ ہوئے لیکن ملک بھر میں درجنوں واقعات آئے دن ایسے رونما ہوتے ہیں جو اخبارات یا میڈیا تک نہیں پہنچتے۔ ان واقعات کے تواتر سے رونما ہونے پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

یہ وحشتوں کا سورج جھلسا نہ دے زمیں کو

کتنی تپش ہے اس میں جلنے لگا ہے سایہ

واقعی ہمارا معاشرہ اخلاقی دیوالیہ پن کی پستیوں میں جاگرا ہے جہاں سے اس کا نکلنا اب شاید ناممکن نظر آتا ہے۔ بااختیار انتہا پسند یا دیدہ دلیر لوگوں کی دیدہ دلیری یا سفاکی، قانونی سقم یا اس کی لاچاری، چشم پوشی اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کا نہ ملنا ایسے واقعات کو بڑھاتا ہے۔ صاحب دل یا عام لوگ ایسی خبریں پڑھ کر یا سن کر لمحہ بھر کے لیے دل تھامتے ہیں اور پھر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔

اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہائیں دیکھیں اور اخلاقی تنزلی کا رونا اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم انسانیت سے، شرم و حیا سے، اخلاق سے اس قدر عاری کیوں ہوگئے ہیں؟ اور یہ سب کا سب اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ملک میں ہو رہا ہے۔ افسوس اب نہ ریاست میں حیا رہی، نہ ہی سیاست میں اور نہ ہی ارباب اختیار ہیں۔ یہ اب قائد کا نہیں بلکہ کوئی نیا پاکستان دکھائی دیتا ہے جس میں سبھی کچھ جائز ہے۔ کہرام کی اس گھڑی کو الفاظ میں سمیٹنے کے لیے شاید دفتر کے دفتر بھر جائیں مگر شاید وقت سے ملنے والے کرب کو بیان نہ کیا جاسکے۔ کیونکہ بہت سی چیزیں الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے بلکہ انھیں بیان کیا ہی نہیں جاسکتا۔

ہمارا نظام انصاف کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ دولت یا اثر و رسوخ اس کے پلڑے کو جھکا دیتی ہے۔ امیر یا بااثر جرم کرکے بچ نکلتا ہے اور بعض اوقات بے نوا، بے قصور اور غریب بے گناہ ہونے کے باوجود سزا پا جاتا ہے۔ دراصل جس کلچر میں زیادہ لذت، زیادہ شہوت اور زیادہ تھرل ہوتی ہے وہ کمزور، بوسیدہ اور پینڈو ثقافت کو نگل جاتا ہے، شاید ایسا ہی کچھ حال ہمارے موجودہ کلچر کا ہوا ہے۔

افسوس ہم آخری سانس لیتے معاشرے کے کرم خوردہ ستون ہیں اور جب معاشرے آخری سانس لیتے ہیں تو ہر سچ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ اور ہر چھوٹ ’’آن دی ریکارڈ‘‘ ہو جاتا ہے۔ جس ملک میں اور جہاں تحفظ نہ ہو، عزت نفس کی ضمانت نہ ہو جہاں زیادتی سے بچنے کے لیے جیب میں الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا کارڈ رکھ کر باہر نکلنا پڑے اور جہاں زندہ رہنے کے لیے کسی بااختیار شخص کو دوست یا محسن رکھنا پڑے وہ جگہ حساس لوگوں کے رہنے کے قابل کہاں رہ جاتی ہے؟

واقعی کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ قوموں کو عقل حاصل کرنے کے لیے ایک بہت بڑی تباہی سے گزرنا پڑتا ہے۔ہمارے معاشرے کا یہ عجیب چلن ہوگیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنا موقف درست کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ چاہے وہ صحیح ہے یا غلط، اپنی بات کو تسلیم کرانے کے لیے سچ، جھوٹ ہر طرح کے جتن کیے جا رہے ہیں اور اگر بات دلائل اور گفت و شنید سے پوری نہ ہو تو تشدد اور دہشت کے ذریعے اپنی بات منوائی جاتی ہے۔

یہ رویہ عدم برداشت، انتہا پسندی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی وبا تشویش ناک صورتحال اختیار کر گئی ہے، ہم میں سے ہر کسی کا ہاتھ کسی دوسرے کی جیب میں ہے۔ واقعی حیا کی حد ہوتی ہے لیکن بے حیائی کی کوئی حد نہیں ہوتی، کاش انتہا پسند سوچ پاتے کہ غصہ ہمیشہ تنہا آتا ہے مگر جاتے جاتے عقل، اخلاق اور شخصی خوبصورتی کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اچھے اطوار بھی اگر نہ بڑھیں تو سمجھیں صرف ماہ و سال گزرے، کیلنڈر تبدیل ہوئے انسان نہیں بدلا، نہ تجربات نے کچھ سکھایا اور نہ عمر نے۔ جاننے والے جان لیں کہ آنسو کا ہر قطرہ دنیا کی ہر چیز سے مہنگا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کوئی اس وقت تک یہ نہیں جانتا جب تک یہ خود اس کی آنکھوں سے نہ نکلے۔ ہمارے ارباب اختیار کو اپنے اختیارات کا احسن اور موثر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ایسے گھناؤنے واقعات کی روک تھام ہوسکے وگرنہ وہ جان لیں کہ اللہ کے بندوں کو مایوس کرنے والے لوگ تاریخ کے بجائے ’’کوئز بکسوں‘‘ میں زندہ رہتے ہیں جنھیں بچے پہیلیوں کی طرح بوجھتے اور کہانیوں کی طرح کہتے یا سنتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔