چند توجہ طلب امور

مقتدا منصور  پير 9 جولائی 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جس وقت میں یہ اظہاریہ تحریر کررہا ہوں، میاں نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ مقدمہ کا فیصلہ آچکا ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے میاں نواز شریف کو دس برس کی قید اور 80 لاکھ جرمانہ، مریم نواز کو 20 لاکھ جرمانہ،کیپٹن صفدر کو ایک سال قید۔ جب کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو دس برس کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔ گویا میاں نواز شریف کے خاندان کو عملاً سیاست سے باہر کردیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک مکمل اظہاریے کا متقاضی ہے، اس لیے اس پر فی الحال گفتگو کو موخر کرتے ہوئے لاہور میں چند روز قبل ہونے والی طوفانی بارشوں سے پیدا صورتحال پر بات کرتے ہیں۔

ان بارشوں کے بعد لاہور پانی میں ڈوب گیا اور ترقی کے تمام دعوے زمیں بوس ہوگئے۔ اس حوالے سے ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے مخالفین ان کے لتے لے رہے ہیں۔ ترقی کے دعوؤں کا تمسخر اڑا رہے ہیں، دوسری طرف ان کے حامی مختلف نوعیت کی تاویلیں پیش کررہے ہیں۔ کوئی فرانس کے شہر پیرس کے علاقے شانزے لازے (جس پر ایفل ٹاور ہے) کی بارش کے پانی میں ڈوبی سڑکیں سوشل میڈیا پر پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے، تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ تیز بارشیں قدرتی آفات کے زمرے میں آتی ہیں، اس سے ترقی اور شہری تعمیر کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر و بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر تباہیاں پھیلتی رہی ہیں اور آج تک ایسا ہورہا ہے۔

ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہوں یا مختلف نوعیت کی تاویلات ہوں، مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ مسائل و معاملات کا ادراک کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہی اصل دانشمندی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرض کی درست تشخیص کے بعد ہی مناسب دوا تجویز جاسکتی ہے، جو مرض کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ عرض ہے کہ ہم غیر متوازن اور جذباتی قسم کے لوگ ہیں۔ جس کی حمایت کرتے ہیں، اسے ولیوں سے بڑھ کر درجہ دیتے ہیں، اس کی تمام خامیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ جس کی مخالفت پر اترتے ہیں، اسے شیطان سے بدتر ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ معاملات و مسائل کو issue to issue کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرنا ہمارا وتیرہ نہیں۔ جس کی وجہ سے خود ہی ان گنت مسائل کی دلدل میں گھر جاتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ برسات کا موسم جسے مقامی طورپر ساون بھادوں کہا جاتا ہے، ہر سال کم و بیش 15 جون سے شروع ہوکر وسط ستمبر تک جاری رہتا ہے۔ یہ چند برسوں کی نہیں، صدیوں کی کہانی ہے۔ اس موسم کی رومانیت کی مناسبت سے خطے کی ہر زبان میں ادب بھرا ہوا ہے۔ بیشمار گانے اور گیت، قصے کہانیاں اور افسانے اس موسم کی مناسبت سے لکھے گئے ہیں۔ مگر اب صورتحال خاصی مختلف ہے۔ جب سے موسمیاتی تغیر نے کروٹ بدلی ہے، پوری دنیا گرم لہروں، تند و تیز بارشوں اور طوفانی سیلابوں کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ دوسرے ہم جیسے پسماندہ ممالک جہاں مناسب شہری وترقیاتی منصوبہ بندی کے بغیر اربنائزیشن یعنی شہروں کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے، ان گنت مسائل کھڑے کردیے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جہاں بہت سی نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہیں اقتدار واختیار کی نچلی سطح پر منتقلی کے سلسلے نے بھی قبولیت حاصل کی ہے۔ آج کی دنیا میں مرکزی، وفاقی یا ریاستی (صوبائی) حکومتیں نچلی سطح کی خدمات جن میں نکاسی و فراہمی آب، سڑکوں اور گلیوں کی توسیع ومرمت، اسکولوں اور شفاخانوں کی دیکھ بھال اور کچرے (Solid Waste) کو ٹھکانے لگانے جیسی کوئی درجن بھر ذمے داریاں مقامی حکومتیں سرانجام دیتی ہیں۔ جب کہ ہمارے یہاں یہ کام وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سنبھالے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے میونسپل سطح کے درج بالا کام احسن طور پر سرانجام نہیں پارہے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم گورننس کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر توجہ دیں۔ پہلا کام جس کی اولین ضرورت ہے، وہ یہ اگلی اسمبلی آئینی ترامیم کے ذریعے پورے ملک میں تین درجاتی انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔ جو بالترتیب وفاق، صوبے اور ضلع پر مشتمل ہو۔ اس کے بعد ضلع کو مزید تین مزید درجات میں تقسیم کیا جائے۔ ضلعی حکومت بھی اپنے دائرہ کار میں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر اسی طرح بااختیار ہو، جس طرح کہ صوبائی حکومت اپنے دائرہ کار میں خودمختار ہوتی ہے۔ دوئم، سینٹرل سپیریئر سروسز (CSS) اور صوبائی سول سروسز (PCS) کی طرز پر میونسپل ایڈمنسٹریشن سروسز (MAS) شروع کی جائیں۔

سوئم، ہر سیاسی جماعت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نامزدگیاں کرتے وقت ایسے افراد کا چناؤ کریں جو قانون سازی کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جنھیں پابند کیا جائے کہ وہ ووٹروں سے ملازمت دلانے اور سڑکیں بنانے قسم کا کوئی وعدہ نہ کریں، بلکہ پارٹی منشور کی بنیاد پر انتخابی عمل میں حصہ لیں۔ جب کہ مقامی حکومتوں کے لیے میونسپل سروسز کا ادراک رکھنے والے اراکین کو ٹکٹ دیے جائیں۔ چہارم، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو مختص کیا جانے والا ترقیاتی فنڈ فی الفور بند کیا جائے اور اسے مقامی حکومت کو منتقل کیا جائے۔ ہمارے عوام کو بھی اس فیوڈل مائنڈسیٹ سے نکلنے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور مقامی حکومتی نظام کی انسٹیٹوشنلائزیشن میں رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں۔

ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ وطن عزیز میں جمہوریت، حقوق انسانی اور آزادی اظہار کی طرح اقتدار واختیار کی عدم مرکزیت کو بھی ایک مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ وہ ملک جو وفاقیت کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو، وفاقیت کو گالی بنادیا گیا ہو، جہاں چھوٹے صوبوں کو ایک صوبے کی نوآبادیات بنادیا گیا ہو، جہاں عوام کے حق رائے دہی کو مخصوص حلقوں کی خواہشات کے تابع کردیا گیا ہو، وہاں میونسپل سروس شروع کرنے کا مشورہ دینا نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر عرض کریں گے اور کرتے رہیں گے کہ پاکستان کی بہتری کے خواہشمند متوشش خواتین و حضرات پر یہ لازم ہے کہ وہ جس طرح آج جمہوریت کے تسلسل، آزادی اظہار پر قدغنوں کی مخالفت اور فکری آزادیوں کی بازیابی کے لیے بے چین اور سرگرم ہیں، اسی طرح انھیں مقامی حکومتی نظام اور اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کے لیے بھی فعال ہونا پڑے گا۔ اس کے بغیر جمہوریت اور جمہوری نظام کو استحکام دینا ممکن نہیں۔

ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو احباب مہاتیر محمد اور طیب اردوان کو رول ماڈل سمجھتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ ان کے طرز حکمرانی کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کریں۔ یاد رکھیے مہاتیر محمد اور طیب اردوان بننے اور ان کی طرح اسی وقت ڈٹا جاسکتا ہے، جب عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے یہاں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار کی صورتحال انتہائی زد پذیر (Fragile) ہے۔ مگر اصل قیادت وہی ہوتی ہے جو نامساعد اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے عزم و بصیرت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

پھر عرض ہے کہ ترقی صرف سریے اور سیمنٹ سے بنی عمارتیں اور چمکتی سڑکیں نہیں، بلکہ تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے بعد انفرااسٹرکچر کی بہتری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاستدان عوام کو وعدوں وعیدوں پر بہلانے اور ریاستی ادارے آئین کی جانب سے طے کردہ حدود سے تجاوز کرنے کے طرز عمل کو چھوڑ کر خود کو پارلیمان اور عوام کے سامنے جوابدہی کا پابند بنائیں۔ بصورت دیگر ہم نہ تو اپنے عوام کو خوشحالی دے سکیں گے اور نہ دنیا میں رونما ہونے والے نئے قدرتی اور انسانی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔