احتساب عدالت کا فیصلہ؛ نواز خاندان پر انتخابی سیاست کا باب بند؟

احسن کامرے / اجمل ستار ملک  پير 9 جولائی 2018
نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں جان پڑ سکتی ہے، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار ِخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں جان پڑ سکتی ہے، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار ِخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو10 سال قید بامشقت اور 8 ملین پاؤنڈ جرمانہ، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت اور 2 ملین پاؤنڈ جرمانہ جبکہ کیپٹن (ر) صفدر ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس فیصلے کے فوری بعد صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو مسترد کیا جبکہ بعدازاں قائد مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے لندن میں پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بیگم کلثوم نواز کی طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد ملک واپس آنے کا اعلان کردیا۔

احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد مختلف قسم کی آراء سامنے آرہی ہیں، تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے مٹھائی تقسیم کی گئی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج ریکارڈ کروایا۔ ’’ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ اور ملکی منظر نامے پر اس کے اثرات ‘‘ کے حوالے سے ماہرین کی رائے جاننے کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی، دفاعی و قانونی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رمضان چودھری (ماہر قانون)

پہلے نوازشریف اور ان کے خاندان پرکرپشن کے الزامات تھے مگر اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ ملزم سے مجرم بن گئے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ انہیں اقامے پر نکالا۔ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور ان پر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی مگر اب کرپشن ثابت ہونے پر نوازشریف کو 10 سال قید ، مریم نواز کو اثاثے چھپانے، جھوٹ بولنے اور جعلی دستاویزات پیش کرنے پر 7 سال قیدجبکہ کیپٹن (ر) صفدر کو سہولت کاری کے جرم میں 1 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب یہ تینوں 10 سال کے نااہل ہوگئے ہیں، آئندہ 10 برسوں میں یہ نہ الیکشن لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی پبلک آفس ہولڈ کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ کسی بھی ادارے سے ڈیل یا بینک سے قرضہ بھی نہیں لے سکتے۔ اب شریف خاندان کے پاس راستہ یہ ہے کہ وہ خود کو قانون کے سامنے پیش کریں اور 10 دن کے اندر اندر ضمانت کی درخواست دیں، یہ درخواست ہائی کورٹ کے 2 جج سنیں گے اور 30 دن کے اندر اندر اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ چیئرمین نیب 10 روز کے اندر عدالت کو سزا یا جرمانہ بڑھانے کی درخواست دینے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ضبطی کا فیصلہ دیا ہے، اب ریاست پاکستان، برطانوی حکومت سے مطالبہ کرے گی کہ وہ لندن میں ان کی جائیداد کو ضبط کرکے نیلام کرے اور جو پیسہ حاصل ہوگا وہ حکومت پاکستان کو فراہم کرے۔ اس حوالے سے عالمی کنونشنز موجود ہیں اور برطانوی حکومت کی پابند ہے کیونکہ ہم بھی ان کے عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف واپس آتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا بیانیہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کا پرانا بیانیہ تو اب ختم ہوچکا۔ اگر وہ واپس آتے ہیں اور جیل جاتے ہیں تو کیا عوام ان سے ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے یا نہیں؟ انہیں عوام کی کس حد تک سپورٹ ملتی ہے؟ ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، آئندہ چند روز میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) احتجاج کی طرف جاتی ہے اور تحریک چلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا اثر انتخابی نتائج پر پڑے گا۔ نواز شریف کے وطن واپس آتے ہی قانون حرکت میں آئے گا اور انہیں ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کر لیا جائے گا لیکن اگر وہ واپس نہیںآتے تو پھر انہیں انٹرپول کے ذریعے ملک واپس لایا جائے گا اور قانون کی پاسداری کی جائے گی۔

 بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی (دفاعی تجزیہ نگار)

شریف خاندان کے خلاف آنے والا فیصلہ انتہائی اہم ہے اور ملکی منظر نامے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارے ہاں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ فیصلے صرف کمزور کے خلاف ہوتے ہیں جبکہ بڑے ملزم سزا سے بچ جاتے ہیں مگر اس فیصلے سے بعد اب ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور جو بھی کرپشن کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔ اس کیس میں جو کچھ ہوا، قانونی طریقے سے ہوا لہٰذا سب کو یہ فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے۔ پانامہ لیکس کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان نے جو بیانات دیے وہ بعد میں انہیں ثابت نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں مختلف کہانی سنائی، پھر کیس سپریم کورٹ میں گیا اور وہاں اقامہ سامنے آگیا جو انہوں نے ڈکلیئر نہیں کیا تھا، عدالت میں جو حقائق سامنے آئے اس کے مطابق انہیں نااہل کردیا گیا اور معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیج دیا گیا۔ میرے نزدیک شریف خاندان کو اپنی صفائی کے لیے خاطر خواہ وقت دیا گیا، نواز شریف خود بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے 100سے زائد پیشیاںبھگتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دفاع میں عدالت میں کیا شواہد پیش کیے؟ حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان نے اپنی صفائی میں کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کیا بلکہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ، قطری خط کے ذریعے بار بار کیس کا رخ بدلنے کی کوشش کی گئی۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری میںمنی لانڈرنگ ہوئی ہے کیونکہ جس دور میں یہ فلیٹ خریدے گئے اس دور میں پاکستان میں ان کے کاروبار کا اتنا حجم نہیں تھا البتہ ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کے تحت جو پیسہ اکٹھا ہوا تھا اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ کہاں خرچ ہوا؟ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان نے کرپشن کی ہے اور جھوٹ بول کر کیس کو خراب کرنے کی کوشش کی لہٰذا اب جو فیصلہ آیا ہے انہیں قبول کرنا چاہیے۔ اس فیصلے سے نواز شریف اور ان کی جماعت کی سیاست پر منفی جبکہ ملکی سیاست پر مثبت اثرات پڑیں گے کہ اب سیاستدان کرپشن سے گریز کریں گے۔جمہوریت کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر عوام ہیں اور اس وقت ادارے عوامی مفاد میں کام کررہے ہیں لہٰذااب کوئی بھی بڑا کرپٹ قانون سے نہیں بچ سکے گا۔

سلمان عابد (دانشور)

ایون فیلڈ ریفرنس کا جو فیصلہ آیا یہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ جس انداز میں نواز شریف اور ان کا خاندان مقدمہ لے کر چلا اور جس طرح کارروائی آگے بڑھی، اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شریف خاندان اپنی صفائی میں کوئی دستاویزات اور ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا۔ یہ تاریخ کا اہم موقع ہے کہ جہاں اقتدار میں شامل بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے آرہے ہیں، یہ عمل پاکستان کے اداروں کی خود مختاری کو ظاہر کرتا ہے اگرچہ نوازشریف اور ان کے خاندان کے پاس ہائی کورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہے لیکن آثار بتاتے ہیں کہ انہیں وہاں سے ریلیف نہیں ملے گا۔ ثابت ہوگیا کہ نواز شریف سیاسی جلسوں میں جو نعرہ لگاتے تھے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ، اس کا جواب نیب نے بتا دیا ہے کہ لندن فلیٹ کے معاملے میں کرپشن اور بدعنوانی سمیت جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا نواز شریف اور مریم نواز اس فیصلے کے فوری بعد پاکستان آتے ہیں یا نہیں کیونکہ اگر وہ واپس نہ آنے اور لندن میں بیٹھ کر ہی سیاسی اور قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی انتخابی مہم متاثر ہوگی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار الیکشن جیتنے کیلئے نوازشریف کو پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب بال نواز شریف کی کورٹ میں ہے کہ کیا وہ جرات کا مظاہرہ کرکے پاکستان آتے ہیں اور جیل جانے کیلئے تیارہوتے ہیں یا پھر سیاسی ٹال مٹول کرکے پاکستان آنے سے گریز کرتے ہیں،ان کے فیصلے کے اثرات ان کی پارٹی پر پڑیں گے۔ اس فیصلے کے باوجود نواز شریف کی مشکلات کم نہیں ہوں گی بلکہ ان کی سیاسی و قانونی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ ابھی دیگر کیسز کا فیصلہ آنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ، ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کی جماعت کیا سلوک کرتی ہے۔ فیصلے کے فوری بعد شہباز شریف کا پریس کانفرنس میں ردعمل سخت نہیں تھا اور نہ ہی سڑکوں پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کا کوئی بڑا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ شہباز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے حامی ہیں اور فوج سے عمرانی معاہدہ چاہتے ہیں، شہباز شریف کے اس بیان نے جماعت میں نواز شریف کے بنانیے کو کمزور کیا ہے۔ شریف خاندان کے خلاف اس فیصلے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ یہ فیصلہ الیکشن سے صرف 18 دن پہلے آیا، اب مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جب انتخابی مہم کے سلسلے میں عوام میں جائیں گے تو انہیں اس فیصلے کے ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ نواز شریف عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کریں گے کہ ان کے خلاف فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، عمران خان کوشش کریں گے کہ وہ اس فیصلے سے سیاسی طور پر فائدہ اٹھائیں اور ووٹرز کو باور کروائیں کہ اس سزا میں ان کی جدوجہد شامل ہے۔ عمران خان کے پاس کھلا میدان ہے، اگر نواز شریف واپس نہیںآتے تو شہباز شریف میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ عمران خان کے مقابلے میں بڑی انتخابی مہم چلا سکیں۔ اگرچہ حالیہ فیصلہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ہے اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ شاید ابھی صرف شریف خاندان ہی نشانے پر ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرے گا، انتخابات کے بعد نئی حکومت بنے گی تو دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو بھی نیب اور عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر شریف خاندان کو ٹارگٹ کرنے کا تاثر ذائل ہوجائے گا۔ نواز شریف کوشش کریں گے کہ وہ پاکستان ضرور آئیں کیونکہ اگر وہ نہیں آتے توسیاسی پسپائی کا عمل ان کے سامنے ہے اور اس سے ان کی جماعت کی انتخابی مہم بھی متاثر ہوگی۔مریم نواز اگر سیاست کرنا چاہتی ہیں تو انہیں بھی پاکستان آنا پڑے گا۔ میرے نزدیک شہباز شریف، نواز شریف کو مشورہ دینے کی کوشش کریں گے کہ وہ واپس آنے کے بجائے وہی رہ کر سیاست کریں لہٰذا اب فیصلہ نواز شریف نے کرنا ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح آگے لیکر چلتے ہیں۔ n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔