آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں

مقتدا منصور  اتوار 5 مئ 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

30اپریل کو یوم شہداء کے موقعے پر شہیدوں کے ورثاء اور لواحقین سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے بعض اہم قومی امور پر تفصیلی اظہارخیال کیا۔ دیگر باتوں کے علاوہ قومی سلامتی سے جڑے دوموضوعات پرانھوں نے دوٹوک انداز میں اپنا اور مسلح افواج کا نقطہ نظرپیش کیا۔اول،ان کا کہناتھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے، اسے پرائی یا صرف فوج کی جنگ سمجھنا،ملک کو انتشار کی طرف لے جانے کا باعث بنے گا۔دوئم،انھوں نے ان تمام حلقوں کو متنبہ کیاکہ جویہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اور آمریت کا کھیل جزا وسزا سے ختم ہوجائے گا۔ان کی تقریر کے یہ دونوںحصے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، جن کا پاکستان کے معروضی حالات کے سیاق وسباق میںجائزہ لیناضروری ہے۔

پاکستان میں بعض مخصوص حلقے جن میں مذہبی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اوردانشور شامل ہیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ ماننے سے مسلسل انکار کرتے رہے ہیں۔حالانکہ شدت پسند عناصر نے گزشتہ دس برسوں کے دوران پاکستان کے سلامتی کے اداروں اورعوام کو جس طرح زک پہنچائی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اس کے علاوہ ان کی قیادت اور ترجمانوںکے بیانات سے یہ بات بھی اب خاصی حد تک وا ضح ہوچکی ہے کہ ان عناصر کا مطمع نظر پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست میں تبدیل کرناہے۔

یہی سبب ہے کہ حالیہ انتخابات میں دائیں بازوکی ان جماعتوںکو انتخابی مہم چلانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہے،جو شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔اس کے برعکس کسی حد تک لبرل خیالات کی حامل جماعتوں کودہشت گردی کے ذریعے انتخابی مہم چلانے سے روکاجارہا ہے۔ لہٰذایہ تصور محض فریب نظرہے کہ یہ عناصرمحض افغانستان میں امریکا کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو نشانہ بنارہے ہیںاور امریکی افوج کے انخلاء کے بعدخاموشی اختیار کرلیں گے۔لہٰذا امریکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد ان عناصرکے پاکستان کے سیاسی،انتظامی اور سماجی ڈھانچے پر زیادہ شدو مدسے حملہ آور ہونے کے امکانات کورد نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔

جنرل کیانی کی تقریر کا دوسرا اہم نکتہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کے بارے میں تھا۔اپنی تقریرکے اس حصے میںانھوں نے ان حلقوں کو متنبہ کیاجو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک سابق فوجی آمرکو تختہ دار تک پہنچانے سے آمریت سے چھٹکاراممکن ہے اور اس مقصد کے لیے وہ عدالتی ایکٹوازم کا سہارا لے رہے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ جمہوریت اور آمریت کا کھیل جزا وسزا سے ختم ہوجائے گا۔ اس بیان کابین السطورمیں مطلب واضح ہے کہ جب فوج خود ہی جمہوریت اورجمہوری اداروں کے فروغ کے لیے تیار ہوچکی ہے،تو ماضی کو فراموش کرتے ہوئے فوج کے سابق سربراہ کی تذلیل سے گریزکیا جائے، کیونکہ اس طرح اداروں کے باہمی اعتماد کی فضا کو جھٹکا لگے گا۔دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بعض سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ،جنرل کیانی کی تقریر پر سخت تنقید کررہے ہیں ،حالانکہ دو ہفتے قبل جب انھوں نے پاکستان اور اسلام کے درمیان مضبوط رشتے کی بات کی تھی، توان حلقوں نے خوب بغلیں بجائی تھیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سماجی ساخت کا حقیقت پسندانہ مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس ملک میں انتہائی دائیں اورانتہائی بائیں بازو کے نظریات کے لیے گنجائش نہیں ہے۔ یہاںRight to Centre اورLeft to Centre قسم کے معتدل تصورات ہی قبولیت حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کی نظریاتی حدود کاتعین 1973ء کے متفقہ آئین میں واضح طورپر کیا جاچکاہے۔گزشتہ پارلیمان نے اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کے ذریعے ریاستی ڈھانچے کو مزید جمہوری اور وفاقی بنانے میں نمایاں کردار اداکیا ہے۔ان معاملات کو آیندہ پارلیمان مزید بہتربناسکتی ہے۔ لیکن پاکستان کو تھیوکریٹک یا جدیدطرز کی سیکیولر ریاست بنانے کی خواہش نئے تضادات اور تصادم کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے۔جس کے مظاہر ہمیں مذہبی شدت پسندی کی شکل میں کئی برس سے نظر آرہے ہیں۔

چنانچہ پاکستان ایک ایسی مسلم ریاست کے طورپر قائم رہتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی مساوی شہری حقوق حاصل ہوں اور ان پر عمل درآمد بھی ممکن ہو۔ساتھ ہی خواتین کے مساوی حقوق پرنہ کسی قسم کا کوئی قدغن ہو اورنہ انھیں زندگی کے کسی بھی شعبہ میںرکاوٹ کا سامنا ہو۔یہی سبب ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں ہمیشہ Right to Centre اور Left to Centreقسم کی جماعتیںہی عوامی قبولیت حاصل کرتی ہیںاور انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیے گنجائش پیدا نہیں ہوپاتی۔لہٰذا جنرل پرویز اشفاق کیانی کے دو ہفتے قبل اور30اپریل کو دیے گئے بیانات کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت تشویشناک پہلو یہ ہے کہ شدت پسند عناصر پاکستان کے سیاسی اور سماجی نظام پر حاوی آچکے ہیں۔ یہ عناصر جو فکری اعتبار سے جمہوریت مخالف ہیں اور ایک مخصوص مسلک کی بالادستی قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، سیاسی نظام کی تشکیل میں جبراً اپنا کردار ادا کرنے کے درپے ہیں۔ان عناصر کی جانب سے تین مقبول سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں، انتخابی دفاتر، جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں پر حملے دراصل جمہوری عمل کو نقصان پہنچاکر کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔اس سلسلے میںجماعت اسلامی ،جمعیت علمائے اسلام یا دیگر مذہبی جماعتوں سے ان عناصر کی مذمت کی توقع نہیں کی جاسکتی،کیونکہ ان جماعتوں کی شدت پسند عناصر کے نظریات سے وابستگی کی بنیاد پر ان کے لیے نرم گوشہ فطری ہے۔ لیکن Right to Centreمزاج رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے ان عناصر کی کھل کر مذمت نہ کیا جانا حیرت کی بات ہے،جن میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف شامل ہیں ۔کیونکہ ان جماعتوں کی سیاست کا محور بہر حال جمہوری طرز حکمرانی ہے اور انھیں سیاسی میدان میں دیگر جماعتوں سے مقابلہ کرناہوتا ہے۔

میں 1970ء کے عام انتخابات سے تادم تحریر مختلف حیثیتوںسے ملک میںہونے والے مختلف انتخابات کاقریبی ناظر وشاہد رہاہوں۔ 1970ء کے عام انتخابات کاطلبہ سیاست کے ایک سرگرم کارکن کے طورپرمشاہدہ کیا۔ 1977ء سے1990ء کے دوران ہونے والے انتخابات میں بحیثیت پریزائیڈنگ افسر کام کیا اوریوں الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کوسمجھنے کا موقع ملا۔1993ء سے2008ء کے تمام انتخابی مراحل کا ایک تجزیہ نگار کے طورپرجائزہ لیا اورمختلف بین الاقوامی تنظیموں کے لیے سروے تیار کیے۔اس دوران پاکستان پریس فائونڈیشن (PPF) کے تربیتی شعبے کے سربراہ کے طورپر ملک کے36پریس کلبوں میں انتخابات کی کوریج کے حوالے سے صحافیوں کے لیے تربیتی پروگرامز منعقدکیے۔انتخابی عمل اوربلدیاتی نظام پر نصف درجن کے قریب کتابچے تحریر کیے۔ آج بھی انتخابی مہم کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کی کوششوں میں مصروف ہوں۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد ہرگز خود نمائی نہیںہے، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ 11مئی کومتوقع انتخابات میری زندگی کا انوکھاتجربہ ہیں، جو میرے سابقہ مطالعات، تجربات اور مشاہدات سے بالکل مختلف ہیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے کہ یہ میری زندگی میں ہونے والے عجیب وغریب انتخابات ہیں، جن میںصرف ایک صوبے میں انتخابی گہماگہمی جاری ہے، جب کہ تین صوبوں میں انتخابات کاماحول نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح تین مقبول سیاسی جماعتوںکو دہشت گردی کے ذریعے جبراً انتخابی مہم سے محروم کرنادراصل قبل از انتخابات (Pre-election) دھاندلی ہے، جس سے انتخابی عمل کی شفافیت کی کھلی نفی ہورہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند روز بعد منعقد ہونے والے انتخابات کے بارے میںمیرے دل ودماغ پر مختلف نوعیت کے خدشات کے سائے منڈلارہے ہیں۔یعنی 11مئی کی شب اگر انتخابی عمل سے جبراً دور رکھی گئی جماعتوں نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا ،توملک کی سیاسی صورتحال کہاں کھڑی ہوگی؟یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی۔اس لیے وفاقی میںحکومت سازی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب اور دیگر تین صوبوں کے درمیان ایک نئی آویزش کے شروع ہونے کے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔یہ وہ معاملات ہیں، جن کی جانب عموماً پیشگی توجہ نہیں دی جارہی۔لہٰذا آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں، وہ کچھ اچھا نہیں ہے۔ خدا کرے کہ وہ سب نہ ہو،جو ذہن میں آرہاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔