بلوچستان پر توجہ دینے کی ضرورت

ایکسپریس اردو  ہفتہ 11 اگست 2012
کمیٹی اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے آیندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔وزیر دفاع نوید قمر. فوٹو فائل

کمیٹی اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے آیندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔وزیر دفاع نوید قمر. فوٹو فائل

بلوچستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے قائم وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے صوبے کی مختلف سیاسی‘ قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بلوچستان کے حالات ایک طویل عرصے سے خراب چلے آ رہے ہیں اور ان کے حل کی جانب ٹھوس اور مثبت اقدامات کے بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسیوں ہی پر اکتفا کیا گیا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ صوبے کے حالات آج بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں، وہاں مخصوص گروہ آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں‘ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہر محب وطن شہری کے لیے قابل تشویش ہے۔

بعض گروہوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں جو بے گناہ افراد کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ بلوچستان کے بگڑتے حالات کے سدھار کے لیے ایک طویل عرصے سے مختلف حلقوں کی جانب سے بارہا آواز اٹھاتی جاتی رہی ہے۔ وہاں معاملات خرابی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وزیر دفاع نوید قمر کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ بلوچستان کے حالات ایک یا دو ملاقاتوں یا کمیٹیوں سے حل نہیں ہوں گے‘ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو آئے ساڑھے چار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اتنا عرصہ بلوچستان کے مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دی گئی۔

بات صرف بیانات اور عارضی اقدامات تک ہی کیوں محدود رہی اگر موجودہ حکومت شروع دن سے صوبے کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی جانب توجہ دیتی اور وہاں کی تمام سیاسی‘ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو مذاکرات میں شریک کرتی اور ان کی مشاورت کی روشنی میں مسئلے کے حل کی جانب قدم بڑھاتی توصورتحال وہ نہ ہوتی جو آج ہے بلکہ اس میں بہتری کے آثار پیدا ہونے سے صوبے میں امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو جاتا۔

وزیر دفاع نوید قمر نے کہا کہ کمیٹی اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے آیندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔ اصل مسئلہ سفارشات پر عملدرآمد کا ہے انھیں فائلوں کے ڈھیر تلے دبا نہیں رہنا چاہیے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر یہ وطیرہ رہا ہے کہ مسئلے کو شروع میں حل کرنے کے بجائے اس طرف اس وقت توجہ دی جاتی ہے جب معاملات کی ڈور ہاتھ سے نکلنا شروع ہو جاتی ہے‘ عوامی دبائو پر اس مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت تو ضرور کی جاتی ہے مگر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے بیچ منجدھار چھوڑ دیا جاتا اور یوں وقت اور سرمایے دونوں کا زیاں ہوتا ہے۔

موجودہ حکومت نے ساڑھے چار سال بعد اب اس عمل کو سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے آگے بڑھانے کا آغاز کیا ہے تو اس کے تسلسل میں کسی قسم کی غفلت یا تساہل کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے اور اس کو مکمل خلوص نیت سے جاری رکھا جانا چاہیے تاکہ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے معاملہ نشستند‘ گفتند اور برخاستندتک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ جن رہنمائوں سے کمیٹی نے ملاقات کی ہے انھوں نے مسئلے کے حل کی جانب ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے صوبائی وزیر سید احسان شاہ نے کہا کہ کمیٹی کا اپنا کوئی مستقبل نہیں۔ اس طرح کے خدشات ظاہر کرنا اچھا شگون نہیں بلکہ مسئلے کے حل کی جانب سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک سیاسی رہنما حکومت کے رویے سے غیر مطمئن رہیں گے اس قسم کی ملاقاتیں اور دورے نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کا کمیٹی سے ملاقات کرنے سے انکار بھی خوش آیند قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بلوچستان میں امن کو یقینی بنانے کے لیے اندرون اور بیرون ملک ناراض بلوچ رہنمائوں کو بھی مذاکرات میں شرکت پر راضی کرنا ضروری ہے‘ ورنہ وفاقی کمیٹی کی کوششیں ملاقاتوں اور دورے سے آگے بڑھ کر کامیابی کا میٹھا پھل نہیں چکھ سکیں گی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے بھی کہا کہ بات چیت کے لیے رضا مند رہنمائوں کے ذریعے بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنمائوں کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ حکومت سے ایک بار پھر یہ عرض کریں گے معاملے کو انتخابی کامیابی کے لیے سیاسی حربوں اور ڈنگ ٹپائو پالیسیوں تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس عمل کو خلوص نیت سے آگے بڑھایا جائے تاکہ بلوچستان میں خرابی کے حل کی کوئی واضح صورت نکل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔