65ویں سالگرہ مبارک، مگر؟

مقتدا منصور  اتوار 12 اگست 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کل پاکستان 65 برس کا ہوجائے گا۔ اہل وطن کو 65 ویںسالگرہ مبارک ہو۔ لیکن کیا مبارکباد دینے، گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور راتوں کو چراغاں کرنے سے ذمے داریاں پوری ہورہی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان 65 برسوں کے دوران ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہمیں اس جائزے کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ہم نے ان 65 برسوں کے دوران پایا بہت کم ہے، جب کہ کھویا بہت زیادہ ہے۔ جو ہمارے بعد آزاد ہوئے، آج ہم سے بہت آگے ہیں۔ جن کے پاس ہمارے مقابلے میں بہت کم وسائل تھے، آج معاشی طور پر ہم سے زیادہ مستحکم ہیں۔ جو ان گنت مسائل میں الجھے ہوئے تھے، آج ہم سے زیادہ پرسکون ہیں۔ اس لیے یہ جائزہ لینا اور بھی ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کون سی خامیاں اور کوتاہیاں ہیں، جن کے سبب ہم ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہیں۔

پاکستان کی 65 برس کے دوران سیاست، سماجی تشکیلات اور نظم حکمرانی کا جائزہ لیاجائے، تو ملک کو درپیش بیشتر مسائل خود ساختہ یا اپنے ہاتھوں پیدا کردہ نظر آئیں گے۔ اختصار کے ساتھ ان کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے۔ اول، ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے سیاسی قیادت کے ذہنوں میںموجود ابہام آئین سازی میں تاخیر کا سبب بنے۔ دوئم، سیاسی عمل کے راستے میں رکاوٹیں، جو جمہوری عمل میں باعث رکاوٹ ہوئیں۔ سوئم، قومی سلامتی کا کچھ حقیقی اور کچھ تصوراتی خوف، جس نے امریکی حلیف بننے اور اپنی خودمختاری کا سودا کرنے پر مجبور کیا۔ چہارم، بیورو کریسی کا ابتدا ہی میں سیاسی قیادت پر حاوی آجانا اور منصوبہ سازی کے عمل سے سیاسی جماعتوں کی بے دخلی۔ پنجم، مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان زمینی، فکری اور ثقافتی فاصلہ، جو شروع دن ہی سے نمایاں طور پر سامنے آگیا۔ ششم، مسلم لیگ کا دہرا معیار، جس نے قیام پاکستان کے بعد برٹش انڈیا دور کے اپنے تمام مطالبات بھلا دیے۔

اول، 1940 کی قرارداد لاہور کی روشنی میں پاکستان کو ایک وفاق کی شکل میں قائم ہونا تھا، جس میں شامل اکائیوں کوآل انڈیا مسلم لیگ کے برٹش انڈیا میں کیے گئے مختلف مطالبات کی روشنی میں مکمل اختیارات دیے جانے کا وعدہ بھی شامل تھا۔ مگر قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ نے اپنے سابقہ موقف سے روگردانی کرتے ہوئے پاکستان کو ایک وحدانی ریاست میں تبدیل کردیا۔ اسی طرح مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کا یہ موقف تھا کہ مذہب کا نعرہ سیاسی مقاصد کے لیے لگایا جارہا ہے، لیکن پاکستان ایک جدید جمہوریہ ہوگا۔ رویوں کی اسی منافقت کی وجہ سے ابتدائی نو برس تک کوئی آئین نہیں بن سکا۔ 1956 میں جو آئین تیار ہوا، وہ کسی بھی طور وفاقی نہیں بلکہ وحدانی تھا۔ اس آئین کی تشکیل سے قبل اسٹبلشمنٹ نے مغربی پاکستان کے فیوڈل سیاستدانوں سے سازباز کرکے ون یونٹ قائم کردیا تھا۔ ون یونٹ صرف بنگالی عوام کی توہین نہیں تھا، جن کی عددی اکثریت اور حق حکمرانی کومحدود کیا گیا تھا، بلکہ مغربی حصے کے چھوٹے صوبوں کا بھی استحصال کیا گیا تھا، جن کے وسائل، ثقافت اور خود مختاری کو سلب کرلیا گیا تھا۔ جس نے عدم اعتماد کی ایک ایسی فضا کو جنم دیا جو آج تک جاری ہے۔

دوئم، قیام پاکستان کے فوراً بعد جمہوریت پر شب خوں مارا گیا اور سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت کو بلاجواز برطرف کیا گیا اور اس کے بعد کراچی کو سندھ سے الگ کیے جانے کی مخالفت کرنے پر ایوب کھوڑو مرحوم کی حکومت غیر آئینی طریقے سے ختم کردی گئی۔ ابتدا ہی سے سیاسی قوتوں پر بیوروکریسی کو فوقیت دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ مرحوم لیاقت علی خان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کے لیے ملک غلام محمد کا انتخاب کرتے وقت گورنر جنرل ہائوس نے انھیں اعتماد میں نہیں لیا۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میںاپنے وزرا کی فہرست وزیراعظم تیار کرتا ہے۔ اسی طرح گورنر جنرل ہائوس میں جو اعتماد سول انتظامیہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو حاصل تھا، وہ ملک کے وزیراعظم اور پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری کو حاصل نہیں تھا۔ یہ رویے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ابتدا ہی سے سیاسی عمل کی بیخ کنی اور بیوروکریسی کو بالادست بنانے کا عمل شروع ہوگیا تھا۔

سوئم، بعض تاریخ دان اور تجزیہ نگار اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کانگریسی لیڈروں کا رویہ پاکستان کے بارے میں خاصا معاندانہ تھا، لیکن ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ پاکستان کے وجود کو ہڑپ کرجائیں۔ اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے جذباتی رویے مارنے اور مرجانے کی حد تک تند تھے۔ ایسے میں بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی جارحیت خود اس کے اپنے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ اس لیے قومی سلامتی کا خوف خاصی حد تک فرضی تھا اور اس کا مقصد سول اور ملٹری بیورو کریسی کو سیاسی جماعتوں پر بالادستی دلانا تھا۔ اسی رویے کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے چنگل میں پھنسا اور اسی رویے نے خطے میں اس کے وجود کو متنازع بنایا۔

چہارم، جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ایک مخصوص منصوبے کے تحت پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کو بالادست بنانے کی کوششیں قیام پاکستان کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھیں، جن میں چوہدری محمد علی، ملک غلام محمد، اسکندر مرزا اور قدرت اﷲ شہاب جیسے بیوروکریٹس کا نمایاں کردار تھا۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان میں آئین سازی میں تاخیری حربے استعمال گئے اور سیاست دانوں کی تذلیل کے لیے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک غلام محمد کو ملک کا گورنر جنرل بنوایا گیا۔

آئے دن حکومتوں کی تحلیل، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ، محلاتی سازشیں اور فوج کے کمانڈر انچیف کو وردی سمیت ملک کا وزیر دفاع مقرر کرنا، ملک کو سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ذریعے چلانے کے تصور کی توثیق کرتا ہے، جس نے فوجی آمریتوں کی راہ ہموار کی۔ پنجم، نظم حکمرانی کا پانچواں نقص پہلے نقص ہی کا تسلسل ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں زمینی، فکری اور ثقافتی فاصلہ بہت زیادہ تھا، جسے دانشمندی کے ساتھ وفاق کے مروجہ اصولوں کی مدد سے بہتر انداز میں کم کیا جاسکتا تھا۔ یعنی زمینی فاصلہ سے قطع نظر بنگالیوں کے وسائل، ثقافت اور زبان کو قومی درجہ دے کر انھیں قومی دھارے سے منسلک رکھا جاسکتا تھا لیکن ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔

ان کی زبان اور ثقافت کو غیر اسلامی قرار دے کر تذلیل کی گئی۔ دوسرے پیریٹی کے اصول کی بنیاد پر ان کی عددی اکثریت کو بھی مجرمانہ انداز میں کم کرکے ان کے اقتدار میں آنے کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس عمل نے صرف بنگالیوں ہی کو پاکستان سے متنفر نہیں کیا بلکہ اس عمل سے سندھی، بلوچ اور پختون بھی خائف تھے۔ خاص طور پر سندھی عوام جن کی اپنی صدیوں پرانی تہذیب اور زبان ہے، پاکستان میں اپنی تہذیبی شناخت کے لیے خطرات محسوس کرنے لگے۔ ریاست پر عدم اعتماد نے پورے ملک میں ریاست گریز رجحانات کو پروان چڑھایا، جس کے نتیجے میں دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ سندھ میں بے چینی بڑھی اور بلوچستان علیحدگی پسند تحاریک مضبوط ہونا شروع ہوئیں۔

ششم، قیام پاکستان کے بعد آل انڈیامسلم لیگ کا رویہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔ وہ جماعت جو متحدہ ہندوستان میں اختیارات کی عدم مرکزیت، صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق کی علم بردار تھی، قیام پاکستان کے بعد اختیارات کی مرکزیت کی داعی، صوبائی خودمختاری کی قاتل اور اقلیتوں کے حقوق کی غاصب بن کر سامنے آئی۔ مسلم لیگ نے نوکرشاہی کو موقع فراہم کیا کہ وہ ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی ہوجائے اور سیاسی عمل کو سبوتاژ کرے۔ مسلم لیگ کی غلط پالیسیوں اور آمرانہ روش کی وجہ سے آئین سازی میں تاخیر اور انتخابات مسلسل ملتوی ہوئے۔ مسلم لیگ ہی نے اپنے علاوہ دیگر جماعتوں کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈال کر یک جماعتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں خود اس کو نقصان پہنچا اور فوج کو اقتدارپر قبضے کا موقع ملا۔

آج پاکستان جس ابتلا کا شکار ہے، اس کے پس پشت بنیادی طور پر انھی چھ عوامل کا کردار ہے، جن کے بطن سے مزید مسائل اور الجھنوں نے جنم لیا۔ آج پاکستان میں امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں تعطل کی وجہ سے مڈل کلاس کا حجم مسلسل کم ہورہا ہے۔ بھارت کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی نے قومی وسائل کی تقسیم کو غیر متوازن کردیا ہے۔ جس سے ریاست گریز رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے۔

بلوچستان میں شدید بدامنی ہے، سندھ میں الگ بے چینی ہے۔ مگر کسی کو ملک کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اسے گرداب سے نکالنے کی فرصت نہیں ہے۔ اس کے برعکس حکمران اقتدار کے نشے میں بدمست، ریاستی منصوبہ سازامریکا کی کاسہ لیسی کرنے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی دھجیاں بکھیرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ آج سری لنکا جیسا چھوٹا سا ملک کئی دہائیوں تک سنہالیوں اور تامل قوم پرستوں کے درمیان مسلح جنگ پر قابو پانے کے بعد تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ایشیا کی بڑی معیشتوں کے مقابلے پر آنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مگر ہم 65 ویں سالگرہ پر اس تشکیک کا شکار ہیں کہ اگلی سالگرہ پر ہم نجانے کہاں کھڑے ہوں۔ دانشمندوں نے صحیح کہا ہے کہ جس ملک کے رہنما رہزن اور دانشور کوتاہ بین ہوں،وہ تمامتروسائل سے مالامال ہونے کے باوجود بدنصیبیوں میں گھرا رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔