کرپشن کے خلاف مہم ، ایک انتخابی نعرہ

مزمل سہروردی  منگل 10 جولائی 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل ایک سوال اہم ہے کہ کس کو ووٹ دیا جائے۔ سروے کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ کس کوووٹ دیا جائے وہ جیت ہار کا فیصلہ کریں گے۔ حالانکہ میں یہ منطق اور دلیل نہیں مانتا۔

یہ پاکستان ہے جس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اس نے کس کو ووٹ دینا ہے وہ کسی کو ووٹ نہیں دے گا۔ الیکشن والے دن گھر بیٹھ کر فلمیں دیکھے گا۔ سارے نظام کو گالیاں نکالے گا۔ رات کو نتائج دیکھے گا اور کہے گا میں نے تواسی لیے ووٹ نہیں دیا کیوںکہ مجھے پتہ تھاکہ کچھ بھی نہیں ہونا۔ لیکن پھر بھی اگر ان میں سے ایک فیصد بھی آخر میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو انتخابی نتائج پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کس کو اور کیوں ووٹ دیا جائے۔ آج کے کالم میں عمران خان کو کیوں ووٹ دیا جائے کے سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں عمران خان کے ایک سپورٹر اور ووٹر سے طویل نشست کی تا کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ تحریک انصاف کے پاس کیا دلیل ہے کہ ان کو کیوں ووٹ دیا جائے۔ نواز شریف کی نا اہلی اور سزا کے بعد تحریک انصاف کی ووٹ کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ ملک میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے انھیں ووٹ دیا جائے۔

میرا تحریک انصاف کے دوستوں سے سوال ہے کہ اول تو نواز شریف کی نا اہلی اور سزا میں ان کا کریڈت بہت کم ہے۔ سب کو پتہ ہے گیم کیاہے۔ لیکن پھر بھی اگر آپ کا سب سے بڑا نعرہ یہ ہے کہ آپ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے تواس ضمن میں آپ کی جماعت اور لیڈر شپ کاکوئی ٹریک ریکارڈ ہونا چاہیے۔ آخر تحریک انصاف کے پاس پانچ سال ملک کے ایک ایسے صوبے کی حکومت رہی ہے جہاں کرپشن کی بہت کہانیاں رہی ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آخر تحریک انصاف نے ان پانچ برسوں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کیا کیا ہے۔

ایک تو ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری یاد داشت بہت کمزور ہے اور ہم جلد ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ صرف وہی کچھ یاد رکھتے ہیں جو لیڈر شپ ہمیں یاد رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ باقی جس پر وہ مٹی ڈال دیں اس پر ہم بھی مٹی ڈال دیتے ہیں۔ جب 2013میں عمران خان نے خیبر پختونخواہ کی حکومت سنبھالی تو وہاں اے این پی کی کرپشن کے بہت چرچے تھے۔ شاید لوگ بھول گئے ہیں امیر حیدر ہوتی کو ایزی لوڈ کہا جاتا تھا۔

عمران خان اے این پی کی کرپشن کے ایسے ہی چرچے کرتے تھے جیسے آج نواز شریف کی کرپشن کے کرتے ہیں کیونکہ اس وقت وہ کے پی میں اے این پی کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے۔ ایزی لوڈ ایزی لوڈ کے نعرے لگوائے جاتے تھے۔ لیکن دیکھ لیں کیا ہوا۔ کیا عمران خان کی حکومت نے خیبر پختونخواہ میں کرپشن کے حوالے سے اے این پی پر ایک کیس بھی بنایا۔ کیوں نہیں ۔ کیونکہ اے این پی کی عبرت ناک شکست کے بعد اے این پی عمران خان کے لیے کوئی سیاسی خطرہ نہیں رہی تھی۔ اس لیے عمران خان اور ان کی جماعت کرپشن کی ساری داستانیں بھول گئے۔

آپ یقین کریں تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ حکومت نے اے این پی کے خلاف کرپشن کا ایک ریفرنس بھی نہیں بنایا۔ جس مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اتنی تقریریں کی جاتی ہیں۔ ان کی کرپشن کا بھی بہت چرچا کیا جاتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف خیبر پختوانخواہ میں مولانا کی کرپشن کا بھی ایک کیس سامنے نہیں لا سکی ہے۔ اس سے میں کیا سمجھوں کہ عمران خان کرپشن کے خلاف مہم میں کوئی سنجیدہ نہیں ہیں، صرف سیاسی نعرہ کے طور پر اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اسی ضمن میں ایک مثال اور بھی ہے کہ خود عمران خان نے اپنی جماعت کے درجن سے زیادہ اراکین اسمبلی کے خلاف یہ الزام لگایا کہ انھوں نے سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ بیچے ہیں۔ عمران خان نے یہ اعلان بھی کیاکہ ان کے پاس ارکان کے شواہد موجود ہیں۔ اسی لیے ان کو شوکاز دیے جا رہے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کے پاس واقعی ان ارکان کے ووٹ بیچنے اور پیسے لینے کے کوئی ثبوت تھے تو تحریک انصاف نے ان ارکان کے خلاف نیب کو درخواست کیوں نہیں دی۔ مان لیا کہ خیبر پختونخواہ کے احتساب کمیشن کو تالہ لگا ہو اتھا۔ لیکن نیب تو کام کر رہا ہے۔ احتساب کے باقی ادارے تو کام کر رہے ہیں۔ کیوں ان ارکان کے خلاف سپریم کورٹ میں 62 (1) Fکے تحت نا اہلی کے ریفرنس دائر نہیں کیے گئے۔

ایک پریس کانفرنس اور پھر خاموشی۔ میں ایسا کیوں نہ سمجھوں کہ تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کے اندر بغاوت ہو چکی تھی ۔یہ حکومت اتحادیوں کے سہارے چلائی گئی ہے۔ اس لیے انتخابات سے چند ماہ قبل جب ضرورت ختم ہو گئی ۔ان ارکان کو گندا کر کے نکال دیا گیا۔ جیسے کے سیاست میں جانے و الوں کو گندا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان ارکان کو گندا کر دیا گیا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے پاس ان ارکان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی نہ کرنے کی کیا وجہ ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف تو اچھل اچھل کر عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے خلاف چپ سادھ لی۔ یہ بھی کوئی مک مکا تھا۔ یا بس ڈیزائن میں ان کو گندا کرنا ہی مقصود تھا۔ اس سے آگے ضرورت نہیں تھی اس لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

میں کیسے یہ مان لوں کہ پانچ سال میں تحریک انصاف کی حکومت کو خیبر پختونخواہ میں کرپشن کا ایک کیس بھی نہیں ملا۔ جس کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا۔آپ دیکھ لیں کہ 2013میں عمران خان نے شیر پاؤ کی جماعت کو حکومت سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ ان کے وزرا کرپٹ ہیں۔ دو وزرا پر کرپشن کا الزام بھی لگا دیا گیا۔لیکن کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔ بلکہ دو سال بعد جب تحریک انصاف کی عددی اکثریت اتنی کم ہو گئی کہ حکومت گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تو اسی شیر پاؤ کو دوبارہ گلے لگا لیا۔ انھیں دوبارہ حکومت میں شامل کر لیا گیا۔

یہ بھی ویسے عمران خان کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے پہلے شیر پاؤ کی جماعت کو کرپشن کا بہانہ بنا کر حکومت سے نکال دیا اور پھر ضرورت پڑ نے پر دوبارہ گلے لگا لیا۔ اور اہم وزارتیں بھی دے دیں۔ کرپشن کے خلاف اس قدر موثر تحریک میں نے پہلے نہیں دیکھی۔ ایسا صرف تحریک انصاف میں ہی ممکن ہے۔

تحریک انصاف نے خود 2013میں تسلیم کیا کہ ان کی جماعت میں ٹکٹوں کی خریدو فروخت ہوئی ہے۔ لیکن دیکھ لیں کسی ایک کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بھائی جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے پیسے دیے اور جنہوں نے لیے د ونوں کو قانون کے حوالے کرنا کیا تحریک انصاف کی ذمے داری نہیں تھی۔ اس سکینڈل پر بھی بس مٹی ڈال دی گئی۔

اسی طرح تحریک انصاف کے اندر پارٹی انتخابات میں بھی ووٹوں کی خریدو فروخت کی داستانیں عام ہوئیں۔ ثبوت بھی سامنے ا ٓئے۔ لیکن اس پر بھی مٹی ڈال دی گئی۔ایک طرف عمران خان کا موقف ہے کہ نا اہلی کے بعد نواز شریف کو سیاست کا کوئی حق نہیں لیکن وہی حق جہانگیر ترین کو بہت شان و شوکت سے دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ وہ بھی نا اہل ہیں۔ لیکن بنی گالہ کو ہر راستہ ترین ہاؤس سے ہی گزر کر جاتا ہے۔

آج دیکھ لیں عمران خان نے الیکشن جیتنے کے لیے تمام انتخابی گدھے گھوڑے اکٹھے کر لیے ہیں۔ ان میں سے اکثر داغدار ہیں۔ ان پر الزامات بھی ہیں۔ نیب میں انکوائریاں بھی ہیں۔ لیکن چونکہ وہ تحریک انصاف میں آگئے ہیں اس لیے وہ ڈرائی کلین ہو گئے ہیں۔ اس لیے کیا عمران خان کے کرپشن ختم کرنے کے نعرہ کی بنیاد پر عمران خان کوووٹ دے دینا چاہیے۔

یہ ایک سوال میرے ذہن میں ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ عمران خان ضرورت کے تحت کرپشن کے نعرہ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور بعد میں اس سے انحراف بھی کر لیتے ہیں۔ کرپشن کا یہ نعرہ بھی ایک سیاسی نعرہ ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔