بلاول، لیاری اور محرومیاں (آخری حصہ)

شبیر احمد ارمان  بدھ 11 جولائی 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پہلے سیاسی رہنما تھے جنھوں نے لیاری والوں کی عزت نفس کا احترام کرتے ہوئے انھیں اہمیت دی اور انھیں ساتھ لے کر چلے اور لیاری والوں کو اپنا لاڈلا قرار دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیڈ اے بھٹو نے لیاری کے غریب عوام کو اپنے سحر میں اس قدر جکڑ لیا تھا کہ ایک اشارے پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے تھے۔

مجھے وہ دن یاد ہے جب بھٹو کراچی ایئرپورٹ سے سہ پہر تین بجے ککری گراؤنڈ لیاری میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے چلے تھے اور رات تین بجے چاکیواڑہ چوک پہنچے تھے۔ یہ 1977 کی بات ہے، لوگ ڈھول اور لیوا پر رقصاں تھے، ان میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، لیاری کے لوگ نہ صرف خوشیوں میں پی پی پی کے ساتھ رہے ہیں بلکہ برے وقتوں میں بھی انھوں نے قربانیاں دی ہیں۔

لیاری کے بلوچ قبائل نے پی پی پی کے نام پر بہت آنسو گیس کے شیل برداشت کیے مظالم سہے۔ لیاری کی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کو آج بھی وہ دن یاد ہیں جب پولیس والوں نے گھروں کے دروازے توڑ کر بلوچ خواتین کو ہراساں کیا تھا، لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے آگے سرنگوں ہونے کو کوئی تیار نہ تھا اور بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد لیاری مارشل لاء کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا تھا۔

14اگست 1986 کو جب محترمہ بینظیر بھٹو پولیس سے بچتی ہوئی چاکیواڑہ ٹرام پٹہ (موجودہ بلوچ چوک) پہنچیں اور مجمع سے خطاب کرنا چاہا تھا کہ اس دوران پولیس نے مجمع پر آنسو گیس کے گولے پھینکنے شروع کردیے، لیاری کے لوگوں نے جس انداز سے محترمہ بینظیر بھٹو کی حفاظت کی، اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ جب بھی عام انتخابات ہوئے لیاری کے لوگوں نے پی پی پی کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ انھی حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگاروں نے لیاری کو پی پی پی کا سیاسی گڑھ قرار دیا تھا، لیکن لیاری والوں کو پی پی پی سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ وقت نے غلط ثابت کردیں، ان تمام قربانیوں کے عوض لیاری والوں کو کیا ملا؟

لیاری کے دل جلے لوگوں کا کہنا ہے کہ لیاری کے لوگوں کو روٹی کے بدلے گولی، کپڑے کے بدلے کفن اور مکان کے بدلے قبر ملی ہے۔ پی پی پی کو 4 اگست 1991کو پہلی مرتبہ لیاری کے حوالے سے اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب پی ڈی اے کی کال پر عام بھوک ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ یہ بھوک ہڑتال تغلق ہاؤس اور سندھ ہائی کورٹ بلڈنگ کے درمیان چورنگی (موجودہ کبوتر چورنگی) پر کی گئی تھی۔

پی پی پی کے مرکزی قائدین کو سو فیصد یقین تھا کہ لیاری سے بھاری تعداد میں لوگ اس بھوک ہڑتال میں شریک ہوں گے، جام صادق علی کی صوبائی حکومت نے لیاری بھر میں سرکاری اہلکاروں اور بکتر بند گاڑیوں کا جال بچھایا دیا تھا لیکن لیاری والوں نے نہ پی پی پی کی عام بھوک ہڑتال کی کال پر دلچسپی لی اور نہ ہی حکومت سندھ کی حکمت عملی پر توجہ دی۔ پی پی پی کو لیاری میں دوسری مایوسی اس وقت ہوئی جب 3 دسمبر 1992 کو پی ڈی اے کا جلسہ عام نشتر پارک میں منعقد ہوا تھا، اس جلسہ عام میں لیاری کے لوگوں نے ماضی کے برعکس کم تعداد میں شرکت کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس جلوس کی قیادت محترمہ بینظیر بھٹو کو کرنی تھی لیکن سیکیورٹی حالات کی وجہ سے وہ نہ آسکی تھیں اور جلسہ گاہ میں بھی دیر سے پہنچی تھیں، جس پر لیاری کے بہت سے لوگ خطاب سنے بغیر اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔

پی پی پی کو لیاری میں اس وقت بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ملک بھر میں پی ڈی اے نے عام ہڑتال کی کال دی تھی، اس روز لیاری کے لوگوں نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ 31 دسمبر 1996 کو جب بینظیر بھٹو نے لیاری کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تو اس وقت بمشکل ان کے ساتھ سو افراد تھے، جو کارکنوں پر مشتمل تھا، محترمہ بینظیر بھٹو کا یہ دورہ لیاری کا ناکام ترین دورہ تھا۔

نوے کی دہائی میں جب آصف علی زرداری بحیثیت وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی لیاری میں واقع پارک، بھیا باغ (موجودہ مولوی عثمان پارک) رانگی واڑہ میں تقریر کرنے آئے تو لیاری کے پیاسے باشندوں نے ان کا استقبال خالی مٹکوں سے کیا اور بعض لوگوں نے انھیں دوران تقریر کنکر بھی مارے، وہ بمشکل تین منٹ تقریر کرسکے، بعد ازاں انھیں جلسہ گاہ سے واپس جانا پڑا۔ اس روز کے بعد آصف علی زرداری نے لیاری کا رخ نہیں کیا۔

لیاری میں پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے کے افتتاح سے ایک دن قبل 2 جولائی 1996 کی شب لیاری کے مولوی عثمان پارک میں پی پی پی کی جانب سے جشن آب منایا گیا، لاکھوں روپے کی آتش بازی کا مظاہرہ جاری تھا کہ اچانک مولوی پارک میں شریک لیڈروں پر کنکریوں کی بارش شروع ہوگئی اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سابق مشیر عبدالرحیم بلوچ کی کار کنکریوں کی زد میں آگئی، اس وقت مقامی انتظامیہ نے اپنے دفاع میں ہوائی فائرنگ بھی کی، مظاہرہ میں بھگدڑ مچ جانے کی وجہ سے بہت سے لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

قبل ازیں جب اسی سلسلے میں شام کے وقت پی پی پی کی جانب سے ایک ٹرالر پر موسیقی کے تمام لوازمات کو سجا کر مقامی یونٹ کے عہدے داروں و کارکنوں نے پی پی پی کا ترانہ بجایا تو سلاٹر یارڈ روڈ پر لوگوں نے اس پر پتھراؤ کیا تھا۔ ککری گراؤنڈ میں اس وقت کی وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو کے جلسہ عام کے دوران جب لیاری کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے خطاب کیا تو جلسہ عام میں موجود چند سو افراد نے ’’جھوٹ، جھوٹ‘‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کیے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر حال ہی میں لیاری کے علاقے ہنگورہ آباد میں ناراض لوگوں نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا پی پی پی قیادت سے ناراضی کا اظہار پہلا واقعہ نہیں ہے۔

لیاری کے لوگ ایک عرصے سے پینے کے پانی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ لیاری میں قلت آب کا مسئلہ دیرینہ اور پیچیدہ رہا ہے، اس ضمن میں اب تک کروڑوں روپے کی لاگت سے پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ہیں، لیکن لیاری کے لوگ ابھی تک زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں، یعنی پانی زندگی ہے اور واٹر بورڈ کی جانب سے فراہم کردہ پانی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب میں انتہائی کم ہے۔

واٹر بورڈ کی جانب سے لیاری کو کم از کم 30 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جانا چاہیے، جب کہ واٹر بورڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت لیاری کو 13 تا 14 ایم جی ڈی پانی فراہم کررہا ہے۔ مگر پانی کے غیر قانونی کنکشنوں کی بھرمار کی وجہ سے لیاری کو بمشکل 8 تا 10 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے، جو لیاری کی ضروریات سے انتہائی کم ہے۔ لیاری میں ماضی کی نسبت سیوریج کا مسئلہ گمبھیر نہیں ہے، لیکن اب بھی ایسے محلے ہیں جہاں گٹر ابلتے رہتے ہیں۔ لیاری سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔

یہاں پمپنگ کے ذریعے پانی کی نکاسی کی جاتی ہے لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشنوں کی موٹر بند ہوجانے کی وجہ سے علاقے کے مین ہولز بھر جاتے ہیں اور گندا پانی گلیوں میں پھیل جاتا ہے، جس سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیاری کی حدود میں واقع بڑے برساتی نالے سیوریج نالوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، ان میں مچھر مکھیوں کی افزائش ہوتی رہتی ہے، جو وبائی امراض پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی میں ان نالوں میں بچوں کے گرنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ یہ تمام مسائل اپنے حل کے متقاضی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔