ترکی بہ ترکی، ایک منفرد سفر نامہ

سعد اللہ جان برق  بدھ 11 جولائی 2018
barq@email.com

[email protected]

کوئی سفر نامہ پڑھتے ہوئے ہمیں دوہری خوشی ہوتی ہے ایک تو اس سے جو سفر نامے کے اندر ہوتا ہے ایک اس سے جو سفر نامے کے اندر نہیں بلکہ ہمارے اندر ہوتا ہے، کیونکہ ایک زمانے سے ہم کسی ’’اچھے اور مرغن‘‘ سے سفر کی تمنائی ہیں اور یہ ’’تمنا‘‘ ہمارے اندر ’’اپنی اوریجنل‘‘ نہیں تھی ہم تو اس کے قائل تھے کہ

نحیف و زار ہیں کیا زور باغباں پر چلے

جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح

بلکہ ’’جہاں اگا دیا‘‘ ہم وہیں پر قانع تھے۔ لیکن جب اپنے کنوئیں سے نکل کر کالم نگاری کے سمندر میں آئے تو بڑ ا دکھ ہوا جب ہم اپنے ہم سر و ہم قلم و ہم پیشہ کالموں میں دیکھتے تھے کہ نہ جانے کہاں سے ان کو دعوتیں آتی ہیں اور وہ مفت میں دنیا بھر کی سیاحی کرتے پھرتے ہیں اور پھر ہمیں جلانے کے لیے کچھ زیادہ ہی نمک مرچ بلکہ ساتھ میں چینی اور شہد بھی ڈال کر اپنے سفر نامے لکھتے ہیں جو ہمارے لیے سفر ناموں سے کم دل آزار نہیں ہوتے وہ وہ واقعات و حادثات اورمدارت چبا چبا کر ہمیں للچاتے ہیں کہ جی جانتا ہے۔

پہلے تو ہمیں غصہ آتا تھا ان پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر کہ ہم نے اپنے اندر اتنی سی ’’کشش‘‘ پیدا نہیں کی کہ کوئی چیچوں کی ملیاں، چھانگا مانگا اور بانڈہ ٹانڈا تک سے اس طرح بلائے اور ہم بھی ایک عدد سفر نامہ لکھنے کے قابل ہو جائیں۔

لیکن پھر ہم نے قہر درویش کو بر دوش درویش کرنے کی خاطر ان سفر ناموں کو پڑھ پڑھ کر جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کیے۔ کرنا صرف یہ ہوتا کہ سفر نامہ لکھنے والے کو کک آئوٹ کرکے اس کی جگہ خود لے لیتے تھے اور دنیا جہاں کے ’’باعزت و با خرچہ‘‘ دعوت ناموں، وہاں کی قدر دانیوں اور سفر کے دوران ایرہوسٹسوں، ہوٹل کی ویٹرسوں اور ہر راہ گزر میں بکھری ہوئی ’’یلایلیوں‘‘ سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ اب اتنے کافر بھی تو نہیں کہ روزہ نہ رکھ سکھیں تو افطار بھی نہ کریں۔

سو ہم آج کل بغیر روزے کی افطاریوں عرف سفر ناموں ہی سے گزارہ کرتے ہیں اور اسی سلسلے میں اب ہمارے سامنے ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم کا سفر نامہ ٔ ترکی۔ بنام ’’ترکی بہ ترکی‘‘ پڑا ہے بلکہ ہم نے پڑھ لیا ہے، اگر چہ اس میں وہ ترکیاں بہت کم اور نہ ہونے کے برابر ہیں جنھیں پرانے زمانے کے شعرا اپنے شعروں میں استعمال کرتے تھے۔

نام تو اس سفر نامے کا ’’ترکی بہ ترکی‘‘ ہے لیکن چونکہ یہ سفر پاکستان سے ترکی تک بائی روڈ یعنی بس کے ذریعے کیا گیا ہے اس لیے قاری کو بھی وہ اپنے ساتھ بس میں بٹھا کر سیر کرواتے ہیں خاص طور پر ایران کی سیر تو جھونگے میں ہو جاتی ہے۔ جہاں تاریخ کی ایک ایسی ہستی نے جنم لیا جو بقول علامہ ابن خلدون کبھی کبھی پیدا ہوتی ہے اور ان کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ پورے معاشرے کی کایا پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔

آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ ایران کا معاشرہ جو شاہ کے وقت بے راہ روئی ننگے پن اور عیاشی و فحاشی سے ناک تک بھر ا ہوا تھا۔ جہاں اسقاط حمل اور جنسی ملاپ معمول ہو گیا تھا سینمائوں میں ایسی فلمیں دکھائی جاتی تھیں جن کو مغرب والے بھی شرفا کے دیکھنے کی چیز نہیں سمجھتے صرف خاص خاص مرلفیانہ ذھن کے لوگ ہی ان کو دیکھتے۔ درسگاہیں تعلیم سے زیادہ عیاشی کے اڈے بن گئے تھے۔

اور اس لیے کہ اس شاہی اور شخصی بربریت کی طرف توجہ نہ جائے جو شاہی کا رندوں کے ہاتھوں وسیع پیمانے ہوتی تھی۔ انسانوں کو تھوک کے حساب سے گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا تھا۔ صرف ایک جرم کے علاوہ اور کوئی جرم نہیں تھا اور وہ جرم شاہ اور اس کے مظالم کے خلاف اف کرنے کا تھا۔ لیکن ایک شخص نے جس کی عمر 78سال کی ہو چکی تھی وہ سب کچھ اتنی جلدی بدل ڈالا کہ حیرت ہوتی ہے۔ کسی پر زور اور پریشر دریا کو ایک دم الٹی سمت بہانا کسی معمولی ہستی کا کام تو ہو نہیں سکتا۔

بہر حال ہم جیسے عظیم ہستیوں سے محروم اور منتظر ایسا کچھ دیکھ کر انگشت بدندان کیوں نہ ہو اور اپنی اس بدقسمتی پر کیوں نہ روئیں ۔

رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان

پتہ نہیں اس قسم کی کایا پلٹ ہستیاں اپنے ہاں کیوں نہیں پیدا ہوئیں شاید ابھی حالات کا ’’پارہ‘‘ اس مقام تک نہ پہنچا ہو۔

ڈاکٹر صاحب کے اس سفر نامے کی سب سے خاص بلکہ خاص الخاص بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے صرف ’’جسم‘‘ نے سفر نہیں کیا ہے۔

بلکہ دل بھی وہ اپنے ساتھ لے گئے جو اندرونی سفر یعنی سفر در سفر کے لیے ضروری ہوتا ہے ورنہ یوں تو ہر جگہ یہی زمین ہوتی ہیں آسمان ہوتا اور انسان کا بچہ بھی ہر جگہ ہوتا ہے۔ باہر سے کتنا ہی کیوں نہ بدل جائے اندر ایک جیسا ہوتا ہے ۔

سفر بھی بہت سارے لوگ کرتے ہیں اور خاص طور پر پاکستان میں تو سرکاری خرچے پر مفت کے سفر بہت زیادہ ہوتے ہیں پھر اس پر ڈرائنگ رومی، فائیو اسٹاری اور وی آئی پی قسم کے سفر نامے بھی لکھے جاتے ہیں لیکن اعجاز تبسم کا سفر نامہ ان سب سے الگ قسم کا ہے یعنی صرف جسمانی سفر نامہ نہیں بلکہ اندرون کا سفر نامہ بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔