کیا زن مرید ہونا کوئی عیب ہے؟

میاں جمشید  بدھ 11 جولائی 2018
ہماری شادی چاہے اپنی ذاتی پسند سے  ہو یا فیملی کی پسند کی، میاں بیوی کا رشتہ آخر کار محبت میں بندھ ہی جاتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہماری شادی چاہے اپنی ذاتی پسند سے ہو یا فیملی کی پسند کی، میاں بیوی کا رشتہ آخر کار محبت میں بندھ ہی جاتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اگر میں روز شام کو کام سے آ کر یا کسی چھٹی والے دن اپنی بیوی کے پاؤں دباؤں، اس کے سر پر مالش کروں، سچی محبت کی نیت سے یا پھر اس خیال سے کہ وہ سارا دن گھر رہ کر بے شمار کام کرتی ہے، فیملی میں سب کا خیال رکھتی ہے، یا کہ وہ بھی جاب کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ گھر بھار پر بھی پوری توجہ دیتی ہے، سو وہ بھی تھک جاتی ہے، اس کا بھی من کرتا ہے کہ اس کی تھکی ٹانگوں و ہاتھوں کو دبایا جائے، سر پر تیل لگے نرم ہاتھوں سے مالش کی جائے۔ تو پھر مجھ جیسے شوہر کا ایسا کرنا غلط ہے؟ اتنا برا ہے کہ کوئی دیکھے تو فوری زن مرید کا خطاب دے؟

یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اپنے بڑوں کو ایسا کرتے نہیں دیکھا یا بہت کم نظر آیا کہ کسی نے اپنی بیوی کے جائز محبتانا نخرے اٹھائے ہوں، ورنہ طبیعت میں سخت مزاجی ہی دیکھی۔ سب کے سامنے شرارتیں کرنے یا ہنسنے کو عیب ہی سمجھا۔ تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان کا ایسا رویہ رکھنا اچھا تھا؟ بیوی کو اتنی حد میں رکھنا کہ ایسا سب کرنا گناہ لگے؟ نہیں جناب! آپ کا نظریہ آپ کو مبارک ہو۔ اگر پچھلوں کو اور آج کل کے ایسے پسماندہ ذہنوں کو لگتا ہے کہ بیوی کو صرف اچھے کپڑے، کھانے، زیور وغیرہ ہی کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ، سب کے سامنے پیار سےبات کرنا، ہنسنا، کھیلنا بری باتیں ہیں تو اس سوچ کو بہت پہلے ہی بدل لینا چاہیے تھا صاحب! کہ زمانے کے انداز بدلے گئے…

مجھے اس بات کا بھرپور یقین ہے کہ ایک بیوی بھرپور محبت مانگتی ہے۔ صرف خاص لمحات کے علاوہ بھی وہ سراہے جانے والا لمس چاہتی ہے۔ آپ کی قربت کا احساس صرف بند کمرے میں ہی نہیں بلکہ سب کے سامنے چاہتی ہے؛ تاکہ وہ آپ کے ساتھ تعلق پر فخر کر سکے۔ وہ چاہتی ہے کہ آپ سب کے سامنے اس کے ساتھ کھلکھلا کر ہنسیں، شرارتیں کریں، اس کا سر دبائیں، پاؤں دبائیں۔ اس کا ہرگز مطلب تھلے لگا کر رکھنا نہیں ہوتا، بس محبت کی اس سرشاری کو محسوس کرنا ہوتا ہے، جو اس کے وجود میں بھری ہوتی ہے۔

ہماری شادی چاہے اپنی ذاتی پسند سے  ہو یا فیملی کی پسند کی، میاں بیوی کا رشتہ آخر کار محبت میں بندھ ہی جاتا ہے۔ جو پھر اظہار مانگتا ہے، سراہا جانا چاہتا ہے، جس میں کسی وقت کی قید نہ ہو، کسی کے سامنے ہونے کا ڈر نہ ہو۔ میں اگر بیوی کے ساتھ مل کر سبزی بنواؤں، کپڑے دھلواؤں، بچوں کو فیڈر بنا کر دوں یا بیوی کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھپن چھپائی کھیلوں، اس کو اپنے ہاتھوں میں اٹھاؤں، یا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں، پانی پلاؤں، اس کے سر پر کنگھی کروں تو خدارا سمجھیے کہ میرا ایسا کرنا زن مریدی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہے بھی تو ٹھیک ہے سر، پھر ایسا ہی سہی، آپ کی مرضی اور آپ کا ظرف، آپ جو سوچیں اور جیسا سمجھیں۔

تو صاحبو، میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ اپنی بیوی کے لیے فخر بنوں، اس کا مان بنوں کہ اس کا شوہر اتنا پیار کرتا ہے کہ کسی کی پروا ہی نہیں کرتا۔ میں جب سب کے سامنے اپنی والدہ یا بہنوں کے لیے محبتانا کلام کر سکتا ہوں، ان کو ساتھ بِٹھا کر، لپٹا کر، لاڈ سے چومتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے بہت عزیز اور پیاری ہو، تو ٹھیک اسی طرح میں سب کے سامنے اپنی منکوحہ، شرعی بیوی اور شریک حیات کے سر پر مالش کرتے، ذرا دیر کو رکتے، اس کی پیشانی پر بوسہ دینے اور یہ کہنے کو بالکل عار نہیں سمجھتا کہ تم میری خوبصورت و پیاری بیوی ہو۔ آئی لو یو جان۔ یقین مانیے نہ ہی یہ کوئی بے حیائی ہے نہ ہی زن مریدی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

اور ہاں! اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں زیادہ ہی فلمی ہو گیا ہوں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے، یہی سب آج کل کے ڈراموں، فلموں، گانوں میں دکھایا جا رہا ہے، افسانوں و کہانیوں میں لکھا جا رہا ہے۔ تو ان سب کا مجھ پر یا بیوی کے خیالات و جذبات پر اثر نہ ہو؟ کیا سب واقعی غلط ہے؟ کیا سب حقیقت سے دور ہے؟ شاید آپ کا جواب ناں ہی ہو، مگر زن مرید کا لقب سننا آپ کو گوارا نہیں کرتا، اس لیے چپ ہی بھلی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں جمشید

میاں جمشید

بلاگر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری کے ساتھ مختلف معاشرتی موضوعات پر اصلاحی اور حوصلہ افزا مضامین لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی jamshades پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔