اسلام آباد چیمبر کوحکومتی قرضوں میں اضافے پرتشویش

وقائع نگار خصوصی  بدھ 11 جولائی 2018
حکومت ترجیحات بدلے،کاروباری سرگرمیوں کوفروغ،آمدن میں اضافہ کیاجائے،عہدیدار۔ فوٹو: فائل

حکومت ترجیحات بدلے،کاروباری سرگرمیوں کوفروغ،آمدن میں اضافہ کیاجائے،عہدیدار۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عامر وحید نے حکومتی قرضوں میں11ماہ کے اندر14.49فیصد اضافے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قرضوں کا بوجھ بڑھنے سے عوام کے لیے متعدد مسائل پیدا ہوں گے اور معیشت کمزور ہو گی۔

اسٹیٹ بینک کے ڈیٹاکے مطابق جولائی سے مئی تک مرکزی حکومت کا قرضہ بڑھ کر 23.7کھرب روپے تک پہنچ گیا جبکہ 30جون 2017کو یہ 20.7 کھرب روپے تھا، قرضوں میں اضافہ تشویشناک ہے، حکومت معیشت کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے قرضوں پر انحصار کم سے کم کرے اور ملکی ذرائع آمدن کو بہتر کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔

شیخ عامر وحید نے کہا کہ مارچ 2018تک پاکستان کا بیرونی قرضہ بڑھ کر91.8ڈالر ارب ہو گیا تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی ذرائع آمدن پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے ہماری حکومتیں ملک کا نظام چلانے کے لیے قرضوں پر زیادہ انحصار کرتی رہی ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں کیونکہ قرضوں میں اضافے سے قومی خزانے پر دبائو بڑھے گا۔

انہوں نے زور دیا کہ بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے فوری طور پر جامع حکمت عملی وضع کی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو مسائل سے بچایا جا سکے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ 5 سال کے دوران بیرونی قرضوں میں 50فیصد سے زائد اضافہ ہوا، اس سے لگتا ہے کہ ملک خطرناک حد تک قرضوں کے جال میں پھنستا جا رہا ہے، اگر یہی رجحان جاری رہا تو جلد ہی ملک کا بیرونی قرضہ 100ڈالر سے تجاوز کر جائے گا جس سے مستقبل میں قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے ملکی وسائل پر مزید بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے اور ملک کا نظام چلانے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرے۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر محمد نوید ملک اور نائب صدر نثار مرزا نے کہا کہ قرضوں پر انحصار کے بجائے حکومت کاروباری سرگرمیوں و برآمدات کو فروغ دینے اور ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے پر زیادہ توجہ دے، ملکی وسائل میں اضافہ کر کے ہی ملک بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے، حکومت کاروباری طبقے اور برآمدی شعبے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔