ڈیم یوں نہیں بنیں گے

جاوید چوہدری  جمعرات 12 جولائی 2018
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

نانگا پربت پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا نواںبلند ترین پہاڑ ہے‘ کوہ پیما اسے کلر ماؤنٹین بھی کہتے ہیں‘ یہ قاتل پہاڑ گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں واقع ہے‘ نانگا پربت کے دامن میں فیری میڈوز جیسی خوبصورت وادی ہے اور اس وادی سے نیچے چلاس اور چلاس سے 41 کلومیٹر کے فاصلے پر بھاشا گاؤں آباد ہے ‘ نانگا پربت کے گلیشیئرز سے درجنوں ندیاں نکلتی ہیں‘ یہ بھاشا کے قریب پہنچ کر دریائے سندھ میں گر جاتی ہیں‘ جنرل پرویز مشرف نے 2006ء میں یہاں بھاشا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا‘ وزیراعظم شوکت عزیز نے 2007ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ ڈیم نئی حکومت کو ترکے میں مل گیا۔

اس دوران ضلع کوہستان اور ضلع دیامیر میں ڈیم کی ملکیت پر جھگڑا ہو گیا‘ بھاشا کوہستان میں تھا اور پانی دیامیر سے آتا تھا لہٰذا جھگڑا جائز تھا‘ حکومت نے تنازعہ نبٹانے کے لیے ڈیم کا نام ’’دیامیر بھاشا‘‘ رکھ دیا‘ یوسف رضا گیلانی نے بھی اکتوبر 2011ء میں ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا‘ میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو انھوں نے بھی دو وزراء اعظم کے سنگ بنیاد کے اوپر سنگ بنیاد رکھ دیامگر تین سنگ بنیادوں کے باوجود یہ ڈیم نہ بن سکا‘ یہ 2016ء میں مکمل ہونا تھا لیکن قوم کے دس سال اور اربوں روپے ضایع ہونے کے باوجود یہ نہ بن سکا ‘ ان دس برسوں میں ڈیم کی لاگت 395ارب روپے سے 928 ارب روپے ہو گئی اور پراجیکٹ مشکل ہوگیا‘ یہ ڈیم اگر بن جائے تو پاکستان کو چار فائدے ہوں گے۔

نانگا پربت کے گلیشیئرز سے ہر سال 50 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے‘ یہ ڈیم ساڑھے چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر کے باقی پانی دریائے سندھ میں گرا دے گا‘دو‘ ڈیم کے پانی سے ڈیرہ اسماعیل خان کا چھ لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہو گا‘ خوراک میں اضافہ ہو جائے گا‘تین‘ ڈیم سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی اور چوتھا فائدہ ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب وسیع پیمانے پر تباہی مچاتے ہیں‘ ڈیم کی وجہ سے اس تباہی میں بھی کمی آجائے گی۔

یہ ڈیم انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے‘ یہ 270 میٹر بلند ہو گا اور یہ 110 مربع کلومیٹر پر محیط ہوگا یوں یہ دنیا کا بلند ترین آرسی سی ڈیم ہو گا‘ یہ تربیلا ڈیم سے 315 میٹر اوپر‘ گلگت سے 165 کلومیٹر نیچے اور چلاس سے 40 کلومیٹر دور ہوگا‘ یہ پانچ سو کلو میٹر کے دائرے میں رہنے والے لوگوں کو روزگار اور سماجی فائدے پہنچائے گا‘ ہم اب منڈا ڈیم (مہمند ڈیم) کی طرف آتے ہیں‘ یہ ڈیم مہمند ایجنسی میں دریائے سوات پر تعمیر ہونا تھا‘ فیزیبلٹی بیس سال پہلے تیار ہوئی لیکن یہ بھی آج تک نہیں بن سکا‘ دریائے سوات میں ہر سال سیلاب آتا ہے‘ یہ سیلاب پاکستان میں تباہی مچا دیتا ہے‘ آپ کو2010ء کا سیلاب یاد ہوگا‘ اس سیلاب نے سوات‘ چار سدہ اور نوشہرہ میں تباہی مچا دی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے اگر یہ ڈیم بن گیا ہوتا تو یہ تمام علاقے بربادی سے بچ جاتے‘ منڈا ڈیم بھی آٹھ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا‘ 17 ہزار ایکڑ زمین سیراب کرے گا‘ وسیع علاقے کو سیلاب سے بچائے گا اور یہ بھی علاقے کو روزگار اور خوش حالی دے گا‘ ڈیم مہمند ایجنسی کی تحصیل پڑانگ غار میں تعمیر ہوگا‘ یہاں 2010ء تک ایک بڑا ہیڈورکس ہوتا تھا‘ ہیڈ ورکس سے نہریں نکل کر چارسدہ‘ مردان اور شبقدر کو سیراب کرتی تھیں لیکن 2010ء کے سیلاب نے یہ ہیڈورکس بھی اڑا دیا یوں پورا علاقہ بنجر ہو گیا‘ منڈا ڈیم کی تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کو ہر سال 55 ارب روپے نقصان ہوتا ہے۔

پاکستان اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے‘ قیام پاکستان کے وقت ہمارے ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی ہوتا تھا‘ یہ اب ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے ‘ یہ 2025ء میں 8 سو کیوبک میٹر ہو جائے گا‘ہم 1990ء میں ان ملکوں  میں شامل ہوگئے تھے جن میں آبادی زیادہ اور پانی کم تھا‘ ہم نے وارننگ کو سیریس نہ لیا چنانچہ ہم 2005ء میں پانی کی قلت کے شکار ملکوں میں آ گئے‘ ہم اس وقت بھی سیریس نہ ہوئے‘ ہم اب قلت آب کے شکار پہلے تین ملکوں میں شامل ہو چکے ہیں لیکن ہم آج بھی سیریس نہیں ہیں‘یہ حالات اگر جاری رہے تو ہم 2025ء میں قحط کے دروازے پر کھڑے ہوجائیں گے‘ ہمارے دس بڑے شہروں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

کراچی اور لاہور کے لوگ پانی پانی کرتے پھر رہے ہیں‘ اسلام آباد کے شہریوں کو بھی ضرورت سے 60 فیصد کم پانی مل رہا ہے‘ زیر زمین پانی کا لیول بھی گر چکا ہے‘ ندیاں نالے بھی سوکھ چکے ہیں اور دریاؤں کی گزرگاہوں میں بھی ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں‘ آپ المیہ دیکھئے ہم ایک طرف پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہیں اور دوسری طرف ہر سال مون سون میں آدھا ملک سیلاب میں ڈوب جاتا ہے‘ ہم خشک سالی سے بھی مرتے ہیں اور ڈوب کر بھی‘ حکومتوں کو اس صورتحال پر توجہ دینی چاہیے تھی لیکن پانی آج تک کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ ہو سکا چنانچہ ملک قحط کے دہانے پر کھڑا ہو گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے 4 جولائی کو ’’اینی شیٹو‘‘ لیا‘ پانی اور ڈیمز کا بیڑہ اٹھایا اور کام بھی شروع کر دیا‘ چیف جسٹس نے ڈیمز اکاؤنٹس کھلوائے‘ اپنی طرف سے دس لاکھ روپے جمع کرائے اور پھر قوم سے چندے کی درخواست کر دی‘ یہ قدم خوش آیند ہے‘ ملک میں آخر کسی نہ کسی شخصیت نے تو یہ بھاری پتھر اٹھانا تھا‘ قدرت نے یہ سہرا چیف جسٹس کے ماتھے پر باندھ دیا‘ یہ خوش نصیبی کی بات ہے۔

چیف جسٹس اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہماری سپریم کورٹ دنیا میں ڈیم بنانے والی پہلی سپریم کورٹ ہو گی‘ یہ دونوں ڈیم اگر چندے سے بن جاتے ہیں توبھی یہ چندے سے تعمیر ہونے والے پہلے ڈیم ہوں گے لیکن یہ کام آسان نہیں‘ ڈیم مہنگے بھی ہوتے ہیں‘ ٹیکنیکل بھی اور یہ تعمیر میں وقت بھی لیتے ہیں اور ظاہر ہے یہ عدالتوں کے بس کی بات نہیں لیکن ہم اس کے باوجود فرض کرلیتے ہیں چیف جسٹس یہ معجزہ کر دیتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوگا کیا یہ دو ڈیم ملک کے لیے کافی ہوں گے؟ جی نہیں! دس سال بعد ملک کو دیامیر بھاشا جیسے مزید 20 ڈیموں کی ضرورت پڑ جائے گی۔

وہ ڈیم کون بنائے گا؟ کیا پھر کسی چیف جسٹس کو آگے آنا پڑے گا‘ دوسرا پانی کا مسئلہ صرف ڈیموں سے حل نہیں ہوتا‘ پانی کا استعمال ڈیموں سے زیادہ اہم ہوتا ہے‘ ہم من حیث القوم پانی ضایع کرنے والی قوم ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص صرف وضو کے دوران سو لیٹر پانی ضایع کرتا ہے‘ واش روم کے ایک فلش میں 27 لیٹر پانی ضایع ہوتا ہے‘ ہم پینے کے صاف پانی سے گاڑیاں دھوتے ہیں اور ہم پورے شہر کا سیوریج اور فیکٹری ویسٹ دریاؤں‘ نہروں اور سمندر میں پھینکتے ہیں چنانچہ ہمیں پانی کے استعمال کے لیے بھی پالیسی بنانی ہو گی‘ یورپ میں ہر شخص پانی کو تین بار استعمال کرتا ہے‘ صاف پانی استعمال کے بعد فلٹر ہو کر فلش کے ٹینک میں جاتا ہے‘ یہ وہاں سے فلٹر ہو کر لان میں جاتا ہے اور پھر وہاں سے فلٹر ہو کر ندیوں اور نالوں میں ڈالا جاتا ہے‘ ہمیں بھی شہروں میں یہ سسٹم نافذ کرنا ہوگا‘ دنیا کے مہذب ملک بارش کے پانی کو ضایع نہیں ہونے دیتے‘ ہر محلے میں بارشی پانی کی جھیلیں ہوتی ہیں‘ یہ جھیلیں پانی اسٹور کرتی ہیں۔

لوگ گھروں میں بھی ٹینکوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کرتے ہیں‘ یہ پانی بعد ازاں فلش سسٹم‘ فرش اور گاڑیاں دھونے کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ ہمیں اس کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے‘ کارپوریشنز اس وقت تک گھر کے نقشے پاس نہ کریں جب تک مالکان بارشی پانی ذخیرہ کرنے اور پانی کو تین چاربار استعمال کرنے کا سسٹم نہ بنا لیں‘ ہمیں اس کے ساتھ ڈیمز کو بھی اپنے بجٹ کا لازمی حصہ بنانا ہو گا‘ پارلیمنٹ اس وقت تک بجٹ پاس نہ کرے جب تک اس میں ڈیمز اور صاف پانی کو شامل نہ کر لیا جائے‘ حکومت سے ہر سال ڈیمز کی پراگریس بھی طلب کی جائے لیکن یہ تمام منصوبے لانگ ٹرم ہیں‘ یہ حکومتوں کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں ہیں‘ سپریم کورٹ یہ نہیں کر سکے گی تاہم چیف جسٹس دو بڑے قدم اٹھا سکتے ہیں‘ یہ قدم دیامیر بھاشا اور منڈا دونوں ڈیمز بھی بنوا دیں گے اور لوگوں میں پانی کی بچت کا شعور بھی پیدا کر دیں گے‘ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں عوام کو پانی فری ملتا ہے‘ ملک میں کسی جگہ پانی کے میٹر نہیں ہیں چنانچہ عوام بے دردی سے پانی ضایع کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ پانی کے میٹرلگانے اور پانی کی رقم وصول کرنے کا حکم جاری کر دے‘ اس سے لوگ پانی کی راشننگ پر مجبور ہوجائیں گے‘ دوسرا چیف جسٹس نے8مئی کو پٹرول پر ٹیکس کا سوموٹو نوٹس لے لیا تھا‘ یہ اس ٹیکس کا رخ ڈیمز کی طرف موڑ سکتے ہیں‘ یہ پٹرول پر فی لیٹر ایک روپیہ واٹر ٹیکس لگا دیں‘ یہ موبائل فونز پر بھی پانچ فیصدواٹر ٹیکس لگا دیں‘ اربوں روپے اکٹھے ہو جائیں گے‘ یہ اربوں روپے دیامیر بھاشا اور منڈا ڈیم پر خرچ کر دیے جائیں یوں ڈیم بھی بن جائیں گے اور سپریم کورٹ بھی چندے کی خفت سے بچ جائے گی۔

سپریم کورٹ اسی طرح پانی کے میٹروں کی آمدنی شہروں میں چھوٹی جھیلوں کی تعمیر پر خرچ کرائے‘ عدالت کا یہ حکم زیر زمین پانی کا لیول بھی بڑھا دے گا اور ہم پانی کے بحران سے بھی باہر آنا شروع کر دیں گے‘ دیامیر بھاشا کے لیے ہزار ارب روپے درکار ہیں‘ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ابھی تک صرف اڑھائی کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں‘ سپریم کورٹ اس رقم میں جتنا بھی اضافہ کر لے یہ ڈیم نہیں بنا سکے گی‘ ہمیں ڈیم کے لیے رقم چاہیے اور یہ رقم پٹرول‘ موبائل فون کارڈز اور پانی کے میٹروں سے آسانی سے حاصل ہو سکتی ہے چنانچہ میری درخواست ہے چیف جسٹس آسان راستہ چنیں‘ یہ راستہ قوم کو ڈیم تک لے جائے گا ورنہ ہم چندے جمع کرتے رہ جائیں گے اور ملک قحط کے گڑھے میں جا گرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔