بجلی سی کوئی چیز

امجد اسلام امجد  جمعرات 12 جولائی 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

غالب کا ایک شعر تقریباً ہر جگہ اس طرح سے لکھا جاتا ہے کہ

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

برادرم انور مسعود جو شاعری کے ساتھ ساتھ لسانیات اور زبان پر بھی بے مثال دسترس کے حامل ہیں‘ ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ کسی کتابت کی غلطی یا اس دور کے انداز کتابت کی وجہ سے ایسا لکھا گیا ہے جب کہ دوسرے مصرعے میں ’’برق سے‘‘ کی جگہ ’’برق سی‘‘ ہونا چاہیے کہ یوں نہ صرف شعر کے معانی فروغ پاتے ہیں بلکہ تشبیہہ کے حسن کی وجہ سے ان کا ایک واضح رخ بھی متعین ہوجاتا ہے۔ گزشتہ رات کا بیشتر حصہ آسمانی اور زمینی بجلی کے فرق‘ نوعیت اور ان سے ہماری زندگیوں کے تعلق پر ہی غور کرتے گزرا کہ ایک بار پھر لوڈشیڈنگ کے مسلسل وقفوں کے ساتھ بغیر بتائے بجلی نیم غائب ہو گئی۔

نیم غائب اس لیے کہ صرف ایک فیز آ رہا تھا اور باقی کے دو کسی نا معلوم شرم کی وجہ سے چہرہ چھپا گئے تھے۔ یو پی ایس سے متعلق فیز بھی غالباً انھی میں سے ایک تھا، سو کچھ دیر میں سارے پنکھے بھی بند ہو گئے۔ میں لاہور کے ایک پوش ایریا میں رہتا ہوں جو بظاہر ایک مراعات یافتہ علاقہ سمجھا جاتا ہے لیکن بجلی کی سپلائی کی حد تک یہ محض ایک افواہ ہے کہ بجلی سے متعلق جتنے مسائل میں نے اس گھر میں دیکھے ہیں ان کا عشر عشیر بھی زندگی کے اولین 55برسوں میں چار مختلف علاقوں میں رہائش کے دوران نہیں دیکھا، اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ لیسکو کے اعلیٰ حکام اور متعلقہ SDO صاحب تو حسب توفیق فون اٹینڈ کر لیتے ہیں اور اس ’’ناگہانی‘‘ صورت حال کی بھی کچھ نہ کچھ وضاحت کرتے ہیں جس سے بقول ان کے متاثرہ علاقہ گزر رہا ہے اور اپنی کارروائیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس سزا کی ممکنہ مدت کا بھی تعین کر دیتے ہیں لیکن جہاں تک متعلقہ دفتر کے شکایات والے فون نمبر کا معاملہ ہے‘ اس طرح کے حالات میں ہمیشہ اسے انگیج کرکے رکھ دیا جاتا ہے غالباً اسی کو انگریزی زبان میں “to add insult to injury” کہا جاتا ہے۔ متعلقہ حکام کا غیر سرکاری بیان اس ضمن میں یہ ہے کہ کچھ تو سچ مچ شکایات کے انبار کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور کچھ متاثرہ رہائشیوں کی بدکلامی اور گالی گلوچ کی وجہ سے ایسا کر دیا جاتا ہے اور یہ کہ آئے دن مشتعل لوگوں کے گروہ نہ صرف ان کے دفتر بھی حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں۔

میں ان کی اس بات سے جزوی اتفاق کرنے کے باوجود ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ میری طرح جو تقریباً 95% لوگ کبھی ایسا نہیں کرتے اور شدید فرسٹریشن کے باوجود تحمل اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں‘ ان کا کیا قصور ہے؟ عام طور پر ایسے حادثاتی شٹ ڈاؤنز کا تعلق گرڈ کے مسائل‘ تیز آندھی اور بارش‘ درختوں کے گرنے اور فیڈرز کی ٹرپنگ سے جوڑا جاتا ہے لیکن کل رات اپنے متعلقہ SDO سے گفتگو کے دوران اس خرابی کی ایک ایسی وجہ کا علم ہوا جس کا ایک سرسری سا اندازہ تو تھا مگر یہ بات میرے تصور سے بھی باہر تھی کہ رات کے وقت تقریباً تیس ہزار گھروں پر صرف ایک لائن مین کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔

میں نے دو تین بار ان سے اس بات کی تصدیق حاصل کی اور ابھی تک انگشت بدنداں ہوں کہ بجلی کی اس ہوشربا قیمت اور طرح طرح کے عجیب و غریب ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد محکمے کی طرف سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ شہریوں کو صرف ایک باقاعدہ لائن مین مہیا کیا جاتا ہے جب کہ دن میں ان کی تعداد دو سے تین ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس میں لاکھوں نوجوان بے روز گار پھر رہے ہیں، اور اب تو برادرم ذوالفقار چیمہ کے ٹیوٹا ٹائپ سمیت بہت سے اور تربیتی ادارے بھی باقاعدگی سے کام کر رہے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ مسئلہ تربیت یافتہ لیبر کی تعداد اور مراعات میں کمی سے زیادہ ان کی بھرتی پر عائد مختلف طرح کی پابندیوں اور متعلقہ بدعنوانیوں کا ہے۔ میں تو اس شدید گرمی اور حبس میں فیملی کو لے کر گڑھی شاہو میں واقع اپنے بھائی کے گھر پر آ گیا لیکن یہ خیال مسلسل دامنگیر رہا کہ وہ کروڑوں ہم وطن جن کے پاس اس طرح کی سہولت موجود نہیں (جب کہ یہ بریک ڈاؤن بھی ایک خاص علاقے تک محدود تھا) وہ ایسے میں کیا کرتے ہوں گے اور انھیں یہ کس جرم کی سزا مل رہی ہے‘ بالخصوص دیہاتی اور پسماندہ علاقوں میں روشنی اور پنکھے کے بغیر حبس کا یہ موسم کیسے گزرتا ہو گا اس کا تصور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

ہم نے منگلا اور تربیلہ کے بعد کوئی بڑا ڈیم کیوں نہیں بنایا اور پانی کے بجائے گیس اور فرنس آئل کا راستہ کیوں اپنایا، یہ بحث اب بحث کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اصل بات فوری طور پر بجلی کے اس بحران سے نکلنے کا سب سے آسان اور بہتر طریقہ اس بات پر اتفاق رائے اور اس کے لیے جامع منصوبہ بندی ہے کہ اب ہمیں آبی وسائل کے علاوہ کسی اور طرف نہیں دیکھنا اور چونکہ اس کا انحصار پانی کے ذخائر اور نئے ڈیمز کی تعمیر پر ہے اس لیے ان دونوں ملکوں کو ایک ساتھ اور یکساں توجہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ اس درمیانی عرصے میں ہم اس ٹاسک فورس اور فیلڈ میں کام کرنے والے عملے کی تربیت اور تعداد پر بھی زور دیں جن کے بغیر یہ تصویر مکمل نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ اس اضافی بجلی کو عوام اور انڈسٹری تک تسلسل اور حفاظت سے پہنچانے کے لیے سپلائی کے اس نظام کو بھی درست کریں جس کی بہتری کی طرف مناسب توجہ نہ دینے کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں پورا ہونے والے نئے وسائل اور بجلی کی تعداد بڑھنے کے باوجود ہم اس مطلوبہ نتائج ٹھیک طور سے حاصل نہیں کر پائے۔

آخر میں، میں بجلی کی سپلائی سے متعلقہ تمام اداروں کی توجہ اس بات کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گا کہ وہ مطلوبہ افرادی قوت میں اضافے کے لیے اپنے وسائل میں ہر ممکن اضافہ کریں اور چند روز بعد انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے سامنے اس مسئلے کو بھی ایک ’’اولین ترجیح‘‘ کے طور پر پیش کریں کہ اس کے بغیر ان کی ساکھ اور عوام کی حالت میں سوائے مزید خرابی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔