الیکشن اور احتساب، ساتھ ساتھ

جاوید قاضی  جمعرات 12 جولائی 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

تیرہ جولائی ایک اہم دن!میاں صاحب اور مریم نواز لندن سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے داماد کیپٹن صفدر گرفتاری دے چکے ہیں۔ زرداری صاحب اور ان کے ہمشیرہ کا نام بھی ECLمیں داخل ہوچکا ہے۔

احتساب کا عمل اس وقت تیز ہوا جب نگران حکومت آئی ہے۔ یہ بھی ہوا کہ نیب نے یہ احکامات جاری کیے کہ مطلوب افراد جو الیکشن میں امیدوار ہیں ان کو گرفتار نہ کیا جائے۔ ٹھیک ہے احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ لیکن یہ عمل الیکشن پر اثر انداز نہ ہو۔ اس کے الیکشن پر اثر انداز ہونے سے ہماری بین الاقوامی ساکھ خراب ہوسکتی ہے۔ اور یوں یہ الیکشن شفاف نہ ہوپائیں گے۔ میاں صاحب کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل ڈالنے سے ان کی سزا کو وقتی طور پر روکا جا سکتا ہے ان کے لیے ایک گراؤنڈ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی الیکشن مہم میں آزادی سے حصہ لے سکیں۔

ابھی نیب کورٹ کی Judgmentمیری نظر سے نہیں گزری لیکن جو مجموئی تاثر اس حوالے سے جڑا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ فاضل جج نے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ نہیں سنایا۔ بلکہ Persumption کی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے۔ میں بحیثیت وکیل اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے بہت حد تک ایسے ہی ہوتے ہیں جن کو پھر اپیل میں دوبارہ سے پرکھا جاتا ہے اور جو جج صاحبان اپیل سنتے ہیں ان کا معیار بہت حد تک معیاری ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح یہ فیصلہ بھی ہائی کورٹ میں ہی طے ہوگا۔ تاہم دیکھا جائے تو نیب کا قانون بھیRule of Lawکے بنیادی اصولوں سے تصادم میں ہے لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قانون آئین کے تابع ہے۔ ایک ملزم کے بہت سے حقوق ہیں جو آئین میں موجود ہیں اگر نیب کا قانون حقوق پورے نہیں کرتا تو ایسے حقوق آئینی عدالت سے لیے جاسکتے ہیں۔کرپشن کی تہہ تک پہنچنا اتنا آسان بھی نہیں۔ یہاں پر Persumptionسے مدد لی جاسکتی ہے کہ آپ کے اثاثے آپ کی آمدنی سے زیادہ ہیں۔ اور پھرRebuttale Persumptionکے تحت آپ کو موقعہ دیا جاتا ہے کہ آپ ثابت کریں کہ عدالت کا ایسا سوچنا کیوں غلط ہے؟ یہ کام کسی قطری شہزادے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اور یہ کام میاں صاحب ثابت نہ کر پائے انھوں نے جو قومی اسمبلی میں تقریر کی کہ وہ پائی پائی کا حساب دیں گے وہ کہیں ہوا میں ہی رہ گئی۔ زرداری صاحب تو اپنے نام پر کچھ خریدتے ہی نہیں سارا کام بے نامی کرتے ہیں۔ اب ان کو FIAنے ایک ایسے کیس میں جکڑا ہے جس میںمجھے نہیں لگتا کہ وہ نکل سکتے ہیں۔ ٹھوس ثبوت تو اس بات کا بھی نہیں کہ OMNIگروپ زرداری صاحب کا ہے۔

یہی میاں صاحب اور زرداری صاحب جمہوریت کے روح رواں ہیں۔ زرداری صاحب نے میاں صاحب کو تنہا چھوڑا کہ وہ اپنی جان بچا سکیں۔ لیکن ایسا نظر نہیں آرہااور اگر ان دونوں بہن بھائیوں کو جکڑ لیا جاتا ہے تو پنجاب کے برعکس سندھ کے لوگ بہت خوش ہونگے۔لیکن اس خوشی کے باوجود بھی ووٹ پیپلز پارٹی کو ہی دیں گے۔ جو موقعہ مریم نواز کو لیڈر بننے کا موقعہ مل چکا، وہ موقعہ بلاول کو ابھی تک نہیں ملا اور شاید یہ ایک موقعہ بلاول کو مل بھی جائے۔وہ اس لیے کہ اس کے دائیں اور بائیں ’’ادا اور ادی‘‘ (بھائی بہن) ہیں جنہوں نے بلاول کو لیڈر بننے کا موقعہ نہیں دیا اس کے کندھوں کو جھکا کر رکھا۔چلو میاں صاحب نے تو اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ لے لیا۔ زرداری صاحب بھی بینظیر بھٹو کی دی ہوئی میراث سے دستبردار ہوگئے۔ اب ان کی پارٹی اس مقام پر ہے کہ جیسے کوئی بھی کام دیا جائے کرلیں گے بس اقتدار میں کچھ حصہ مل جائے۔

فرض کرلیں کہ FIA کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات صحیح ثابت ہوتی ہے اور اس میں وزن ہے تو کیاآپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ عوامی نمایندے ہیں اور یہ عوام کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ یعنی بھٹو کی چھوڑی ہوئی سیاسی میراث پر چوروں کا راج ہے یہ اور بات ہے عدالت کی صوابدیدیت سے یہ چور ثابت نہ ہوسکے۔ یہ کام صرف سول قیادت نہیں کرتی بلکہ جنرل مشرف اور جنرل کیانی کے نام بھی اس زمرے میںآتے ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ احتساب صرف سول قیادت کا ہی کیوں؟ احتساب کو Accross the Boardہونا چاہیے۔ جو کہ نہیں ہے ۔ہم نے بہت وقت ضایع کیا ہے ۔ہماری سیاست کے اندر بہت گند جمع ہو گئی ہے ۔ ہماری افسر شاہی درباری لوگ ہیں ۔ جتنا بڑا درباری اتنی ہی عنایات ۔ جتنا بڑا درباری اتنا ہی سیاسی قیادت کا لاڈلا ۔جتنی زیادہ کرپشن اتنا ہی سیاسی قیادت کا عزیز ۔

بدنصیبی ہے میاں صاحب کی کہ وہ اردوان نہ بنے اور خوش نصیبی اس ملک کی کہ وہ اردوان نہیں بن پائے ۔جنرل مشرف ہو یا کوئی اور آمر وہ مصر کے آمر کی طرح تیس تیس سال آمریت نہیں چلاسکے۔ دس سال آمریت رہی تو دس سال لنگڑی لولی جمہوریت بھی رہی ۔

یوں لگتا ہے کہ خان صاحب بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسوقت اگر کوئی ملک گیر پارٹی ہے تو وہ خان صاحب کی پارٹی ہے۔ مگر جس تیزی سے اس پارٹی میں گرگٹ نما electables شامل ہورہے ہیں وہ اس پارٹی کا رخ کسی اور طرف لے جارہے ہیں۔سیاست نظریے اور اصولوں کے لیے بھی کی جاتی ہے اور سیاست اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے بھی ۔لیکن ہمارے ملک میں جہاں ایسا معاشرہ ہے کہ اصول پرست سیاستدان ایوانوں تک نہ پہنچ سکے صرف وہی پہنچ سکے جن کی جاگیریں تھیں جو خان ، وڈیرے، چوہدری اور پیر تھے۔ کچھ ایسے سیاستدان بھی تھے جو بظاہر نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر آئے مگر دراصل وہ دکھاوا تھا۔بال ٹیمپرنگ تھی۔ بیانیہ میں ملاوٹ کی گئی ۔ لوگوں کو نفرت کی آگ میں دھکیلا گیا۔

یہ ہے وہ پاپولر پالیٹکس جس میں سب کچھ بکتا ہے ۔ جہاں سلمان تاثیر اپنی جان گنوا بیٹھے وہیں سے احسن اقبال بھی گزرے تھے ۔ اور نہ جانے کتنے سر راہ چلتے چلتے یہاں سے گزریں گے ۔ ہم کسی کو بھی نیچا کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ بے نظیر بحیثیت عورت ایک خطرہ تھی اسے ہٹایا گیا۔دیکھیے خیبر پختونخوا میں کیسی دہشتگردی ہوئی۔کتنی بھیانک ہے اقتدار کی سیاست۔ جو ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کے ساتھ کیا ،وہ ہی بھٹونے 1979 ء میں بھگتا ۔ قائد کی گیارہ ستمبر کی تقریر جو ہمارے آئین کا اصولی طور پرمقدمہ یا پیش لفظ Preamble بنتا ہے اسے لیاقت علی خان نے دھول کیا پھر کیا ہوا۔

لیاقت علی خان نے اس کو بھگتا۔ اور آج نواز شریف کے ساتھ بھی وہ ہی ہوا جو وہ بھگت رہے ہیں۔ زرداری صاحب سمجھ نہ پائے کہ احتساب کی legitimacyکب اور کیسے بنے گی، جب احتساب کے نام پر زرداری صاحب کے گریبان پر بھی ہاتھ ڈالا جائیگا۔ سنا ہے جنرل مشرف کو بھی نیب کا نوٹس آچکا ہے اور مونس الہی بھی اس بار نہ بچ پائیںگے۔ ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں اور شاید سمجھ بھی نہ سکے کہ ڈیم پانی پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ تمام معاملات water management کے ماتحت ہیں۔ پانی بچانا اور پانی کو consumeکرنا بھی پانی پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ہم جدید آبپاشی نظام سے ناواقف ہیں، وہی پرانا نظام جو انگریزوں نے دیا ابھی تک رائج ہے۔

انگریزوں نے اس ملک میں انفرا اسٹکرکچر کے حوالے دو بڑے کام کیے ایک ریلوے لائنز بچھائیں اور دوسرا آبپاشی نظام دیا۔ لیکن ہم نے اپنے دریا بیچ دیے۔ ہمارا پانی کا Narrative  بھی مفروضوں پر مبنی ہے۔ ٹھیک ہے ڈیم بنائے جائیں لیکن وہ ڈیم جو متنازعہ نہیں۔ گرین، اورینج بلیو ٹرینوں، اور بسوں کے پروجیکٹس سے کئی گنا بہتر یہ پروجیکٹس ہیں مگر یہ پروجیکٹس شو کیس میں سجے شو پیسز کی طرح نظر نہیں آتے۔ ہمیں ہمارے ہی خیالوں اور سوچ نے ڈس لیا ہے۔ جو کام جلدی کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں سب کو شامل کرنا ہے۔ ہمیں ان electablesکی سیاست سے نکلنا ہوگا۔

اس ملک کو ہنر مندوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس فرد تو ہے مگر فرد کو ہنر دینے کا انفرا اسٹرکچر نہیں۔ ہمین اپنی ایکسپورٹ کو diversityدینے کے لیے ان نام نہاد نظریوں سے، ضعیف الاعتقادی، فرسودہ سوچ و خیالات سے اپنے آپ کو نجات دلانی ہوگی۔جو ہماری ترقی کے راستے روکتے ہیں۔ یہ کھوکلی سیاست، کھوکھلے نعرے، لیڈرا ور بیانیہ یہ سب دراصل ہمارے دشمن ہیں۔ ہمیں اگر آگے جانا ہے تو لوگوں کو ہنر دینا ہوگا۔ ہنر مند پاکستان، پاکستان کی خوشحالی اور جو پہلو لوگوں کے بہتر معیار زندگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔