نہ مٹاؤ نوشتہ دیوار کو

ابن مستقیم  پير 6 مئ 2013

گزشتہ دنوں کراچی کی وال چاکنگ موضوع رہی۔ امن وامان کے قیام کی خاطر کراچی کے دیواری نعروں پر پابندی کی شنید ہے۔۔۔ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ کراچی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان دیواروں پر لکھی تحریروں کے خلاف مہم چلائی جاتی رہی ہیں مگر ان پر عمل جزوی اور وقتی ہی رہا ہے۔

تازہ احکامات پر جب عمل ہوگا تب ہوگا لیکن اس حکم سے ایک بار پھر ہمیں ’’تشویش‘‘ ہوچلی ہے کہ یہ امر بنیادی انسانی حقوق کی ’’خلاف ورزی‘‘ کے زمرے میں آتا ہے کیوں کہ ہم جیسے ملک کے غریب شہریوں کے آزادی اظہار کا سب سے سستا ذریعہ یہ دیواریں ہی ہیں۔ صرف اظہار رائے ہی نہیں بلکہ آگاہی اور باخبر رہنے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے اور ذرایع ابلاغ کی من چاہی خبروں اور زچ کردینے والی کائیں کائیں میں یہ دیواریں ہی تو ہیں جو ذرا ہٹ کر کچھ عوامی رنگ لیے ہوتی ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان دیواروں پر گویا ہماری ایک تاریخ رقم ہے۔

دیکھیے نا، آپ کو شہر میں کہیں نہ کہیں گلی کوچوں میں ایسی دیواریں ضرورملیں گی جس پر لکھی کوئی تحریر آپ کو یکایک کئی برسوں بلکہ عشروں تک بھی پیچھے لے جائے گی، بشرطیکہ اس دوران چاکنگ اور دیوار دونوں کے رنگوں نے وفا کی ہو یا اس پرنیا روغن نہ چڑھا دیا گیا ہو۔۔۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شہر کی برسات میں دیواروں کے رنگ کی اوپری تہہ بہہ جاتی ہے تو اس کے نیچے لکھی تحریر واضح اور نمایاں ہوجاتی ہے، ایسے میں کیا آپ اور کیا میں۔۔۔ کیا یکایک اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔۔۔ جیسے 1997 میں جماعت اسلامی کے انتخابی عمل کے بائیکاٹ کی چاکنگ ایک جگہ لکھی دیکھی ’’ووٹ دینے کا ابھی موڈ نہیں ہے کل آنا‘‘ یا پھر نوے کی دہائی میں دیواروں پر لکھے یہ نعرے ’’جنگ سے نفرت، امن سے محبت‘‘۔ یہ وہ نعرے ہیں جو ماضی قریب میں اپنے سے جڑے کسی مخصوص واقعے کی یاد دلاتے ہیں۔

دیواری باتوں کا ذکر ہے تو ابھی ڈیڑھ سال قبل جب شہر بھر میں راتوں رات مہاجر صوبے کی چاکنگ کردی گئی ’’ضروری ہے ضروری ہے مہاجر صوبہ ضروری ہے‘‘ جس کے جواب میں اس وقت کے صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کچھ نازیبا الفاظ ادا کیے جس پر کراچی اور حیدرآباد میں زبردست احتجاج ہوا اورشہر کی دیواریں بھی اس کی گواہ بنیں۔ شہر کی المناک لسانیت میں یہ واقعہ بھی اب تاریخ کا حصہ بن گیا جو دیواری تحریر کے نتیجے میں ہی برپا ہوا۔

یوں تو ان لکھی دیواروں سے شہر کا کوئی حصہ محفوظ نہیں تاہم ان کی سب سے زیادہ اقسام کراچی پریس کلب اور اس کے گرد ونواح میں نظر آتی ہے۔ یہاں روزانہ درجنوں مظاہرے، احتجاج اور دھرنے ہوتے ہیں اور تقریباً ہر گروہ ہی پریس کلب کے سامنے والی دیوار پر اپنی ’’حاضری‘‘ ضرور لگاتا ہے۔ یہ نعرے تو ظاہر ہے مطالبے اور احتجاج کی صورت میں ہی ہوتے ہیں مگراس کے علاوہ بھی یہ دیواریں اور بھی بہت کچھ بولتی ہیں۔۔۔ اظہار رائے سے اظہار محبت تک، آستانوں سے دواخانوں تک اور بھی بہت سے ایسے واقعات جو عام ذرایع ابلاغ میں شایع یا نشر نہیں ہوتے، موجود ہوتے ہیں۔

ان میں بعض مخصوص علاقوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے لے کر مقامی معاملات جن پر حقائق سے دانستہ آگہی نہیں دی جاتی وہ دیواروں پر آجاتے ہیں۔۔۔ کہیں ملازمتوں اور درس و تدریس کے اشتہار ہیں۔۔۔ کہیں کسی کے لہو سے انقلاب کی نوید۔۔۔ کہیں کسی کے جینے کے نعرے تو کہیں کسی کے لیے نعرۂ مرگ اور بے ہودہ مغلظات۔۔۔ کسی کے قتل و کفر کے فتوے ہیں تو کہیں دیواروں پر لکھ کر انتباہ کیا ہے کہ ’’یہاں‘‘ لکھنا منع ہے۔۔۔ کہیں انتخابی نشانوں کی شبیہ ہے تو کہیں جلسے جلوس کی خبر۔۔۔ کسی کی رہائی کی دہائی ہے تو کہیں کسی کی رہائی پہ دہائی! کہیں اشعار ہیں تو کہیں مذہبی تہوار۔۔۔ الغرض ہر طرح کے خیالات و جذبات آپ کو ان دیواروں پر مل جائیں گے۔ یہاں تک کہ ان گناہ گار آنکھوں نے اس ہی شہر کی دیواروں پر اس ملک کے خلاف نہایت باغیانہ نعرے تک دیکھے۔۔۔ جس پر تاحال کوئی بھی قانون حرکت میں نہیں آیا۔

شہر کی اہم اور مشہور چاکنگ کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور ’’تحریک‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے۔۔۔ شہر قائد کے شاید ہی کسی باسی نے دیواروں پر یہ نعرے نہ پڑھے ہوں جو فقط چند برسوں پہلے تک جابجا دکھائی دیتے تھے ’’چار گھنٹے ڈیوٹی ٹائم۔۔۔‘‘ اس میں اس تحریک کے سرخیل ’’شکیل نائی‘‘ کا نام بھی لکھا ہوتا۔ خدا جانے یہ بھلا مانس دہری ملازمتوں میں پسنے والوں سے کس طرح کی ہمدردی رکھتا تھا کہ جو بارہ سے سولہ اور اٹھارہ گھنٹے کام کرکے دو وقت کا بندوبست کرتے ہیں۔۔۔ انھیں تو چار گھنٹے کی نیند ہی نصیب ہوتی ہوگی، جب انھیں قانونی طور پر 8 گھنٹے کام کا حق نہیں مل رہا تو 4 گھنٹے بھلا کیوں کر ہوسکتے ہیں۔

دیواروں پر لکھنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ آپ کس کی راجدھانی میں سفر کررہے ہیں۔۔۔ اس علاقے کی سیاسی و مذہبی کیفیت کیا ہے۔ اس کے لیے جابجا لکھے ’’اگر نہ مگر…نگر‘‘ یا فلاں کے متوالے فلاں علاقے والے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے انھیں کورا کردیا گیا تو بسوں میں سفر کرنے والے سیکڑوں مسافر جو کھڑکی کے پاس ہواخوری سے زیادہ دیواریں پڑھنے کے لیے بیٹھتے ہیں، خاصے بور ہوجائیں گے۔۔۔ اور انھیں مذکورہ علاقے کے لسانی، مذہبی اور سیاسی حلقے کا اندازہ بھی نہ ہوگا، جیسے ہم اپنے میٹرک کے زمانے میں امتحان دینے ایک ایسے علاقے میں گئے جو ’’نوگوایریا‘‘ کہلاتا تھا اور ابھی ابھی ہی ’’وا گزار‘‘ کرایا گیا تھا۔

اس کی دیواروں پر لکھے نعرے دیکھ کر ہم ایسا سمجھتے گویا بڑا اعزاز ہوگیا کہ ہم یہاں آئے۔ خیر دیواروں کی بعض تحریریں پراسرار بھی ہوتی ہیں کہ ان کا مشتہر یا تو ’’اہلیان…‘‘ یا ’’محبان…‘‘ کے قلمی نام سے لکھ رہا ہوتا ہے یا سرے سے گم نام ہوتا ہے جیسے آپ نے اس ہی شہر میں لکھا دیکھا ہوگا ’’آؤ سچ بولیں‘‘ یا ’’سچ بولنا منع ہے!‘‘ ان دیواری تحریروں سے ہماری لسانی و مذہبی کشمکش کی بھی خبر بخوبی ملتی ہے جیسے سن سیٹ بلیوارڈ اور کورنگی روڈ کے سنگم پر ایک گمنام مطالبہ کافی عرصے سے درج رہا ’’کراچی کو طالبان کے حوالے کیا جائے اور… کے خلاف جہاد کیا جائے‘‘ اس ہی طرح ایک جگہ تو حد ہی ہوگئی، ایک دیوار انتہائی مخدوش حالت میں زمین کی طرف یوں جھکی تھی کہ گویا اب گری کہ جب گری، اس پر نہایت اہتمام سے چونا کراکے خوش خط لکھوایا گیا ’’دیوار مخدوش ہے، یہاں گاڑی کھڑی نہ کریں!‘‘ اس ہی طرح ہمارے مرحوم ہونے والے ضلعی نظام کے ناظم مصطفیٰ کمال صاحب نے بڑی دلجمعی سے شہرکی صفائی ستھرائی کا بیڑہ اٹھایا اور شہر کو اپنانے کی ایک مہم جسے “I own karachi” قرار دیا گیا، شروع کی۔۔۔ متعدد مرتبہ شاہراہ فیصل و دیگر علاقوں میں نہایت محنت سے نوجوان رضاکاروں کو دیکھا، دیواریں صاف کررہے ہیں۔ یار لوگوں نے کہا کہ انھوں نے بھی تو خوب صورت رنگ و روغن کے بعد بھی لکھ ہی دیا ہے ’’آئی اون کراچی!‘‘

اگر دیواریں صاف ہوگئیں تو پھر کوئی یہ کیونکر کہے گا کہ فلاں کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے یا فلاں کی رخصتی نوشتہ دیوار ہے یا پھر فلاں نوشتہ دیوار پڑھ لے وغیرہ وغیرہ۔ جب دیواروں پر اتنا کچھ لکھا ہونے کے باوجود کوئی کچھ نہیں پڑھتا تو صاف دیواریں تو پھر اﷲ ہی حافظ ہے لیکن دیواروں پر لکھی تحریروں کی اس قدر ’’اہمیت‘‘ کے باوجود اگر انتظامیہ ان کے خلاف اس بار کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو یہ اچھی بات ہوگی کیوں کہ ہم بھی تو خوش یوں ہیں کہ یہ سب ہم دوسروں کی دیواروں پر کررہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم پرزور مطالبہ کرتے کہ نہ مٹاؤ ’’نوشتہ دیوار‘‘ کو مرے شہر سے۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔