بشیراں بھابھی، حلیم اور قانونی بھائی

قیصر اعوان  اتوار 15 جولائی 2018
اتنے مزیدار حلیم کا راز ایک دن میں ہی مجھ پر کھل چکا تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اتنے مزیدار حلیم کا راز ایک دن میں ہی مجھ پر کھل چکا تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بشیراں بھابھی نے پہلے نو بجے کا کہا پھر گیارہ بجے کا، اور پھر ساڑھے بارہ بجے کا کہہ دیا۔ میرا بھوک کی شدت سے دم نکلے جا رہا تھا۔ میں نے بشیراں بھابھی کے ہاتھ کا پکا حلیم کبھی کھایا تو نہیں تھا مگر اُن کے شوہر سے، جنہیں سب پیار سے قانونی بھائی کہتے تھے، اُن کے حلیم کی تعریفیں بہت سُن رکھی تھیں۔ میں نے کئی بار فرمائش بھی کی، قانونی بھائی کی سفارش بھی ڈلوائی مگر وہ ہر بار’’بہت جلد‘‘ کہہ کر بڑی خوبصورتی سے ٹال جاتیں اور ہم انتظار کرتے رہ جاتے۔

ایک دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ بھابھی کی اپنی کال آگئی۔ ’’ہاں بھئی! بہت شکوہ تھا نہ تمھیں کہ بھابھی اپنے ہاتھ کا حلیم نہیں کھلاتیں، چلو جمعہ کو صبح 9 بجے آجانا، ناشتہ اکٹھے ہی کریں گے۔‘‘ اُنہوں نے خوشگوار موڈ میں دعوت دی۔ میں پچھلے کئی ماہ سے اُنہیں ہر ملاقات پر اُن کا وعدہ باقاعدگی سے یاد دلاتا رہاتھا مگر نتیجہ صفر رہا، اور آج یوں اچانک اُنہوں نے خود سے دعوت دی تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔

’’بھابھی! اسی جمعے کو ناں، یہ جو 6 جولائی کو آ رہا ہے؟‘‘ میں نے تصدیق چاہی۔

’’ہاں بھئی ہاں! 6 جولائی، بروز جمعہ، صبح نو بجے پہنچ جانا، حلیم تیار ملے گا، کہتے ہو تو کارڈ بھجوا دیتی ہوں؟‘‘ اُنہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’نہیں نہیں بھابھی، اس کی ضرورت نہیں، میں انشاء اللہ پہنچ جاؤں گا۔‘‘

’’وقت کا خاص خیال رکھنا، مجھے وقت کی پابندی نہ کرنے والے بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔‘‘ بھابھی نے دوٹوک لہجے میں کہا۔

’’آپ اس کی فکر نہ کریں بھابھی، جتنا مجھے آپ کے حلیم کا انتظار ہے، اُس دن نو بجنے کا انتظار کون کافر کرے گا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور پھر رسمی سلام دُعا کے بعد فون رکھ دیا۔

6 جولائی کوٹھیک صبح ساڑھے آٹھ بجے جب میں اپنے گھر سے قانونی بھائی کے گھر جانے کے لیے نکلنے لگا تو اچانک بھابھی کی کال آ گئی۔ ’’میں کچھ اہم مصروفیت کی وجہ سے تھوڑی لیٹ ہو گئی ہوں، تم تو جانتے ہی ہو گے کہ حلیم پکانے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں، 100 طرح کے تو مصالحے اکھٹے کرنے پڑتے ہیں، اس لیے شاید تھوڑا مزید ٹائم لگ جائے، تم ایسا کرو کہ گیارہ بجے تک آ جاؤ۔ اور اب لازمی پہنچ جانا گیارہ بجے تک، ورنہ ایک بار پھر دوسروں سے تعریفیں ہی سنو گے حلیم کی، تمھارے کھانے کو کچھ نہیں بچے گا۔ اُنہوں نے ہنستے ہوئے خبردار کیا۔

میں وعدے کے مطابق گیارہ بجے سے کچھ دیر پہلے ہی اُن کے گھر پہنچ گیا۔ بھابھی شاید کچن میں تھیں، اورقانونی بھائی تسلی سے صوفے پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ ’’میں نے تو سوچا تھا کہ آپ حلیم پکانے میں بھابھی کی مدد کر رہے ہوں گے، مگر آپ تو یہاں بیٹھے مزے سے اخبار پڑھ رہے ہیں۔‘‘ میں نے قانونی بھائی سے مذاق کیا۔

’’ہم نے تو اُنہیں کہا تھا کہ تمھاری مدد کر دیتے ہیں، کہاں اکیلے لگی رہو گی، مگر نہیں مانیں۔‘‘ قانونی بھائی بولے۔

’’کیوں کرمو بابا گھر پر نہیں ہیں کیا؟؟‘‘ میں نے حیرانگی سے پوچھا۔

’’کہاں بھائی! وہ تو صبح کے ہی غائب ہیں، تمھاری بھابھی کو ہی کچھ بتا کر گئے ہوں گے، ہمیں کون کمبخت پوچھتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے شکوہ کیا جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔

’’آپ بھی نہ بس ہر بات کو پکڑ کر ہی بیٹھ جاتے ہیں، کام سے گئے ہیں، آتے ہی ہوں گے۔‘‘ اُنہوں نے اپنے دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔

’’ابھی اور کتنا وقت لگے گا، گیارہ تو بج گئے؟ ان آنتوں میں اتنی ہمت نہیں بھوک برداشت کرنے کی۔‘‘ قانونی بھائی کو شاید مجھ سے بھی زیادہ بھوک لگی تھی۔

’’بس تھوڑی دیر اور صبر کر لیں۔ پکنے میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے کبھی کبھی۔‘‘

’’مگر ہمیں نہیں لگتا کہ ساڑھے بارہ بجے سے پہلے آپکا حلیم تیار ہوگا۔‘‘ قانونی بھائی نے خدشہ ظاہر کیا۔

’’تو ساڑھے بارہ بجنے میں وقت ہی کتنا بچا ہے۔‘‘ بشیراں بھابھی نے ساڑھے بارہ بجے پر مہر لگاتے ہوئے کہا۔ میرا پیٹ توپہلے ہی بھوک کی وجہ سے مجھے گالیاں دے رہا تھا مگر ساڑھے بارہ کا سُن کر باقاعدہ ہاتھا پائی پر اُتر آیا، مگر انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔

پھر گھڑی دیکھتے دیکھتے ساڑھے بارہ بھی بج گئے مگر حلیم نہ آیا۔ اب بھوک کی وجہ سے میری ہمت تقریباََ جواب دے چکی تھی، اور مجھ سے بُری حالت قانونی بھائی کی تھی جو ہر تھوڑی دیر بعد کچن کی طرف جاتے تھے اور منہ لٹکا کر واپس آ جاتے تھے۔ ’’اُٹھو میاں! جمعہ کی نماز پڑھ آئیں، اُنہوں نے تو ڈھائی بجے کا نوٹس دے دیا ہے کہ نماز کے بعد تسلی سے کھائیے گا۔ یہ کرمو بابا بھی نہ جانے کہاں رہ گئے، کچھ بازار سے ہی ہلکا پھلکا منگوا کر پیٹ کی آگ تو تھوڑی ٹھنڈی کرلیتے۔‘‘ وہ غصے سے بولے۔

پھر ڈھائی بھی بج گئے، تین بھی اور پھر چار بھی مگر ہمارا حلیم نہ آیا۔ اب تو بھوک کی وجہ سے ایک دوسرے سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی، ساڑھے چار بجے کے قریب جب میں نے کرمو بابا کی آواز سُنی تو جان میں جان آئی کہ شاید قانونی بھائی اب باہر سے ہی کچھ منگوا لیں گے، میں اپنے منہ سے کہتا ہوا تو اچھا نہیں لگتا تھا۔

’’کرمو بابا کو بھیج کر باہر سے ہی کچھ منگوا لو، اب تمھارے اس حلیم کے چکر میں فوت ہونے سے تو رہے ہم۔‘‘ قانونی بھائی نے گویا میرے دل کی آواز سن لی تھی۔

’’لو اب جب حلیم تیار ہو چکا تو آپ باہر سے کچھ منگوانے کی باتیں کر رہے ہیں، بھابھی نے حلیم کھانے کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔‘‘ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی قانونی بھائی سے پہلے کھانے کی میز پر جا بیٹھا تھا۔

حلیم کا ذائقہ جیسی توقع تھی بالکل ویسا ہی تھا، بلکہ شا ید اُس سے کچھ بڑھ کے ہی تھا، مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس حلیم کی خوشبو سے میری برسوں سے شناسائی ہو۔ کھانے کے بعد میں نے رخصت ہوتے ہوئے حسب روایت اُن کے کھانے کی تعریف کی، شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میرا کرموبابا سے سامنا ہو گیا۔ ’’بھئی کہاں غائب تھے صبح سے، ہم تو آپ کو دیکھنے کو ترس گئے؟‘‘

’’جانا کہاں تھا صاحب، صبح سے حلیم لینے گئے تھے۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ آج دکان جمعہ کی نماز کے بعد کھلے گی، ہر خاص موقع پر ہمیشہ حلیم اُنہی کا آتا ہے ہمارے گھر۔ بس صبح کا وہیں بیٹھا تھا، بیگم صاحبہ کا حکم تھا کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آنا چاہے جتنا بھی انتظار کرنا پڑے، آپ لوگوں کو آج ہر حال میں کھلانا ہے۔‘‘ بابا کی سیدھی سیدھی باتوں نے مجھے حیران کر دیا تھا۔

’’بھلا کس دکان کی بات کر رہے ہو تم؟ وہی جو…‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا، سمجھ تو میں گیا تھا کہ وہ کس دکان کی بات کر رہا ہے، آخر میں بھی اسی شہر میں رہتا تھا۔

’’نہیں صاحب، دکان کا نام نہیں بتا سکتا میں، بیگم صاحبہ نے منع کیا ہوا ہے، اگربتا دیا تو غضب ہو جائے گا۔‘‘ اُس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دی اورچپ چاپ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ’’اتنے مزیدار حلیم کا راز ایک دن میں ہی مجھ پر کھل چکا تھا، مگر قانونی بھائی کی آنکھیں بھی شاید قانون کی طرح اندھی ہی تھیں، یا وہ جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے تھے۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔