اقتصادی کامیابیاں سوالیہ نشان

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 جولائی 2018
یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ عوام فرسودہ طبقاتی اور استحصالی اقتصادی اور سماجی نظام سے نجات چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ عوام فرسودہ طبقاتی اور استحصالی اقتصادی اور سماجی نظام سے نجات چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ملکی معیشت کو تجارتی ، داخلی اقتصادی اور مالیاتی شعبوں میں کس قسم کی متنوع اور تشویش ناک صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پاکستانی معیشت کی کیفیت پر جاری ہونے والی تیسری سی ماہی رپورٹ میں پیش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خساروں نے اقتصادی کامیابیاں غارت کردی ہیں، رپورٹ میں جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ ریکارڈ 5.8 فیصد نمو، سازگار افراط زر،امن کی بحالی،کاروباری رجحان کی بہتری، تیل ٹرانسپورٹ و مشینری درآمد نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12.1 ارب ڈالر پر پہنچایا جس کے نتیجہ میں سرکاری زرمبادلہ ذخائر کم، روپیہ 9.5 فیصد بے قدر ہوا،اخراجات بڑھنے سے بجٹ خسارہ ہدف سے زائد یعنی4.3 فیصد ہوگیا جب کہ زیادہ بیرونی قرضوں نے بھی معاملات بگاڑ دیے۔

رپورٹ کے مطابق معاشی نمو رکھنے کے لیے خساروں سے نمٹنا ہوگا، مختصر مدتی قرضے ناگزیر مگر مالی دباؤ کم کرنے کے لیے اخراجات کو معقول سطح پر رکھنا اور ٹیکس بنیاد وسیع کرنا تقاضائے وقت ہوگا۔یہ تلقین اقتصادی معنوں میں چشم کشا ہے۔

رپورٹ میں بعض زرعی شعبوں ، سی پیک اور سرکاری شعبے کی کارکردگی کے نتیجہ میں تعمیرات اور منسلکہ شعبوں میں نمو بلند رہنے کا عندیہ دیا گیا تاہم پاکستان بیورو شماریات کے مطابق مالی سال 2017-18 کے دوران پاکستان کو تجارت میں ریکارڈ 37 ارب67 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا اور اسے موجودہ نگران حکومت کے لیے امتحان بتایا جارہا ہے۔ نگران وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اخترنے کہا ہے کہ پاکستان کے ذمے اندرونی اور بیرونی قرضوں کاحجم 245کھرب روپے ہے ، اگلی حکومت کے لیے سب سے بڑاچیلنج غیرملکی قرضوں کی ادائیگیاں ہونگی، پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں کی شرح جی ڈی پی کے72فیصد پر ہے جو رواں مالی سال کے اختتام تک 74فیصدہوجائیگی ۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال کوسنبھالنے کے لیے ذمے دارقیادت کی ضرورت ہے، گزشتہ روز وزارت منصوبہ بندی کے زیر اہتمام سرکاری قرضوں کے موضوع پرسیمینار سے خطاب اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں شمشاد اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد تک ہونا چاہیے۔ انھوں نے بتایاکہ مجموعی قرضوں کا حجم قانونی حد سے 12 سے 14فیصد اوپر چلاگیا، بیرونی قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 92.6ارب ڈالر تک چلا گیا، قرضوں میں اضافے کی ایک وجہ غیر ذمے دار اور کمزور معاشی منصوبہ بندی ہے، عالمی سطح پر شرح سود بڑھنے سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونگی، مزید قرضے لینے پڑیں گے اوراس کا فیصلہ اگلی حکومت کریگی۔

علاوہ ازیں ایس ڈی جیزپر منعقدہ نیشنل کانفرنس میں اظہارخیال کر تے ہوئے شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے، ایس ڈی جیز کے لیے لوکل باڈیز اور سیاستدانوں کو کردار ادا کرنے کے لیے شامل کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے ہدف سے زیادہ ہیں۔

ادھر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے پاکستان اور ترکی کے مابین تجارتی حجم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملک ثقافتی، معاشرتی اور مذہبی مماثلتوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہیں اورتجارتی و معاشی میدانوں میں باہمی تعاون کو فروغ دے کرتعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی گنجائش موجود ہے، ان خیالات کا اظہارانھوں نے بدھ کو ترک سفیر احسان مصطفی یردکل سے ملاقات میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر رجب طیب اردگان کا یہ وژن تھا کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی ومعاشی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے اوراب وقت آ گیا ہے کہ اس وژن کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہوشربا تجارتی خسارہ کی خبر کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ نے ایک خوشخبری بھی سنائی ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی کی دونوں اسکیموں پر عوامی ردعمل انتہائی مثبت رہا ہے، اب تک 55 ہزار 225 ڈکلیریشن دائر کی گئیں جس میں غیرملکی اثاثہ جات کا حجم 577 ارب روپے جب کہ داخلی اثاثوں کا حجم 1192 ارب روپے ہے‘ اثاثے ظاہر کرنے والوں نے تقریباً 97 ارب روپے کی ادائیگی کی ہے جن میں سے 36 ارب روپے غیرملکی اثاثہ جات اور 61 ارب روپے داخلی اثاثہ جات کی مد میں حاصل کیے گئے۔

اس کے علاوہ 40 ملین ڈالر کی رقوم کی واپسی ہوئی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسٹیٹ بینک نے جن اہداف کے حصول پر زور دیا ہے اس جانب پیش رفت کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے اور مالیاتی اعتبار سے جہاں اخراجات میں کمی عارضی طور پر دباؤ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے وہاں اندرونی مالیات کی درستی کی خاطر ٹیکس بنیاد کو توسیع دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

تاہم ملک جس سیاسی اور اقتصادی دور سے گزر رہا ہے اس میں ووٹرز امیدواروں سے اپنے معاشی مسائل ، حکومتی ریلیف کے فقدان، پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ، بجلی وگیس کے مہنگے بلوں اور غربت و مہنگائی کے حوالہ سے جس اضطراب  کا اظہار کررہے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ عوام فرسودہ طبقاتی اور استحصالی اقتصادی اور سماجی نظام سے نجات چاہتے ہیں انھیں معاشی کایا پلٹنے والی تبدیلی کا انتظار ہے جو استحصال سے پاک اقتصادی اور سماجی نظام سے ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔