احتساب کا دائرہ

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 13 جولائی 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

70 سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، اس طویل عرصے میں حکومت خواہ جمہوری رہی ہو یا غیر جمہوری، ہماری سیاسی اشرافیہ نے جو لوٹ مار مچائی پسماندہ ملکوں میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اقتدار کے مچان پر بیٹھ کر ستر سال سے اس ملک کے غریب عوام کا اشرافیہ مسلسل شکار کر رہی ہے، احتساب کے محرکات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں سیاسی اشرافیہ کے خلاف جو کارروائیاں شروع کی گئی ہیں ان کارروائیوں نے اشرافیہ خاص طور پر حکمران اشرافیہ کی نیندیں حرام کر دی ہیں، اس مصیبت سے نکلنے کے لیے مختلف کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ہمارے حکمران طبقے نے اپنے دور اقتدار کے دوران کئی بااثر ملکوں کے سربراہوں سے ذاتی تعلقات استوار کر لیے ہیں، یہ حکمران ماضی میں بھی مصیبت کے وقت ہمارے حکمران طبقے کی مدد کرتے رہے ہیں اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی وہ زیر عتاب حکمران طبقے کو اس عتاب سے نکالنے کی خاموش کوششیں کر رہے ہوں گے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان ہمدردوں کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔

ہمارے ملک کی آبادی کا 90 فیصد حصہ جو غریب طبقات پر مشتمل ہے جس طرح کی کربناک زندگی گزار رہا ہے، اس کی ساری ذمے داری حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے، دن بھر سردی، گرمی اور بارش میں کسان اور مزدور جو مشقت کرتے ہیں اس کا حاصل ایک آٹو میٹک سسٹم کے تحت اشرافیہ کے بینکوں میں چلا جاتا ہے۔ اور محنت کرنے والے طبقات دال روٹی کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتے۔ حکمرانوں کے لوٹ مار کے اس نظام میں کئی کیٹیگری کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔

آج کل اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی کو گھیرا جا رہا ہے، یہ بیورو کریسی جہاں لوٹ مار میں  حکمرانوں کی معاون ہوتی ہے وہیں اس لوٹ مار میں ایک پارٹنر کی حیثیت سے شریک رہتی ہے، ان کی گرفتاریوں کے نتیجے میں جہاں حکمرانوں کی لوٹ مار کی بڑی بڑی وارداتیں سامنے آ رہی ہیں خود اس کرپٹ بیورو کریسی کے ناقابل یقین اثاثے بھی منظر عام پر آ رہے ہیں۔ یہ ساری غلاظتیں اس سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں جس کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا بہترین اقتصادی نظام ہے جس کے بغیر انسانوں کا گزارا ممکن نہیں۔

اس غریب انسانوں کے قاتل نظام نے اپنی تباہ کاریوں کو چھپانے کے لیے جمہوریت کا جو نقاب اوڑھ رکھا ہے اسے سمجھنے کے بجائے ہمارے عالم فاضل دوست اس قاتلانہ نظام کی اس طرح حمایت کرتے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوری نظام کے بغیر دنیا کا گزارا ممکن ہی نہیں۔ بلاشبہ جمہوریت انسانی تاریخ کا ایک بہتر نظام ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو جمہوریت ہمارے ملک میں 70 سال سے رائج ہے وہ جمہوریت ہے ہی نہیں اشرافیہ کی آمریت ہے۔

تھانہ کچہری جیل ہمیشہ غریب طبقات کا مقدر بنی رہی ہیں، جرم بے گناہی میں بھی ہزاروں غریب اسیر زندان رہتے ہیں۔ اب پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار اشرافیہ کو تھانہ، کچہری، جیل کا سامنا ہے تو ساری اشرافیہ بے چین اور مضطرب ہے۔ دانشورانہ حلقوں میں یہ پروپیگنڈا زوروں پر ہے کہ غیر جمہوری قوتیں پاکستان میں جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان بقراطوں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ 70 سال کے دوران اس ملک کے غریب عوام کو جمہوریت نے کیا دیا؟ تو یہ زعما بغلیں جھانکتے رہتے ہیں کیونکہ پاکستان کے غریب طبقات 70 سال پہلے جس بھوک، افلاس، بے روزگاری اور بیماری کا شکار تھے، 70 سال بعد ان میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی ہے۔

اشرافیہ کی پٹاری میں عوام ایک ایسی طاقت ہے جو اشرافیہ کے برے وقت میں کام آتی ہے، آج جب اشرافیہ پہاڑوں کے درمیان آ گئی ہے تو اونٹ کی طرح بلبلا رہی ہے اور مدد کے لیے اس غریب عوام کی طرف دیکھ رہی ہے، جن کی کھال تک نہیں چھوڑی گئی۔ سادہ لوح عوام کو ورغلایا جا رہا ہے کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور سادہ لوح عوام اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر انتظامیہ سے الجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بڑی افسوس ناک صورتحال ہے جس کا ادراک عوام کو کرنا چاہیے۔

کرپشن اور عوامی دولت کی لوٹ مار کسی فرد، افراد یا خاندان تک محدود نہیں۔ اس گھناؤنے کھیل میں پوری اشرافیہ ملوث ہے لیکن چونکہ احتساب کا دائرہ اب تک ایک خاندان تک محدود ہے لہٰذا متاثرہ اشرافیہ یہ پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ صرف ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بادی النظر میں یہ اعتراض غلط بھی نظر نہیں آتا کیونکہ احتسابی طاقتیں ابھی تک ان تمام قومی مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈال پا رہی ہیں جو 70 سال سے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ منظر عام پر آنے والی کرپٹ برادری میں پاناما لیکس کے 435 ملزمان ہیں۔

بینکوں کا ڈھائی کھرب قرضہ معاف کرا لینے والے وہ بددیانت اور عوام دشمن گروہ ہیں، بیرونی ملکوں کے بینکوں میں 200 ارب روپے رکھنے والے وہ ملک اور عوام دشمن لوگ ہیں، بیرونی ملکوں میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں خریدنے والے ملک دشمن گروہ ہیں ملک کے اندر اربوں کے اثاثے رکھنے والے وہ ملک اور عوام دشمن طاقتیں ہیں جو 70 سال سے بے لگام ہیں۔

جب تک ان تمام کرپٹ لٹیروں کے خلاف سخت احتساب نہیں کیا جاتا احتساب کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام کرپٹ عناصر کے خلاف ایک منصوبہ بندی اور مربوط پلان کے مطابق احتساب کا عمل شروع کیا جائے تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ احتساب صرف ایک خاندان کا ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔