ممبران اسمبلی کے لیے اہلیت کی شرائط

نجمہ عالم  جمعـء 13 جولائی 2018
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

جوانی و نیم جوانی کے وہ دن رات جب ہر دن عید اور ہر شب، شب برات ہوتی ہے، زندگی بھر (بعد از تکمیل تعلیم) صبح سویرے اس دل کش و دل فریب دور کا خون کر کے گھر کے ضروری کام مکمل کرکے ’’نوکری‘‘ پر جاتے رہے اور جب تھک ہار کر مضمحل ہو گئے تو ہم تو اگرچہ پھر بھی چھوڑنے پر تیار نہ تھے مگر ہم جن کے ’’نوکر‘‘ تھے انھوں نے از راہ مہربانی خود ہی معذرت فرما لی کہ محترمہ بڑی بی اب آپ آرام فرمائیے آپ نے کافی زحمت اٹھالی، ہم کسی نوخیز، تازہ دم کا انتظام کر لیں گے، تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی گھر بیٹھ گئے۔

اپنے اکاؤنٹ میں پس انداز رقم کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ 60، 65 ہزار ہیں۔ بڑے خوش ہوئے کہ ساری زندگی کما کر گھر اور دنیا داری نبھا کر بھی ماشا اللہ اتنے روپے ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ کیونکہ ہم تو ہیں ہی قلندرانہ مزاج کے مالک، اپنی دوسری ساتھیوں کی طرح ہر جدید فیشن اور ہر بوتیک کے قیمتی جوڑوں کے بجائے ہفتے کے پانچ دنوں کے حساب سے پانچ جوڑے ہمارے لیے قارون کے خزانے سے کم نہ تھے، ہر روز جوڑا بدل کر جانے کو ہم بڑی عیاشی سمجھتے تھے، دوسروں کے ہر روز جدید رواج کے مطابق نئے کپڑوں کی دل کھول کر تعریف کرکے اپنے باذوق ہونے کی داد وصول کرتے اور خود ان پانچ جوڑوں کو ادل بدل کر زیب تن کرتے تا آنکہ ان میں سے کوئی جوڑا ہم سے مزید تعاون کرنے سے انکار نہ کر دے، اس صورت میں تمام مارکیٹوں کا جائزہ لے کر جہاں سے سستا ترین جوڑا دستیاب ہوتا ایک نیا جوڑا اور بنا لیتے۔

گھر میں ہمارا پسندیدہ لباس جس جوڑے کی جمپر داغ مفارقت دے جائے اس کی شلوار اور جس کی شلوار معذرت خواہ ہو اس کا جمپر ہوتا۔ کبھی شاید ہی ایک رنگ کا مکمل جوڑا گھر میں پہنا ہو، ہمیں یاد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری سسرال، میکہ، ننھیال و ددھیال اسی شہر قائد میں ہوتے ہوئے اور روزانہ ہی ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب، شادی، سالگرہ، رسم بسم اللہ، آمین، ختم شریف، سوم، چہلم غرض تحفے یا نقد لینے دینے کے مواقع نہ ہوں، یہ تو ممکن ہی نہیں، پھر آنے جانے کے اخراجات برداشت کر کے بھی ہم اگر 65,60 ہزار پس انداز کر سکے تو گویا کمال ہی کر دیا۔

گھر بیٹھ کر بلا ماہانہ آمدنی کے تو اندیشہ ہوا کہ یہ سب تو تمام تر کفایت شعاری کے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں تمام ہو جائے گا۔ لہٰذا فوراً اخبار اٹھا کر اچھے بلڈرز اور باکفایت رہائشی منصوبوں کا جائزہ لیا، مختلف بکنگ آفس کا دورہ کیا تا کہ کوئی دو تین کمروں کا فلیٹ خرید کر اس کے کرائے کو اپنی ماہانہ آمدنی بنایا جائے، ایک مستقل جائیداد اور آمدنی کا بندوبست ہو جائے گا۔ مگر وائے خوش فہمی ڈیڑھ سے دو کروڑ سے کم میں معمولی سے معمولی اور عام معیار تعمیر کے منصوبوں میں کوئی فلیٹ بھی پورے شہر میں کسی غیر معروف علاقے میں بھی دستیاب نہ تھا، البتہ کچھ انسان دوست اور غریبوں کے ہمدرد بلڈرز نے یہ مہربانی کی کہ آپ 60 ہزار بطور ایڈوانس دے کر فلیٹ بک کرا لیں (یہ بھی اولین بکنگ کے باعث رعایتی رقم ہے) ہم بے حد آسان شرائط اور اقساط کے علاوہ قرض کی صورت میں آپ سے رفتہ رفتہ بقیہ رقم وصول کر لیں گے۔

منصوبہ شروع ہونے کے چند ہی ماہ بعد پہلے تیار ہونے والے بلاک میں فوراً آپ کو فلیٹ کا قبضہ دے دیں گے۔ اس آفر پر غور کیا پھر سوچا کہ اگر یہ پورے معاوضے کی ادائیگی کے بغیر فلیٹ ہمارے حوالے کر دیں گے تو ہم فوراً اس کو کرائے پر دے کر باآسانی واجبات ادا کرتے رہیں گے، یہ تو ہم نے کر لیا مگر جب تک منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچے اس وقت تک اقساط کی ادائیگی کا کیا بندوبست ہو گا، اس کے بارے میں اس وقت سوچا ہی نہیں، جب ہوش آیا تو فکر لاحق ہوئی۔ آخر خیال آیا کہ کوئی بات نہیں ٹیوشن پڑھائیں گے اور ماں کا سکھایا ہوا ہنر و سلیقہ بھی کام میں لائیں گے، کچھ شادی بیاہ سے متعلق چیزیں بنا کر آن لائن فروخت کر لیں گے، اچھی خاصی آمدنی ہو جائے گی۔

ابھی یہ منصوبہ زیر غور ہی تھا کہ انتخابات کے ہنگامے کا آغاز ہوا۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی داخل ہونے لگے۔ اگلے مرحلے پر ان کے ظاہر کردہ اثاثوں کی تفصیلات ذرایع ابلاغ کی زینت بننے لگیں۔ یہ جان کر دلی صدمہ ہوا کہ بعض امیدواروں کے شہر کے پوش علاقوں میں بڑے بڑے بنگلوں کی قیمت 40، 30 ہزار ہے، کف افسوس مل کر رہ گئے کہ اگر جلد بازی نہ کرتے تو اپنی جمع پونجی میں باآسانی دگنی قیمت دے کر کسی عالی شان بنگلے کے مالک ہوتے یا کئی ایکڑ زرعی اراضی جس کی قیمت محض 12,10 ہزار ہے، وہی خرید لیتے، آرام سے گھر بیٹھے زرعی آمدنی وصول کرتے۔ ہم نے مانا کہ ہم نے شہر کے پنچ ستارہ اداروں میں اچھا کمایا، تب ہی تو اتنا پس انداز بھی کر سکے، اللہ کا شکر ہے کہ کسی کے مقروض بھی نہیں (سوائے عالمی اداروں کے جس کا مقروض ہر پاکستانی ہے)۔

یہ جان کر تو مزید حیرت ہوئی کہ نجی ہوائی کمپنیوں کے مالکان بینک سے کروڑوں کا قرض معاف کرانے والے جن کے اب بھی کئی بینکوں میں اربوں اکاؤنٹ میں محفوظ ہیں، پھر بھی وہ مقروض ہیں۔ ہم پریشان کہ ہم جیسے کم حیثیت لوگ تو قرض سے بچتے ہی رہتے ہیں، اگر خدانخواستہ کسی مجبوری میں کسی سے سو پچاس لینے بھی پڑ جائیں تو سب سے پہلے قرض ادا کریں گے نہ کہ بینک میں جمع کرائیں گے۔ بہرحال اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہمارے 60 ہزار تو محض ایڈوانس میں گئے۔ اگر جلدی نہ کرتے تو آج بنگلے (کم ازکم 2 ہزار گز کے) کے مالک ہوتے۔ ستم بالائے ستم اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ہمارے شوہر کا مشترکہ مکان فروخت ہوا اور ان کے حصے میں 75 یا 80 لاکھ آگئے۔

اسی دوران معلوم ہوا کہ بلاول ہاؤس کی کل قیمت 30 لاکھ ہے، لہٰذا وہ اب اس کوشش میں ہیں کہ دگنی قیمت پر بلاول ہاؤس خرید لیتے ہیں۔ جس کے سرونٹ کوارٹر ہی اتنے بڑے ہوں گے کہ ایک میں ہم خود قیام فرمائیں گے اور باقی میں اپنے جیسے کم حیثیت رشتے داروں کو بطور ’’صلہ رحمی اور خدمت خلق‘‘ رہائش مہیا کریں گے اور باقی پورے بلاول ہاؤس کو کسی پانچ ستارہ تعلیمی ادارے، اسپتال یا کسی یونیورسٹی کو لاکھوں ماہانہ کرائے پر دے کر عیش کریں گے۔ دیکھیے ہم بلاول ہاؤس خریدنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا جاگیردار، وڈیرے اس کی مزید اضافی قیمت دے کر لینے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ بے چارے جن کے بنگلے 30 ہزار کے ہیں۔

بلاول ہاؤس محض 40,30 لاکھ کا اور یہ مقروض لوگ جن کے ملکی و غیر ملکی بینکوں میں کروڑوں جمع ہیں اور ملک سے باہر جائیدادیں بھی جب اسمبلی کے رکن، ملک کے وزیراعظم، صوبوں کے وزیراعلیٰ اور ملکی کابینہ کے وزرا ہوں گے تو آیندہ جو انتخابی اصلاحات، ان کے ذریعے ہوں گی ان میں ایوان کا ممبر بننے کے لیے کم ازکم 50 تولہ سونا ہر شہر کے پوش علاقے میں کئی کئی کوٹھیاں، ایک دو شوگر مل یا فیکٹریاں اور کم ازکم 25 کروڑ بینکوں میں کے علاوہ ممالک غیر میں کچھ نہ کچھ املاک ہونا لازمی قرار دیا جائے گا۔ یہ سب نہ ہوا تو امیدوار انتخاب کے لیے نااہل قرار پائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔