سرمایہ داری کی ہیرا پھیری

زبیر رحمٰن  جمعـء 13 جولائی 2018
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام ہے ہی الٹ پھیر کا نظام، لیکن پاکستان میں کچھ زیادہ ہی بے نقابی کا عمل جاری ہے۔ انتخابات 2018ء نے تو رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ایسے ایسے واقعات، واردات اور عوامل رونما ہو رہے ہیں جو سمجھ سے باہر ہیں۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر عاصم جن پر 70َ ارب روپے کی خورد برد، دہشتگردوں کو پناہ دینے، ان کا علاج معالجہ کرنے اور میگا کرپشن کے الزامات ہیں، گرفتار کیا گیا، ضمانت مسترد ہوئی، ای سی ایل میں نام ڈالا گیا اور میڈیا ہاؤس میں دن  رات چوبیس گھنٹے ایک قیامت بپا تھی، یہ سارے الزامات، حرکات و سکنات ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پھر شرجیل میمن کا مقدمہ۔ انھیں 30 پرسنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان پر بھی اربوں روپے غبن کرنے کے الزامات ہیں۔ گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، ضمانت مسترد ہوئی، ان کی کرپشن پر ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز ہوئے، کسی بھی میڈیا ہاؤس نے ان کا دفاع نہیں کیا۔

پاکستان کے تمام میڈیا اور ملک سے باہر بھی ان پر تبصرے ہوئے اور الزامات کی فہرست شایع ہوئیں، پھر اچانک غوطہ خوروں کی طرح سرد پانی میں سب کچھ غرق ہوگیا۔ عذیر بلوچ جو سیکڑوں انسانوں کا قاتل بتایا جاتا ہے، لیاری گینگ وار کا سربراہ تھا، اس نے لیاری کو سر پہ اٹھا رکھا تھا۔ اس کی تصویریں سندھ کے وزراء اور وزیراعلیٰ ٰکے ساتھ اور بڑے بڑے اکابرین کے ساتھ نظر آتی ہیں، امن کمیٹی بنا کر امن کا قتل کرنا شیوہ بنا لیا گیا تھا، بھتہ خوری، لوٹ مار، قبضہ اور اغوا برائے تاوان معمول کا کھیل بن گیا تھا۔ پھر عذیر بلوچ کی بیرون ملک چلے جانے کی خبر شایع ہوئی۔ بیرون ملک سے گرفتار کر کے لایا گیا، مقدمہ درج ہوا، اس کی گرفتاری کو بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔ پھر سارے عوامل پانی کے بلبلے ثابت ہوگئے۔

نہیں معلوم کہاں گیا عذیر بلوچ اور کہاں گئے ان کے مقدمات۔آج وہ سینٹرل جیل میں محفوظ ہے،  الزامات کے بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ماڈل ایان علی گرفتار ہوئیں، مقدمہ درج ہوا۔ عدالت میں کئی بار پیش ہوئیں، میڈیا کی بار بار زینت کیا بنتی رہیں، ان کی پیشی ایک کیٹ واک بن کر رہ گئی، پھر منظر سے غائب ہوگئیں۔ اب وہ پیشیوں پہ حاضر نہیں ہوتیں۔ آصف علی زرداری پر قائم مقدمات کا کچھ پتہ نہیں چلا مگر اچانک زرداری اور ان کی بہن فریال سمیت دیگر ساتھیوں کے جعلی اکاؤنٹس کا اسکینڈل سامنے لایا گیا۔

وہ  سپریم کورٹ پہنچ گئے،کیا وہ اس سے پہلے معصوم ثابت ہوئے تھے یا ان پر قائم مقدمات وقتی طور پر داخل دفتر کیے گئے، سوئس بینک اور جائیداد سمیت سارے الزامات سردخانے میں پہنچ گئے۔ ادھر خادم حسین رضوی نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو مغلظات  دیں، جس پر ان پر کوئی توہین عدالت کا نوٹس لیا گیا اور نہ قید کیا گیا۔ وہ تو میڈیا ہاؤس پر بھی بیانات دیتے ہوئے نظر آتے تھے، جب کہ مدمقابل نہال ہاشمی، طلال چوہدری، شاہد خاقان عباسی کو توہین عدالت کے الزامات پر سزا اور نااہل قرار دیا جاتا ہے۔

کون سا ایسا اسمبلی رکن ہے جو اہل ہے یا آئین کے مطابق ایماندار اور سچا ہے؟ ان کی جائیداد کی جھوٹی فہرستوں کی کوئی جانچ پڑتال کیوں نہیں ہوتی۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے وہ تمام آگے بڑھے ہوئے رہنما نواز شریف، اسحاق ڈار، طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی کو مختلف الزامات اور مقدمات عاید کرکے انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہیں۔ چونکہ نثار چوہدری، نواز شریف سے اختلاف کر رہے ہیں اس لیے ان کے مدمقابل قمرالاسلام کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آف شور کمپنی کی فہرست میں عمران خان کا نام بھی موجود ہے، لیکن وہ بری الذمہ قرار پائے۔ پروفیسر غفور بھی بہاما آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر نکلے، مگر انھیں عدالت میں نہیں بلایا گیا۔ ایک جانب کسی موومنٹ کو ریاست مخالف اور غیر ملکی ایجنٹ کہا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو انتخابات میں حصہ لینے کی چھوٹ دی گئی ہے۔

جو اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں انھیں غدار کہا جارہا ہے اور جو دہشتگردی کر رہے ہیں، ان سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ راؤ انوار جو 444 افراد کا قاتل ہے، کو بڑے ٹھاٹھ سے تمام تر سہولتوں کے ساتھ اپنے ہی گھر میں تحفظ دیا جا رہا ہے، ان کی ضمانت منظور ہوئی ہے، اور مقتول کا والد در در دھکے کھاتا پھر رہا ہے۔ قاتل کو سزا دینے کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن کہا جارہا ہے۔ مشال خان کے قاتلوں کو عدالت رہا کر دیتی ہے اور کسی بھی قاتل کو پھانسی نہیں دی گئی۔ اسما رانی اور عاصمہ کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں، انھیں کوئی سزا نہیں ہوئی۔ خدیجہ کا قاتل دندناتا پھر رہا ہے۔ شاہ زیب کا قاتل آزاد پھر رہا ہے، اسے بھی کوئی سزا نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس یہ ریمارکس پیش کرتے ہیں کہ نجی اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لے کر چلانا چاہیے۔ ویسے یہ اچھی تجویز ہے لیکن انھیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ عالمی سامراج نے نیو ورلڈ آرڈر کی پہلی شق ہی یہ رکھی تھی کہ دنیا بھر میں قومی ملکیت کے اداروں کو نجی ملکیت میں دینا ہے اور اس پر وہ دنیا بھر میں عمل کروا رہا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کو سامراجی تسلط سے آزاد کرانا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرنا ہوگا۔ ملک کو خودمختار اور خود انحصار بنانا ہوگا تب جاکر نجکاری کا عمل ممکن ہوسکتا ہے۔

ہمارے ملک کی بیشتر پارٹیاں سامراج کے ماتحت کام کرتی ہیں۔ کبھی امریکی سامراج اور کبھی چینی سامراج۔ پا کستان کے بڑے بڑے ریاستی اداروں کے نمایندے آئے روز امریکا اور چین کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے رہنما جو باکمال لوگ ہیں، ان کی جائیداد، ذرایع آمدنی کی تحقیقات ہونی چاہیے، صرف نواز شریف کی نہیں۔ اگر سب کی تحقیقات ہوتی ہے تو یہ عمل درست کہلائے گا ورنہ یکطرفہ عمل کے شبہات عوام کے ذہنوں میں گونجتے رہیں گے۔

آصف علی زرداری کیونکر ارب پتی بنے، عمران خان کا ذرایع آمدنی کیا ہے؟ کلفٹن میں بختیار ٹاور ساٹھ منزلہ کس آمدنی سے بن رہا ہے، جس کے ایک فلیٹ کی قیمت گیارہ کروڑ روپے ہے۔ ایک شخص کے پاس ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمین کہاں سے آئیں اور کروڑوں کسان کیونکر بے زمین بنے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کن کن وزرا نے کتنے کمیشن حاصل کیے، کن کن ریٹائرڈ جنرلوں نے اربوں کی جائیداد کہاں سے بنائی۔ کامران کیانی ملک سے فرار ہیں، انھیں کون بلائے گا اور آئین شکن پرویز مشرف ملک سے کیسے بھاگے، کب آئیں گے، ان پر غداری کا مقدمہ کب چلے گا اور کیا ہوگا، کچھ نہیں معلوم۔ ملک دولخت کیسے ہوا، یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق پر بھی آئین کی شق نمبر 6 کو توڑنے کے خلاف کوئی مقدمہ چلے گا یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

اب عوام ان حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ جمال لغاری، خورشید شاہ، عبداﷲ مراد، مظہرالحق اور بلاول بھٹو سے سوال بھی کر تے ہیں اور پتھراؤ بھی۔ اس نظام میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ٹرمپ کو لے لیں، عوام کی 35 فیصد حمایت اور بیوی بھی خلاف ہے، پھر بھی وہ امریکا کے صدر ہیں۔

برطانیہ کے حزب اختلاف لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربون جب یہ کہتے ہیں کہ میں اقتدار میں آیا تو ایٹمی ہتھیاروں کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لوں گا اور جنگ نہیں ہونے دوں گا تو اس پر برطانیہ کے چیف آف آرمی اسٹاف نے بیان دیا تھا کہ ہم بغاوت کردیں گے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کی کال پر 17 کروڑ لوگ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور وہی کمیونسٹ پارٹی جب کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتی ہے تو مودی سرکار کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کو غدار کہتے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ داری۔ اس کا متبادل صرف اور صرف کمیونسٹ یا امداد باہمی کے آزاد معاشرہ کی تشکیل ہے۔ اس کے سوا اب سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔