ابھی سے متنازعہ عام انتخابات

محمد سعید آرائیں  جمعـء 13 جولائی 2018

سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو  زرداری نے بھی 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور کہا ہے کہ الیکشن کو سلیکشن میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ وفاداریاں تبدیل کرانا جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہو گا کچھ لوگ جمہوریت نہیں چاہتے۔

بلاول زرداری یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ہمارے امیدواروں سے ان کی وفاداریاں تبدیل کرائی جا رہی ہیں اداروں کو حدود میں رہنا چاہیے۔ بلاول زرداری سے ایک روز قبل نواز شریف بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے کارکنوں پر تشدد کیا جا رہا ہے اور (ن) لیگ کے امیدواروں سے پارٹی ٹکٹ واپس کرائے جا رہے ہیں اور توپوں کا رخ مسلم لیگ(ن) کی طرف ہو گیا ہے ماضی سے غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا گیا جس کی وجہ سے ملک انتہائی افسوس ناک صورتحال سے گزر رہا ہے۔

سابق صدر آصف زرداری نے موجودہ صورتحال پر اب تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اب وہ بلاول زرداری کو وزیراعظم کے بجائے اپوزیشن لیڈر بھی ظاہر کر رہے ہیں، البتہ اپنی زندگی میں وہ بلاول زرداری کو وزیراعظم ضرور دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ دو تین ماہ قبل تک سندھ کے علاوہ پنجاب اور وفاق میں پی پی کی حکومتوں کے قیام کا دعویٰ کرنے والے سابق صدر کو اب سندھ میں بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بلاول سے کہلوایا گیا ہے کہ سندھ میں بننے والا جے ڈی اے جیسے کٹھ پتلی اتحاد ماضی میں بنتے رہے ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچایا جاسکے اور وہ حکومت نہ بنا سکے۔

موجودہ سیاسی صورتحال سے صرف عمران خان خوش اور پی ٹی آئی مطمئن ہے جو الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینے کے بعد اپنی مکمل کامیابی کے امکانات دیکھ رہی ہے جس کے کسی بھی امیدوار کو ہراساں کرنے کی شکایت ہے اور نہ ہی کسی سے وفاداری تبدیل کرائی گئی ہے البتہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم ایم اے اور ایم کیو ایم میں انتخابی ٹکٹ نہ ملنے پر پی ٹی آئی میں کچھ پھوٹ پڑی ہے اور اس کے اپنے ہی کچھ امیدوار اپنے ہی امیدواروں کے خلاف آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ راولپنڈی کے ایک اسپتال کے دورے میں ساتھ نظر آنے کے بعد شیخ رشید بہت خوش ہیں اور انھیں عام انتخابات 25 جولائی کو ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی طرف سے بھی عام انتخابات کے بائیکاٹ کے اشارے مل رہے ہیں جب کہ ڈاکٹر طاہر قادری پہلے ہی انتخابات سے لاتعلقی کا اظہار کر کے ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی پہلے ہی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے ہیں جس کا کچھ اثر ضرور پڑے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے بعد ایم کیو ایم کا بھی امیدوار نیب گرفتار کر چکی ہے اور پی پی کے ایک رہنما کی گرفتاری پر آصف زرداری ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کہہ چکی ہے کہ انتخابات کے موقع پر نیب کی گرفتاریاں جانبدارانہ ہیں پی پی کے کسی امیدوار کو غیر قانونی بھرتیوں پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ سندھ اور بلوچستان کی کچھ قوم پرست جماعتیں بھی الیکشن میں دلچسپی نہیں لے رہیں مگر ملک کی اکثر بڑی اور چھوٹی جماعتوں کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور زیادہ تر آزاد امیدوار انتخابی نشان جیپ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اور نواز شریف کے خلاف ایک فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے چوہدری نثار کا انتخابی نشان بھی جیپ ہے اور جیپ کا انتخابی نشان لے کر ملک بھر میں آزاد امیدوار بڑی تعداد میں مسلم لیگ (ن)، پی پی اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے خلاف انتخاب لڑ رہے ہیں اور جیپ گروپ کامیاب ہوکر عام انتخابات کے بعد ایک اہم سیاسی گروپ کے طور پر طاقت بن سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے امیدواروں کو ہراساں کرنے پر نوٹس لیے جانے کا اعلان ہوچکا ہے اور نگراں حکومت کو خط اور چیف سیکریٹری پنجاب سے جواب طلب کیا جاچکا ہے۔

پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ پر (ن) لیگ تحفظات کا اظہار کرچکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ زلفی بخاری کو باہر بھجوا کر متنازعہ ہوچکے۔ پیپلز پارٹی ایف آئی اے کے ڈی جی اور سندھ کے نگراں وزیر اطلاعات کو ہٹانے کا مطالبہ کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے مطالبے پر پنجاب میں تبادلے ہوچکے مگر سندھ میں جی ڈی اے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ جی ڈی اے کے سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ پر بھی تحفظات ہیں اور مجلس عمل لیاری میں اپنے رہنماؤں کے خلاف مقدمات پر احتجاج کر رہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے ماضی کی طرح اس بار بھی انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق تو جاری کیا ہے مگر عمل کہیں نظر نہیں آرہا۔ کیا قومی اسمبلی کا امیدوار 15 لاکھ اور صوبائی امیدوار دس لاکھ روپے کی حد میں الیکشن لڑ سکتا ہے۔ یہ حقیقت دنیا جانتی ہے الیکشن کمیشن نہیں جانتا جسے اپنے اختیارات تک کا پتا نہیں بس وہ حکومتوں کو خط لکھ کر یا جواب طلب کرکے بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ ابھی سے متنازعہ ہوتے جانے والے انتخابات کے منصفانہ ہونے اور ان کی شفافیت 25 جولائی کو شاید عمران خان تسلیم کرلیں مگر ایسا دوسروں کی طرف سے تسلیم ہونے کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں تو 25 جولائی کو کیا ہوگا کہیں 5 جولائی 1977ء کی وجوہات تو کسی کو نہیں مل جائیں گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔