25 جولائی، احتساب اور انقلاب کا دن

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 13 جولائی 2018
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 سال جب کہ داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا کا فیصلہ سنادیا۔ فیصلہ ایسے وقت پر آیا ہے جب ملک میں عام انتخابات قریب اور سیاسی موسم گرم ہے۔

یہ فیصلہ (ن) لیگ کے انتخابی نتائج پر متوقع طور پر اثرانداز بھی ہوگا اور اس کے ملکی سیاست پر بہت گہرے اور دوررس نتائج بھی مرتب ہوں گے۔ ملک میں تاریخی فیصلے اپنے عروج پر ہیں اور پہلی مرتبہ کرپٹ طاقتور حکمرانوں کا احتساب ہو رہا ہے، قانون کا گھیرا ان کے گرد تنگ اور گرفت مضبوط ہو رہی ہے اور ملک کے تمام ادارے آئین و قانون کی بالادستی یقینی بنانے پر کمربستہ ہیں، لہٰذا ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ملکی خزانہ بیدردی سے لوٹنے والے طاقتور چور اللہ کی پکڑ کے ساتھ ساتھ قانون کی بھی گرفت میں آئے ہیں۔

وہ سابق حکمران جو کل تک عدلیہ کی بالادستی کے حق میں بلند بانگ نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے اور جنھوں نے خود ہی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا آج احتساب کے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہوئے تو اپنے ہی خلاف آنے والے فیصلوں پر چراغ پا ہوگئے اور مسلسل توہین عدالت پر کمربستہ ہو کر عدلیہ اور ججز کا سب احترام بھول گئے۔ گویا میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ ہمارے ملک میں سیاستدانوں کا وتیرہ یہی رہا ہے کہ جھوٹ اس انداز کے ساتھ اور اتنی خوبی و معصومیت کے انداز میں بولا جائے کہ سچ لگنے لگے، عوام کو بے وقوف بنانے میں کسی قسم کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، چوری کی جائے اور بھرپور اعتماد کے ساتھ سینہ زوری کی جائے۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ قومی مجرم قوم کے خون پسینے کی کمائی پر ڈاکا مارنے، خود کو طاقتور سے طاقتور ترین اور ملک و قوم کو مقروض اور کمزور سے کمزور ترین بنانے کے باوجود آج قوم سے دوبارہ ووٹ کی صورت میں مدد کے طالب ہیں اور خود کو مظلوم ثابت کرنے پر مسلسل تلے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے کئی بار موقع دیا لیکن یہ ملک و قوم کی خدمت کی بجائے خود کو مضبوط کرنے میں لگے رہے بیرون ملک اپنی تجوریاں بھرتے رہے اور رہائش گاہیں تعمیر کرتے رہے، کسی قسم کی تعمیر و ترقی تو دور کی بات ہے اپنے ادوار اقتدار میں ایک سرکاری اسپتال بھی اس معیار کا تعمیر نہ کرسکے جہاں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کراسکیں، جب کہ ملک کے بدنصیب عوام روز انھی اسپتالوں میں جیتے اور مرتے ہیں، یہ وہی عوام ہیں جن کے ووٹ کو عزت دینے کا انتخابی نعرہ آج کل مقبول عام ہے۔

ایک جانب ہمارے یہ نااہل حکمران ہیں تو دوسری جانب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی قابل ذکر مثال ہے۔ ترکی میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان کی ایک بار پھر شاندار فتح نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ 24 جون 2018ء کے صدارتی اور پارلیمنٹ کے بیک وقت انتخابات میں برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کی مسلسل تیرہویں فتح بلکہ صدارتی اور پارلیمنٹ دونوں کے انتخابات کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ آق پارٹی کی مسلسل چودھویں کامیابی ہے۔ آق پارٹی اس سے قبل پانچ عام پارلیمانی انتخابات، تین بلدیاتی انتخابات اور ایک بار صدارتی انتخاب جیتنے کے علاوہ تین بار ریفرنڈم میں مسلسل کامیابی حاصل کرچکی ہے۔

دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کو اس طرح تسلسل کے ساتھ کامیابی نصیب نہیں ہوئی جس طرح صدر طیب اردوان اور ان کی جماعت کو نصیب ہوئی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ طیب اردگان نے1994ء سے آج تک ملک و قوم کی ہر سطح پر اور ہر قسم کی خدمت کی۔ 24 سال پہلے جب یہ استنبول کے میئر بنے تو استنبول ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ تھا، انھوں نے چند ہی سال میں استنبول کو امن کا گہوارا اور کرپشن فری کیا، عوام کی اکثریت ان کی مداح ہوگئی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ ترکی کے وزیراعظم اور صدر منتخب ہوئے۔ طیب اردگان ترکی کو جدید فلاحی اور اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند اور اس راستے پر تیزی سے گامزن ہیں۔

طیب اردگان نے جب حکومت سنبھالی تو ترکی بھی پاکستان کی طرح قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا، انھوں نے آئی ایم ایف کا 23.5 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ صفر کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کر دی اور اقتصادی لحاظ سے ترکی 111 نمبر پر تھا، اسے 16 ویں نمبر پر پہنچادیا۔ ترکی اپنی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروہ G-20 میں شامل ہوا۔ 2013ء میں ترکی کی سالانہ قومی پیداوار 1100 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی۔ اردگان نے نہ صرف ورلڈ بینک کا سارا قرض لوٹایا بلکہ ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا، جب کہ ترکی کے خزانے میں 100 ارب آج موجود ہیں۔ نیز 2023ء وہ سال ہے جس کے بارے میں طیب اردوان نے اعلان کیا کہ ترکی اس سال دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی اور سیاسی قوت بن جائے گا۔

اب ایک طرف ہمارے سابقہ حکمرانوں اور کرپٹ سیاستدانوں کی مجموعی کارکردگی ہے، نہ صرف سابقہ دور حکومت بلکہ گزشتہ 70 برس میں اس ملک و قوم کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ آج وطن عزیز 27 ارب کا مقروض ہوچکا ہے، بھاری قرضوں کے بوجھ نے غریب عوام کو غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر سنگین مسائل کی دلدل میں پھنسا کر رکھ دیا ہے، ہر گزرتا وقت ملک و قوم کے لحاظ سے بدترین ہے۔ کوئی نوید مستقبل تاحال دکھائی نہیں دیتی۔

ایک طرف ہمارے سابقہ حکمران اور کرپٹ سیاستدان ہیں تو دوسری جانب ہمارے برادر ملک ترکی کی ترقی اور صدر طیب اردگان کی بے مثال قیادت کی فقید المثال کارکردگی کی عظیم الشان مثالیں ہیں جنھوں نے پورے مغرب و یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ترکی اور پاکستان ہر دور میں ایک دوسرے کے قابل اعتماد دوست رہے ہیں، پاکستانی عوام کے دل ترکی کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہماری قومی زبان کا نام ’’اردو‘‘ بذات خود ترک زبان کا لفظ ہے۔ ہمارے لیے ترکی کی ترقی اور طیب اردوان کی مسلسل اور مثالی کامیابیوں میں بڑا سبق ہے۔

آج میڈیا اور سوشل میڈیا کی بدولت عوام باشعور اور ہوشیار ہوگئے ہیں، اب انھیں بے وقوف بنانا آسان نہیں یہ عوامی ذہنی بلوغت ہی کی واضح دلیل ہے کہ انتخابی مہمات کے دوران عوام خود سابق حکمرانوں اور کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب کر رہے ہیں، ان سے گزشتہ ادوار میں ناقص کارکردگی کا حساب مانگ رہے ہیں اور اب سیاستدان عوامی عدالت میں جوابدہ ہیں۔ آج شدت سے اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائی جائے اور درست قیادت کا انتخاب کیا جائے۔ 25 جولائی ہی وہ درست انتخابی موقع ہے کہ جب قوم کو چاہیے کہ وہ کرپٹ حکمرانوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیں۔

جمہوریت میں حقیقی طاقت عوام ہوتے ہیں، جمہوری معاشروں کے عوام اپنی اس خصوصی طاقت کا اصل ادراک رکھتے ہوئے کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، موجودہ مہینہ انتخابات کا ہے جس میں قوم نے اپنے ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ یہی وہ درست وقت ہے کہ ہم ملک سنوارنے کی جانب توجہ دیں اور ووٹ کے درست استعمال کے ذریعے کرپٹ سیاستدانوں اور نااہل سابق حکمرانوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی حق تلفیوں کا بدلہ لیں اور اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی، خوشحالی، خودمختاری، امن و امان، قرضوں سے نجات، اندرونی و بیرونی استحکام اور معاشی طاقت بنانے میں کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لیے درست اور انقلابی لیڈرشپ کا انتخاب کریں۔ 25 جولائی ہی حقیقی یوم احتساب و یوم انقلاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔