الیکشن مہم میں پرتشدد خونیں واقعات قابل مذمت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 14 جولائی 2018
دہشت گرد مختلف امیدواروں پر حملہ کرکے عوام میں شکوک و ابہام اور دیگر پارٹیوں پر الزامات کا بھی ایک در کھول رہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

دہشت گرد مختلف امیدواروں پر حملہ کرکے عوام میں شکوک و ابہام اور دیگر پارٹیوں پر الزامات کا بھی ایک در کھول رہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

انتخابات 2018 کی انتخابی مہم میں پرتشدد خونیں عنصر شامل ہونے پر پوری قوم تشویش اور بے چینی میں مبتلا ہے۔ بالآخر وہی ہورہا ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا، انتخابات سے قبل ہی خونیں اور پرتشدد واقعات متقاضی ہیں کہ فوری طور پر شرپسندوں اور امن دشمنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے۔

کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات قابل تشویش ہیں۔بلوچستان کے علاقے مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کی کارنر میٹنگ پر خودکش حملے سے سراج رئیسانی سمیت70 افراد شہید جب کہ 40 سے زائد افراد زخمی ہونے کی ابتدائی اطلاعات ہیں۔

ادھر جمعہ کی صبح خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں جمعیت علمائے اسلام ف کے کارکنوں پر بم سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 5 افراد شہید جب کہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ چند روز قبل خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے شہر پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں اے این پی کے شہید رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے اور امیدوار ہارون بلور سمیت 22 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

ہارون بلور کارنر میٹنگ کے لیے جارہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا، جب کہ جے یو آئی ف کے قافلے پر بھی اس وقت بم سے حملہ کیا گیا جب شرکائے قافلہ انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک جلسے میں شرکت کرنے کے لیے حوید کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے داخلی راستے پر واک تھرو گیٹ نصب تھا جب کہ دھماکا جلسہ گاہ سے 50 میٹر کی دوری پر ہوا ہے۔

جاں بحق افراد کی لاشوں اور 31 زخمیوں کو ایمبولینسوں اور پولیس موبائلوں کے ذریعے فوری طور پر ڈی ایچ کیو اسپتال بنوں منتقل کیا گیا۔ زخمیوں میں 2 پولیس اہلکار اور 3 خواتین بھی شامل ہیں، جب کہ 6 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔

واضح رہے کہ جے یو آئی ف کے رہنما اکرم خان درانی قومی اسمبلی کے حلقے این اے 35 سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مدمقابل ہیں، اس حملے میں اکرم درانی محفوظ رہے۔ انتخابات سے چند دن قبل انتخابی مہمات اور امیدواروں پر قاتلانہ حملے ظاہر کررہے ہیں کہ شرپسند عناصر ملک میں پرامن انتخابات کی راہ میں رکاوٹ اور عوام میں ابہام و انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد جمہوریت کا راستہ روکنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔

انتخابات کے حوالے سے مختلف حلقوں کو پہلے ہی حساس قرار دیا جاچکا ہے، بلاشبہ امیدواروں کی سیکیورٹی سنگین سوالات کی زد میں ہے، حکومتی سطح پر امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ہے جب کہ الیکشن کے موقع پر دہشت گردی کے خدشات کا میڈیا اور دیگر فورم پر بار بار خدشات کا ذکر ہوتا رہا، ایسے میں لازم تھا کہ امیدواروں کی فول پروف سیکیورٹی اور دہشت گردانہ واقعات کی پیشگی روک تھام کے لیے کوششیں کی جاتیں، لیکن اس حوالے سے کوئی میکنزم وضع نہیں کیا گیا۔

دہشت گرد مختلف امیدواروں پر حملہ کرکے عوام میں شکوک و ابہام اور دیگر پارٹیوں پر الزامات کا بھی ایک در کھول رہے ہیں، لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جمہوریت میں سیاسی اختلافات کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جائیں کسی کی گردن مارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ قومی سطح پر ان ابہام کا خاتمہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک میں انتخابات کا پرامن انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔

صائب ہوگا کہ نگراں حکومت قانون کی رٹ بحال کرے اور تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو تحفظ فراہم کرے۔انتخابی مہم میں دہشت گردی کے واقعات باعث تشویش ہیں، واقعے کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو گرفتار کرکے بے نقاب کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔