سیاسی صورتحال: چشم کشا

ایڈیٹوریل  ہفتہ 14 جولائی 2018
سیاست دان تشدد اور تصادم سے گریز کی آفاقی تلقین پر توجہ دیں۔ فوٹو : فائل

سیاست دان تشدد اور تصادم سے گریز کی آفاقی تلقین پر توجہ دیں۔ فوٹو : فائل

ملکی سیاست ایک نازک دوراہے پر آگئی ہے۔ اس کے ایک جانب انتخابات کی گہماگہمی ہے، امیدواروں کے تحفظات، خدشات اور سیاسی جماعتوں کی انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے عدم شفافیت اور جانبداری کے سنگین الزامات کی گھن گرج جب کہ الیکشن کیمپین کی ہمہ اقسام شکایات کے انبار اور الیکشن پروسیس پر اٹھنے والے سوالات ہیں۔

دوسری جانب نواز شریف اور مریم نواز کی لندن سے براستہ ابوظہبی وطن واپسی، گرفتاری، شہر لاہور سمیت پنجاب بھر میں زبردست کریک ڈاؤن سے پیدا شدہ تہلکہ خیزی ہے اور تمام فہمیدہ اور سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابی میدان بظاہر آتش فشاں بن چکا ہے، جمہوری عمل کو خطرہ لاحق ہے، بنا بریں اس نازک گھڑی میں سیاسی دانوں،ا سٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں سے وابستہ ارباب بست وکشاد پر لازم ہے کہ اجتماعی دانش سے کام لیں۔

سیاست دان تشدد اور تصادم سے گریز کی آفاقی تلقین پر توجہ دیں، ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں فیصلہ کن پیش قدمی نہ ہوئی اور ہر قسم کی مصلحت، مسابقت، چپقلش، کشیدگی، شو ڈاؤن اور کشمکش و اختلافات کا باب بند نہ کیا، دیوانگی کا کھیل یوں ہی جاری رہا تو سیاسی بے سمتی کا یہ سیلاب خاکم بدہن کہیں سب کچھ بہا کر نہ لے جائے۔

بلاشبہ آیندہ چند روز ملکی صورتحال کے لیے انتہائی سبق آموز اور تشویشناک ہیں۔ مبصرین نے قیاس آرائیوں اور تجزیوں کے تقابلی ترازو سامنے رکھ دیے ہیں، جمعہ کو دن بھرکہا جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) کا 33سال سے سیاسی قلعہ قرار دیا جانے والا ’’لاہور‘‘ نوازشریف کے لیے سڑکوں پر نکلے گا یا نہیں، اس کا فیصلہ جلد ہونے جا رہا ہے جب کہ یہ فیصلہ بھی ہوگا کہ 25 جولائی کو پنجاب میں ن لیگ بازی مارے گی یا تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کر بولے گا، اندازہ لگایا گیا کہ فیصلہ سازوں نے نوازشریف کی آمد سے دو روز قبل پنجاب میں اندھا دھندگرفتاریاں کرکے مسلم لیگ (ن)کے ہمدردوں کی تعداد میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

بھارتی میڈیا نے نواز شریف اور مریم نواز کی ممکنہ گرفتاری پر تبصرے کیے، ہندوستان ٹائمز کی اشاعت میں کہا گیا کہ لاہور لاکڈ ڈاؤن ہوا، حکومت نے دس ہزار اہلکار سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے تعینات کیے، بھارتی اخبار کے تجزیہ کار سبرامینیم نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے طویل سیاسی کیریئر میں باؤنس بیک کرتے رہے ہیں، وہ سزا، جیل اور جلاوطنی دیکھ چکے ہیں، انڈین میڈیا نے احتساب عدالت کی سزا کو ن لیگ کے لیے سیاسی دھچکا قراردیا ۔

دریں اثنا ریحام خان کی کتاب بھی بالآخر منظر عام پر آ گئی۔ کتاب کا نام ’’ریحام خان‘‘ ہے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ان کی کتاب برطانیہ اور کچھ ممالک میں کتابی شکل میں دستیاب ہے، جہاں سے اسے آن لائن خریدا جاسکتا ہے۔ کتاب میں ہنگامہ خیز مواد ہے اور عمران خان کی نجی اور ازدواجی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے پینڈورا بکس کھول دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کوئی واضح ردعمل نہیں دیا گیا۔

قبل ازیں مبصرین نے رائے دی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے ’’تخت یا تختہ ‘‘ سلوگن سے مقتدر قوتوں کے ساتھ سیاسی لڑائی کا فائنل راؤنڈ کھیلنے کا اعلان کیا ہے اور پاکستان آمد اور گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مبصرین کے مطابق الیکشن سے 11یوم قبل نواز اور مریم کی آمد پاکستانی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتی ہے جب کہ اپوزیشن قوتیں اسے نواز شریف کی سیاسی خودکشی قرار دے رہی ہیں۔

دوسری جانب شہباز شریف اور ن لیگی قیادت نے نگران بیوروکریسی کو واضح الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ جہاں آج ن لیگ کے کارکن بند ہیں کل تم ہوگے۔ بادی النظر میں سیاسی خلفشار دوچند ہونے کا خدشہ ہے، اور گرفتاریوں اور گرینڈ کریک ڈاؤن کے ناقابل یقین اثرات و مضمرات انتخابی عمل کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ ملک کے سنجیدہ حلقوں میں شفاف الیکشن پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ وہ روایت دم توڑ چکی جس میں انتخابات سے پہلے امیدوار اور سیاسی جماعتیں عام ووٹرز سے قومی اور مقامی مسائل پر بالمشافہ مکالمہ کرتی تھیں، خیر سگالی کے ساتھ دونوں ایک دوسرے سے ملکی معاملات اور قانون سازی کے امکانات اور ترجیحات پر گہری کمٹمنٹ کرکے اٹھتے تھے، مگر انتخابات کی نام نہاد شفافیت پراسرار ہے، لگتا ہے جادوگر کی ہیٹ سے نہ معلوم کس وقت کون سا متفقہ وزیراعظم برآمد ہو۔

دوسری طرف ووٹرز کے جمہوری رویے بھی زوال پذیر ہیں، وہ امیدواروں کو بیچ راستے میں روک کر یا محلہ میں انتخابی مہم کے دوران توہین آمیز سوالات سے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں اور ماہرین قانون نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ملنے والے استثنیٰ اور ای سی ایل سے نام خارج کرنے پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے، ادھر نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی نے کراچی میں اہم سیاسی شخصیات کی سیکیورٹی بڑھانے کی ہدایت جاری کی ہے جب کہ محکمہ داخلہ کی جانب سے بھی ایک مراسلے کے ذریعے اندرون سندھ میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی شخصیات پر مخالفین کی جانب سے ممکنہ حملوں سے متعلق الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ الیکشن سے قبل اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ایک خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لائرز فاؤنڈیشن فارجسٹس کی درخواست پر سماعت کی، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ نیب آرڈیننس کے دائرہ کار میں آتا بھی ہے یا نہیں؟ فیصلے کی نقل میرے سامنے ہوگی تو دیکھ سکوں گا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔

سربراہ پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی افتخار محمد چوہدری نے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلہ پر رائے دی ہے کہ فیصلہ بہت ہی کمزور ہے، اس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، ان کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ جج کی صوابدید ہے، وہ فیصلہ کو معطل بھی کر سکتا ہے۔ انھوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں یہ بات کہی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ نظر آ رہا ہے کہ ملک بربادی کی طرف جا رہا ہے۔

ادھر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں سندھ تک محدود رکھنے کی سازش کی جارہی ہے، پیپلز پارٹی نے عام انتخابات کے حوالے سے اپنے خدشات و تحفظات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیے، پی پی قیادت کا کہنا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کا ہدف پیپلز پارٹی رہی ہے۔ بہرحال ضرورت صورتحال کو سنبھالنے اور بڑے پیمانہ پر خیرسگالی کا انتخابی ماحول پیدا کرنے کی ہے، گیند اب نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔